Home تجزیہ بہار مدرسہ بورڈ کے نصاب میں تبدیلی خوش آئند-عادل عفان

بہار مدرسہ بورڈ کے نصاب میں تبدیلی خوش آئند-عادل عفان

by قندیل

آج ملک ایک شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ مفاد پرست عناصر کی جانب سے فرقہ واریت کو ہوا دی جارہی ہے جس کی وجہ سے ملک کی فضا مسموم ہوچکی ہے۔ایک مخصوص طبقے کو مذہب کے نام پرمسلسل ٹارچر کیا جارہا ہے،ان کی ہر چیز اکثریتی طبقے کی آنکھوں میں چبھنے لگی اور ان میں سب سے زیادہ جو چیز کھٹکتی ہے وہ ہندوستان میں مدارس کا وجود ہے۔
اس میں ایک طرف جہاں مذہبی عصبیت کارفرما ہے وہیں دوسری طرف مدارس اور مدارس کے نصاب تعلیم میں کچھ ایسی خامیاں ہیں جن کی وجہ سے اکثریتی طبقے کو ان کا وجود بے معنی سا لگنے لگا۔عالم اسلام کم از کم تین سو برسوں سے فکری زوال کا شکار ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ بلا شبہ ہمارا تعلیمی نظام ہے،کیوں کہ اسلامی فکر کی تعمیر میں تعلیمی نصاب کا ایک بڑا کردار ہے۔یقینا ماضی میں مدارس نے اسلامی افکار کی ترویج اور ایک مہذب و باقار سماج کی تشکیل میں نمایاں کردار اداکیا۔لیکن موجود ہ دورمیں ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ مدارس نے اپنا وقار کھودیا ہے اور جس قیادت کی مدارس سے امید کی جاتی رہی ہے وہ اب ناپید ہوچکی ہے نیز مدارس کی اہمیت اور ان کی سرگرمیوں کا دائرہ مدارس کی چاردیوار ی تک ہی محدو د ہوکر رہ گیا ہے۔لیکن اس کے باوجود بعض روایتی علما اپنے مفاد کی خاطراب بھی مدارس کے ثنا خواں ہیں اور وہ ببانگ دہل یہ اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ اگر مسلمان دینی و دنیوی ترقی چاہتے ہیں تو انھیں مدارس کی اپنی جان سے بھی زیادہ حفاظت کرنی ہوگی اور ان کے نصاب میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی ہر گز برداشت نہیں کی جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مدارس کے نصاب میں ذرہ برابر بھی تبدیلی آئی تو یقینا مسلمانوں کی عاقبت خراب ہوجائے گی اور ان کا رشتہ اللہ سے ٹوٹ جائے گا۔لیکن جب یہی علمائے کرام مدارس کی چار دیواری سے باہر نکلتے ہیں اور عملی میدان میں آتے ہیں تو انھیں اپنی حقیقت اور کم مائیگی کاشدید احساس ہونے لگتا ہے۔
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مدارس کی اہمیت و افادیت کا انکارمقصود ہے لیکن ذمے داران مدارس سے شکوہ ضرور ہے کہ انھوں نے ان طلبہ کو جہاں بہت سارے علوم سے مستفید کیا وہیں انھیں بہت سارے علوم سے محروم بھی کر دیا۔مدارس کے طلبا اپنی زندگی کے دس، بارہ سال کے قیمتی اوقات مدارس کی چار دیوار میں گزارتے ہیں اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ان کی ذہنی نشو ونما بہتر طریقے سے ہوسکتی ہے۔لیکن انھیں مدارس کی چار دیواری تک ہی محدود کر دیا جاتا ہے۔اگر ان میں سے بعض خالی اوقات میں مدرسے کی چار دیواری کے باہر جدید علوم (انگریزی یا کمپیوٹر) سیکھنا چاہتے ہیں تو انھیں یہ موقع نہیں دیا جاتا۔بسا اوقات اس کام کو جرم عظیم سمجھا جاتا ہے اور ان کو مدارس سے خارج بھی کردیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں عموماً دو طرح کے مدارس ہیں۔ ایک وہ مدارس جو مکمل طور پر سرکاری مراعات سے دور ہیں۔ دوسرے ایسے مدارس جو ملک کی مختلف ریاستوں میں قائم مدرسہ بورڈ سے ملحق ہیں۔ اگر نصاب کی بات کریں تو بورڈ سے آزاد مدارس کے نصابات سے بورڈ سے ملحقہ مدارس کے نصاب قدرے بہتر ہے، مگر اکثر بورڈ کے مدارس میں بورڈ کے نصاب کا بہت زیادہ پاس ولحاظ نہیں رکھا جاتا، جس کی وجہ سے بورڈ سے ملحق مدارس بھی عصری تعلیم سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں ہو پاتے ہیں۔
اس سلسلے میں بہار مدرسہ بورڈ کے چیئرمین محترم عبد القیوم انصاری کے اقدامات قابل تعریف ہیں۔ انہوں نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی بورڈ سے ملحقہ مدارس میں جو اصلاحات کرنے کی کوشش وہ خوش آئند ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ برسوں سے چلی آرہیں روایات اور بدنظمیوں کو ختم کرنا یک لخت آسان نہیں اور ان میں بہت سی اصلاحات ابھی باقی ہیں۔ خصوصاً مدرسہ بورڈ کے طلبا کو قومی تعلیم کے دھارے سے جوڑنے اورانہیں اسکول کے طلبا کے مدمقابل کھڑا کرنے بلکہ برتر کرنے کے سلسلے میں یونیسیف (Unisef)کی رہنمائی لیتے ہوئے نصاب تعلیم میں تبدیلی کرکے این سی ای آرٹی (NCERT)سے جوڑا گیا وہ نہایت ہی قابل قدر ہے۔ جس میں وسطانیہ، فوقانیہ اور مولوی درجات کے نصاب تعلیم کو از سر نو کو مرتب کیا گیا ہے اوران کے ہی مطابق 2021کے امتحانات منعقد ہوں گے۔ اسی طرح اسکول کے طرز عمل پر مولوی آرٹس، مولوئی سائنس، مولوی کامرس اور مولوی اسلامیات کے نصاب بھی تیار ہیں۔
اورجہاں تک اساتذہئ کرام کو سہولیات فراہم کرنے کی بات ہے تو اس میں بھی بہت بہتری آئی ہے۔ لیکن پنشن (Pension) انکریمنٹ (increment)اور گریجویٹی(Gratuity)کی جانب توجہ دینے اور ان میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح قدرتی آفات وانتظامات (Desarter Managment)کی ٹریننگ کی شروعات، یواین ایف پی اے کے تعاون اور مدرسہ بورڈ کے اشتراک سے تعلیم نوبالغان پروگرام کا آغاز،مدارس کے پرنسپل کا ورکشاپ اور تعلیمی واصلاحی کانفرنس کا افتتاح، علاقائی دفتر کا قیام اور مدارس کو کمپیوٹر سے جوڑنے کے ساتھ آن لائن فارم بھرنے اور ایڈمیٹ کارڈ ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولیات قابل ذکر ہیں۔
ظاہر ہے ان خطوط پر اگر مدرسہ بورڈ گامزن رہے تو بہت جلد نمایاں کامیابیوں سے بورڈ کے فارغین لیس ہوں گے،لیکن ان عزائم اور اہداف کو حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے کام بھی ہیں جن پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ ان کے بغیر تعلیمی نظام میں نہ شفافیت آسکتی ہے اور نہ ہی بورڈ کے تیارشدہ کارآمد نصاب سے خاظر خواہ فائدہ برآمد ہوسکتا ہے۔یقینا بورڈ کا نصاب اسی وقت مفید ہوگا جب اس کے پڑھانے والے بھی ذی فہم اور باشعور ہوں۔ نصاب میں موجودہ تبدیلی سے پہلے بھی بہار مدرسہ بورڈ کا نصاب بہترین تھا، مگر بورڈ کے اعلی عہدیدان نے حالات کے مدنظر جو اقدامات کیے ان سے بورڈ کا تعلیم نظام مزید بہتر ہوگا، کیوں کہ یہ تبدیلی وقت کا تقاضاہے، اس صورت حال میں لازمی کام یہ کہ بہترین اساتذہ کی تقرری عمل میں لائی جائے۔ بہترین اساتذہ کی تقرری کے لیے بورڈ کے افراد چند ہدایات بھی جاری کریں، تاکہ بورڈ سے ملحقہ مدارس انہیں مدنظر رکھتے ہوئے اساتذہ بحال کریں۔ اگر بہترین اساتذہ کی تقرری عمل میں آئے گی تو وہ وقت کی قدر وقیمت کو بھی سمجھیں گے۔ کیوں کہ وقت شناسی کے بغیر تعلیمی نظام کو مستحکم کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ مجھے امید ہے کہ اساتذہ کی تقرری میں جتنی شفافیت برتی جائے گی، ہمارا مدرسہ بورڈ اتنا ہی فعال ہوگا۔ جس طرح تعلیمی صحت کی بحالی کے لیے بہترین اساتذہ کی ضرورت ہے، اسی طرح ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے مڈڈے میل میں بھی بہتری لانا لازمی ہے۔ یہ وہ بنیادی مسائل ہیں جن پر فوری توجہ درکار ہے، تاکہ نئے نصاب سے ہم زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکیں۔

موبائل:09013049075

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment