Home نقدوتبصرہ بہار میں اردو صحافت: سمت و رفتار

بہار میں اردو صحافت: سمت و رفتار

by قندیل

 

مرتب: ڈاکٹر منصور خوشتر
ضخامت: 320صفحات
سال اشاعت: 2016
ملنے کا پتہ: ایجوکیشنل پبلی شنگ ہاؤس، دہلی۔
تبصرہ: نوشاد منظر، نئی دہلی۔ 25

ڈاکٹر منصور خوشتر کی مرتب کردہ کتاب ” بہار میں اردو صحافت: سمت و رفتار“ میرے ہاتھوں میں ہے۔ اس سے قبل بھی ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آکر ادبی حلقے سے داد و تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ زیر نظر کتاب کئی لحاظ سے اہم ہے۔ اس کتاب میں 27مضامین شامل ہیں۔ تمام مضامین کا تعلق بہار کی صحافت اور اس سے منسلک مختلف جہات سے ہے۔
صحافت کا دائرۂ کار وسیع ہوتا ہے، اس میں ادب کے ساتھ ساتھ روزگار، سیاسی، سماجی، معاشی اور سائنسی موضوعات پر قومی اور بین الاقوامی خبروں اور تجزیوں کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر منصور خوشتر نے کتاب کے دیباچے میں اردو صحافت کی تاریخ، اس کے ارتقائی سفر میں آنے والی دشواریوں کے ساتھ ساتھ اردو کے اہم اور معتبر صحافیوں کی خدمات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی اس کتاب میں شامل مضامین کا نہایت مختصر جائزہ بھی پیش کیا ہے۔
زیرِ تبصرہ کتاب میں پہلا مضمون”بہار میں اردو صحافت: سمت و رفتار۔ ایک تاثر“ ہے جسے مشتاق احمد نوری نے تحریر کیا ہے۔اس مضمون میں انہوں نے بہار کی ادبی صورت حال اور صحافت کے ماضی اور حال پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے صحافت کو عذاب سے تعبیر کیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے موجودہ دور کے ان صحافیوں کی طرف اشارہ بھی کیا ہے،جن کی وجہ سے آج صحافت کا نہ صرف معیار گھٹا ہے بلکہ صحافتی پیشہ بدنام بھی ہوا ہے۔
ڈاکٹر عبد الحنان سبحانی کا مضمون ”اردو صحافت اور قومی یک جہتی“ہے۔ قومی یکجہتی ہمارے ملک بھارت کی شناخت ہے اور معاصر عہد میں اس کی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے۔ ڈاکٹر عبد الحنان سبحانی نے قومی یک جہتی کے فروغ میں اردو صحاٖفت کی خدمات کا جائزہ پیش کیا ہے۔انہوں نے بالکل درست لکھا ہے کہ اردو زبان کی بنیاد ہی قومی یک جہتی پر قائم ہے۔انہوں نے اردو کے ان اخبارات کا ذکر بھی کیا ہے جوحالات حاضرہ پر تبصرہ کرکے قومی یک جہتی کو فروغ دے رہے ہیں۔
زیر نظر کتاب میں شامل ایک مضمون ”بہار میں اردو صحافت: سمت و رفتار“ ہے جسے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے تحریر کیا ہے،موصوف نے بہار کی صحافت اور مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، خبروں کے معیار کے متعلق ان کا خیال ہے کہ تراجم کی وجہ سے اردو صحافت میں نقالی کو فروغ مل رہا ہے۔اردو صحافت کے گرتے معیار پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ صحافیوں کو تنخواہ کم ملتی ہے، اردو اخبارات ہمیشہ مالی بحران کا شکار رہے ہیں۔ یقینا یہ ایسے اہم مسائل ہیں جن کی وجہ سے اردو صحافت کا معیار کم ہوا ہے۔
ڈاکٹر سید احمد قادری کا مضمون ”بہار کی اردو صحافت آزادی کے بعد“ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ سید احمد قادری نے بہار سے شائع ہونے والے اہم رسائل و جرائد کے ساتھ ساتھ مختلف اخبارات اور ان کے مدیروں کے خدمات کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔ یہ مضمون بہار کی اردو صحافت کی تاریخ مرتب کرنے والے حضرات کے لیے کافی معاون و مددگار ثابت ہوسکتاہے۔
حقانی القاسمی کا مضمون”صحافت، صارفیت، صارفیت اور صہیونیت“ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ حقانی القاسمی نے ابتدائی دور کے ان اشخاص کا ذکر کیا ہے جنہوں نے صحافت کی اخلاقیات کا آخر دم تک خیال رکھا، مگر آج صحافتی دنیا میں ایک منفی تبدیلی آگئی ہے اور یہ تبدیلی دراصل صارفیت کی ہے جس نے اخلاقیات کی جگہ لے لی ہے۔ موصوف نے خبروں کی خرید و فروخت کا بھی ذکر کیا ہے،دراصل آج کی صحافت تجارت کا ایک وسیلہ بن کر رہ گئی ہے۔ حقانی القاسمی نے صحافت میں صہیونیت کے حاوی رجحان کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ صہیونی مداخلت نے صحافت کی غیر جانب دارانہ شناخت کو مجروح کیا ہے، جس کی وجہ سے عدل و انصاف اور شفافیت اور آزادی کے ساتھ حق گوئی و بیباکی کو مجروح کیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ صحافت کا یہ گرتا معیار معاشرے کے ذہن اور ضمیر کے زوال کا آئینہ دار ہے، اگر صحافتی اقدار کو قائم نہ رکھا گیا تو معاشرے کوزوال سے کوئی نہیں روک سکتا۔
اس کتاب میں کئی دیگر نہایت اہم قلمکاروں کی تحریریں شامل ہیں، یہ تمام تحریریں نہ صرف بہار کی صحافت بلکہ صحافتی تاریخ کا آئینہ دار ہیں۔ چند اہم مضامین اس طرح ہیں:
صفدر امام قادری کا مضمون ”بہار میں اردو صحافت: تاریخ، تکنیک اور معیار کا جائزہ“ ہے۔ صفدر امام قادری نے اردو صحافت کو درپیش مسائل کی جانب بھی اشارہ کیا ہے، انہوں نے قواعد اور انشا کی غلطیوں کی جانب اشارہ کیا ہے اور اسے اردو صحافت کی پستی سے تعبیر کیا ہے، انہوں نے بہار کی ادبی صحافت کا جائزہ بھی پیش کیا ہے۔
”بہار میں اردو صحافت: آزادی کے بعد“(انوار الحسن وسطوی)، سول معاشرہ: اردو میڈیا کا کردار اور زمہ دار کون“(ریحان غنی)،”بہار میں اردو صحافت کا عصری منظر نامہ“(شاہد الاسلام)،”بہار میں جرائد نسواں: صحافت کا ایک گمشدہ باب“(جمیل اختر)، بہار میں اردو صحافت: مسائل، حل اور امکانات“ (کامران غنی)، ”متھلا کے پانچ رسائل: ایک جائزہ“(سلمان عبد الصمد) اور نئے قلمکار کے طور پر محمد فہام الدین کا مضمون”بہار کی اردو صحافت کی زبان کا معیار“ اہم اور قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر منصور خوشتر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نہایت اہم موضوع پر نہایت ہی اہم اور قابل احترام اشخاص کے مضامین کو یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے، یقینا یہ کتاب قارئین کے لیے مفید ثابت ہوگی۔

You may also like

Leave a Comment