کسی بھی جمہوری ملک میں جمہوریت کے استحکام کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہاں انتخابی عمل مشتبہ نہ ہو اور عوام الناس کے ذہن ودل میں نتائج کے متعلق کسی طرح کا وسوسہ پیدا نہ ہو ۔ مگر افسوس صد افسوس حالیہ دنوں میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اپنے وطنِ عزیز ہندوستان کے انتخابی عمل مشکوک ہوتے جا رہے ہیں اور پارلیامانی انتخابات ہوں کہ اسمبلی انتخابات،کے نتائج کے بعد قومی سطح پر یہ سوال اٹھنے لگتا ہے کہ جو نتیجہ سامنے آیا ہے وہ عوام الناس کے یقین کو متزلزل کرنے والا ہے اور اس کے دو بنیادی وجوہ ہیں ۔ اول تو یہ کہ ہمارے ملک میں انتخابی عمل کے درمیان ہی مختلف طرح کے ایگزٹ پول شروع ہو جاتے ہیں اور وہ قومی سطح پر مشتہر کیے جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس ایگزٹ پول کو الگ الگ سیاسی نظریے سے دیکھا جاتا ہے اور حالیہ دنوں میں تو بیشتر ایگزٹ پول کرنے والی ایجنسیوں کے خواب چکنا چور ہوئے ہیں۔ دوسری تلخ سچائی یہ ہے کہ اب چوں کہ ہر ایک بوتھ کے ای وی ایم الگ الگ ہوتے ہیں اور جس کی وجہ سے بھی ووٹروں کے ذہن میں یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ یہاں جتنا فیصد ووٹ ڈالا گیا تھا اس سے کہیں زیادہ ووٹوں کی گنتی کی گئی ہے اور ووٹروں کو یقین ہی نہیں ہوتا کہ جس پارٹی کے حمایتیوں کی تعداد انگلیوں پر گننے والی اس بوتھ پر تھی وہاں انہیں سینکڑوں میں ووٹ ملتے ہیں ۔حالیہ پارلیامانی انتخاب میں بھی اس طرح کے ہزاروں بوتھوں کی مثال سامنے آئی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے کئی معاملے عدالتِ عظمیٰ تک پہنچے تھے اور عدالت نے اپنے تاریخی فیصلے میں کہا کہ اگر کسی بوتھ پر اس طرح کا شک وشبہ ہوتا ہے تو اس حلقے کے امید وار ای وی ایم اور وی وی پیٹ کے ملان کے لیے 47200 روپے جمع کرا کر انتخابی کمیشن سے دوبارہ ووٹ شماری کرا سکتے ہیں۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگردوبارہ ووٹ شماری کے اس عمل میں ایک بھی ووٹ کی زیادتی یا کمی ہوتی ہے تو بطور فیس لی گئی رقم امیدوار کو واپس کی جائے گی۔مگر المیہ یہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کو بھی انتخابی کمیشن اہمیت نہیں دے رہی ہے اور ہریانہ اسمبلی انتخاب کے بعد جتنے بھی اس طرح کی دعویداری کی گئی تھی وہ سب ٹھنڈے بستے میں ہے۔ اب جب کہ مہاراشٹر اسمبلی کا انتخابی نتیجہ سامنے آیا ہے تو ایک بار پھر عوام الناس میں طرح طرح کی چہ می گوئیاں شروع ہوگئی ہیں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی یہ خلاصہ کیا جا رہاہے کہ کس طرح الکشن کمیشن نے اپنے عملی رویے سے نتائج کو متاثر کیا ہے ۔اس طرح کے شک وشبہات نہ صرف کسی سیاسی جماعت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ جمہوریت کی صحت کے لیے بھی خسارہ عظیم ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور اس پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
بہر کیف! ملک کی مختلف ریاستوں کی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آچکے ہیں اور اسی کڑی میں ریاست بہار اسمبلی کی چار خالی سیٹوں کے لیے بھی ضمنی انتخاب ہوا تھااور ان چاروں سیٹوں پر نتیش کمار کی قیادت والی این ڈی اے کو کامیابی ملی ہے۔جب کہ یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ ان چاروں سیٹوں کے نتائج چونکانے والے ہوں گے مگر جن کو بہار کی سیاست سے دلچسپی ہے انہیں زمینی حقیقت معلوم تھی کہ نتائج کیا ہوں گے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ضمنی انتخابات میں چوں کہ کسی حکومت کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوتا کہ اکثریت والی حکومت کو یہ خطرہ نہیں رہتا کہ اس ضمنی انتخاب سے حکومت جا بھی سکتی ہے اس لیے حکومت صرف اپنی ساکھ بچانے کے لیے جی توڑ کوشش کرتی ہے اور حزب اختلاف کی پارٹیاں حکومت کی کارکردگی پر سوال قائم کرنے کے لیے ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ بہار میں حالیہ دنوں میں پرشانت کشور نے جس طرح ایک نئی سیاسی جماعت ’’جن سوراج‘‘ کی تشکیل دی تھی اور انہوں نے اس ضمنی انتخاب میں اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے اسی وقت راقم الحروف نے لکھا تھا کہ اس ضمنی انتخاب کے نتائج کیا ہونے والے ہیں کیوں کہ پرشانت کشور کے سیاسی عندیہ اظہر من الشمس ہیں کہ وہ کس مشن میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے اس مشن کا پردہ فاش بھی اس ضمنی انتخاب کے نتائج نے کردیا ہے۔ واضح ہو کہ بہار میں چار اسمبلی حلقے بیلا گنج، امام گنج، رام گڑھ اور تراری میں انتخاب ہونے تھے اور ان چاروں جگہوں پر قومی جمہوری اتحاد کو کامیابی ملی ہے۔ رام گڑھ اور تراری میں بھاجپا کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جب کہ بیلا گنج میں جد یو کو کامیابی ملی ہے۔امام گنج میں ہندوستانی عوام مورچہ یعنی جیتن رام مانجھی کی پارٹی کامیاب ہوئی ہے۔ ان چاروں اسمبلی حلقے کے ووٹوں کے اعداد وشمار سے یہ اندازہ لگ جاتا ہے کہ جن سوراج نے کس کا کھیل بگاڑا ہے۔تراری میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار وشال پرشانت کو 78755ووٹ ملے تھے جب کہ مالے کے راجو یادو کو 68143اور جن سوراج کو 5622ووٹ ملے ہیں ۔رام گڑھ میں بھاجپا کے کامیاب امیدوار اشوک کمار سنگھ کو 62257ووٹ ملے تھے جب کہ بسپا کے ستیش یادو کو 60895اور راجد کے اجیت سنگھ کو 35825ووٹ ملا ہے۔امام گنج میں جتین رام مانجھی کی بہو دیپا کماری مانجھی کو کل ووٹ 53435ملے ہیں اور راجد کے امیدوار روشن کمار کو 47490جب کہ جن سوراج کے امیدوار جیتندر کمار کو 37103ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔اسی طرح بیلا گنج میں جنتا دل متحدہ کی کامیاب امیدوار منورما دیوی کو 73334ووٹ ملے ہیں اور راجد کے وشوناتھ کو 51953جب کہ جن سوراج کے محمد امجد کو 17285ووٹ ملے ہیں۔ ووٹوں کے اس اعداد وشمار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پرشانت کشور اپنے مشن میں کامیاب رہے ہیں اور انڈیا اتحاد یعنی راشٹریہ جنتا دل اور مالے کے امیدواروں کی شکست فاش کی وجہ کیا رہی ہے۔اس ضمنی انتخاب کے بعدریاست میں سیاسی بیانیہ میں بھی تبدیلی آئی ہے کہ جنتا دل متحدہ کے ممبر پارلیامنٹ اور مودی کابینہ میں وزیر راجیو رنجن عرف للن سنگھ نے گذشتہ کل مظفرپور میں پارٹی کی میٹنگ میں اعلانیہ کہا کہ جنتا دل متحدہ کو مسلمان ووٹ نہیں دیتے ہیں اور ہماری پارٹی کے کسی بھی لیڈر کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنی چاہیے کہ مسلمان انہیں ووٹ دیں گے۔شاید اس میٹنگ میں مسلم طبقے کے بھی ان کی پارٹی کے لیڈر رہے ہوں گے اور ان کے چہرے کے تاثرات کو دیکھ کر للن سنگھ نے یہ بھی کہا کہ نتیش کمار کوجوووٹ دیتے ہیں اس کے لیے بھی کام کرتے ہیں اور جو نہیں دیتے ہیں اس کے لیے بھی کرتے ہیں۔ واضح ہو کہ اسی طرح کا بیان حالیہ پارلیامانی انتخاب کے نتائج کے بعد جد یو پارلیامانی ممبر دیویش چندر ٹھاکر نے بھی دیا تھا ۔غرض کہ ایک طرف راشٹریہ جنتا دل اپنی شکست فاش کے لیے مسلمانوں کے سر ٹھیکرا پھوڑ رہے ہیں تو دوسری طرف حکمراں جماعت کے ممبر پارلیامنٹ مسلمانوں کی سیاسی بصیرت کو اجاگر کر رہے ہیں ۔دراصل مسلمانوں کو ریاست بہار ہی نہیں بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں اس مقام تک کسی دوسرے نے نہیں بلکہ مسلمانوں کی جذباتی سیاست نے پہنچایا ہے کہ ہم ہر ایک انتخابی ماحول میں اپنی دیوانگی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ حال ہی میں مہاراشٹر میں بھی ایک مذہبی عالم نے جس طرح کا بیان دیا تھا وہ تو کوئی سنجیدہ فہم وادراک کا مالک نہیں دے سکتا ، کوئی دیوانہ ہی دے سکتا ہے کہ دیوانہ صرف اوروں سر نہیں پھوڑتا وہ اپنی دیوانگی میں اپنے جسم کو بھی لہو لہان کرتا رہتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)