Home تجزیہ بہار میں ترقی یافتہ ہندوستان مہم-پروفیسر مشتاق احمد

بہار میں ترقی یافتہ ہندوستان مہم-پروفیسر مشتاق احمد

by قندیل

ان دنوں ملک میں ’’ترقی یافتہ ہندوستان۔ 2047 ‘‘کی مہم چل رہی ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعہ ملک کے تمام تعلیمی اداروں کو اس خصوصی مہم کے لیے مختلف طرح کے پروگرام منعقد کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔تاکہ ان پروگراموں کے ذریعہ طلبا وطالبات اپنے وطن عزیز ہندوستان کی ترقیاتی رفتار سے واقف ہوسکیں اور مستقبل میں وہ کیسا ہندوستان دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ملک کو تمام شعبے میں کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے اس کے لیے مشورہ بھی طلب کرنا ہے۔بہار میں اس خصوصی مہم کے لیے نہ صرف راج بھون فعال ہے بلکہ ریاست کی تمام یونیورسیٹیاں اپنے دائرہ کار کے کالجوں کوطرح طرح کی ہدایتیں دے رہی ہیں۔ واضح ہو کہ بہار میں یونیورسیٹیوں کے چانسلر گورنر موصوف ہوتے ہیں لہذا انہوں نے سب سے پہلے ریاست کی تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے ساتھ راج بھون میں میٹنگ کی اور اس خصوصی مہم کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا کو جوڑنے کی گذارش بھی کی ۔ ظاہر ہے کہ گورنر موصوف کی ہدایت کے بعد تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں کو حرکت میں آنا تھا اس لیے ریاست کی تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ’’ترقی یافتہ ہندوستان۔2047‘‘ کے پروگراموں کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ اگرچہ اس پروگرام کو ایک طبقہ سیاسی پروپیگنڈہ قرار دے رہا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ خصوصی مہم ہندوستان کے ایک بڑے طبقے کو سرکاری اسکیموں کے نفاذکی معلومات اور مستقبل کے لیے ترقیاتی خاکوں کی تیاری کے لیے مشورہ طلب کرنے کی خاطر چلائی جا رہی ہے ۔ چوں کہ حکومت کی طرف سے یہ حکم نامہ جاری ہوا ہے اس لیے حزب اختلاف کو اس پر اعتراض ہے کہ تعلیمی اداروں میں سرکاری اسکیموں کے تعلق سے پروگرام کرنا بہتر نہیں ہے۔لیکن ہندستان جیسا جمہوری ملک جہاں کی پچاس فیصد آبادی ایسی ہو جس کی عمر پچیس سال سے کم ہو اور 65فیصد آبادی جس کی عمر35سال سے کم ہو ایسے ملک میں اس طرح کی مہم ملک وقوم کے مفاد میں ہے۔کیوں کہ نئی نسل اپنے ملک کے ترقیاتی کاموں سے کس قدر مطمئن ہے اور اپنے وطن عزیز کو مستقبل میں کیسا دیکھنا چاہتی ہے اگر اس پر بحث ومباحثہ کرایا جا رہا ہے اور پھر ان تمام طلبا وطالبات سے انفرادی طورپر رائے لی جا رہی ہے اور اس میں بالکل آزادانہ طورپر اپنی رائے دینی ہے تو یہ ایک قابلِ تحسین قدم ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پچیس سال کی عمر کے طلبا کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔یہاں اس حقیقت کو عیاں کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ تعلیمی اداروں میں مختلف سیاسی نظریوں سے وابستگی رکھنے والے طلبا وطالبات ہیںاور اس خصوصی مہم میں کہیں بھی کسی خاص سیاسی جماعت کی قید نہیں ہے ۔میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اس مہم میں جو طلبا حصہ لے رہے ہیں وہ مثبت اور منفی دونوں طرح کی رائے ظاہر کر رہے ہیںاور بعض طلبا کی جانب سے مستقبل کا ہندوستان کیسا ہونا چاہیے اس پر اپنا نظریہ پیش کر رہے ہیں۔اگر واقعی حکومت نیک نیتی سے اس مہم میں شامل ہونے والے طلبا وطالبات کے اظہارِ رائے کا محاسبہ کرتی ہے اور پھر جو نتائج سامنے آتے ہیں اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتی ہے تو ممکن ہے کہ مستقبل کے ہندوستان کی تصویر کچھ الگ نظر آئے گی ۔گذشتہ پندرہ دنوں سے مسلسل اس خصوصی مہم کے تحت تعلیمی اداروں میں پروگرام چل رہے ہیں ۔ سمینار ومذاکرے ہو رہے ہیںاور آن لائن فڈ بیک لیے جا رہے ہیں۔بہار کے مختلف کالجوں میں طلبا یونین قدرے فعال نظر آرہی ہے۔اساتذہ اور اداروں کے ذمہ داران سرکاری حکم ناموں کے مطابق اس میں شامل ہو رہے ہیں ۔قومی سطح پر بھی اس پروگرام کو کامیاب بنانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ اس وقت اپنے ملک میں 1113یونیورسٹیاں جن میں سرکاری اور پرائیوٹ بھی شامل ہیں اور 43796کالجوں کے علاوہ 11296ایسے تعلیمی ادارے ہیں جہاں مختلف طرح کے کورسوں کی تعلیم دی جا رہی ہے ۔ ایک اندازہ کے مطابق اس وقت پورے ملک میں 4کروڑ 33لاکھ ایسے طلبا وطالبات ہیں جن کی عمر پچیس سے 35سال کے درمیان ہے۔ دراصل موجودہ حکومت کا نشانہ یہ ہے کہ جس وقت ہماری آزادی کے سو سال یعنی 2047ء میں پورے ہوں گے اس وقت ہمارا ملک عالمی نقشے میں کہاں ہوگا اور اس کے لیے ابھی سے کس طرح کے اقدامات کئے جانے چاہئیں بالخصوص ہماری نئی نسل اپنے ملک کی ترقی اور اپنے مستقبل کے تئیں کس قدر سنجیدہ ہیں اس کا بھی اندازہ ہوگا۔بلا شبہ نئی نسل سے مکالمہ ضروری ہے کہ ان کی ذہانت کا اندازہ لگایا جا سکے اور اس دورِ عا لمیت میں ملک کوکیا کرنا چاہیے اس کی بھی واقفیت ہو سکے۔یوں تو مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں اپنے طورپر طرح طرح کی اسکیموں کے خاکے تیار کرتی ہیں اور پھر اس کے نفاذ کے لیے ہدایت نامے جاری کیے جاتے ہیں ۔یہ پہلا موقع ہوگا کہ مرکزی حکومت نئی نسل کو یہ موقع دے رہی ہے کہ وہ آزادانہ طورپر اپنی رائے پیش کریں ۔ اس لیے تعلیمی اداروں میں صرف کاغذی خانہ پُری کے لیے یہ پروگرام نہیں ہے بلکہ مستقبل کا ہندوستان کیسا ہونا چاہیے اس کے لیے ان تمام طلبا وطالبات کی آرا مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ سنہری موقع ہے کہ تعلیمی اداروں کے سربراہان اور اساتذہ زیادہ سے زیادہ طلبا وطالبات کو اس خصوصی مہم میں شامل کریں اور انہیں تاکید کریں کہ وہ لازمی طورپر اس مہم میں شامل ہوں اور اپنی آزادانہ رائے پیش کریں۔چوں کہ اس خصوصی مہم کے لئے حکومت نے آن لائن پورٹل بنا رکھا ہے اور اس پورٹل پر طلبا اپنے موبائل فون یا پھر سائبر کیفے کے ذریعہ اپنی رائے اندراج کرا سکتے ہیں۔بالخصوص اقلیت طبقے کے طلبا کو اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور اپنے احساسات درج کرانے چاہئیں۔ کیوں کہ جب کبھی اس طرح کی مہم شروع ہوتی ہے تو بین الاقوامی سطح کی مختلف تنظیمیں حاصل شدہ آرا کا استعمال کرتی ہیں اور ملک کے اندر کیا کچھ ہو رہا ہے اور عوام کیا کچھ سوچتی ہے اس کا خلاصہ بھی کرتی ہیں اس لیے اقلیت طبقے کو اس خصوصی پروگرام میں اپنی حصہ داری کو یقینی بنانے کے لیے مقامی سطح پر بھی بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں جب کبھی اس خصوصی مہم میں حصہ لینے والوں کی تعداد مشتہر کی جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے نہ آئے کہ اقلیت طبقہ ملک کے مستقبل کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے۔میرے خیال میں تعلیمی اداروں میں اقلیت طبقے کے جواساتذہ اور ملازمین ہیں وہ بھی اس میں خصوصی دلچسپی لیں اور اقلیت طبقے کے طلبا وطالبات کو اس مہم میں حصہ لینے کے لیے راغب کریں کہ یہ وقت کا تقاضہ ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like