شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس ،آرٹس اینڈ سائنس ،پٹنہ
ادھر جب سے انتخابی مہم کی غیر رسمی ابتدا ہوئی ہے، ۲۰۲۴ء پر صاحبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں کی نگاہ ٹکی ہوئی ہے۔سیاسی اور سماجی طرح طرح کے موضوعات منتخب کیے جا رہے ہیں اور آیندہ دنگل کے لیے سب کی تیّاریاںزوروں پر ہیں۔ کہنے پر طرح طرح کی باتیں ہیں مگر نشانہ آنے والے پارلیمانی انتخاب اور اس کے بعد ہونے والے ریاستی اسمبلی انتخابات پر زیادہ ہے۔اِنھی باتوں کے پیشِ نظر پچھلے دنوں بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار نے عوامی سطح پر مرکزی حکومت کے سامنے یہ سوال قایم کیا کہ بہار کی پس ماندہ صورتِ حال دیکھتے ہوئے اِسے مرکز کو خصوصی امداد دینی چاہیے اور اس کی ترقی میں معاونت اُسی وقت ممکن ہے جب اِسے خصوصی ریاست کا درجہ عطا کردیا جائے گا۔مرکز کی طرف سے اس سلسلے سے کوئی خاص جواب نہیں آیا مگر بہار کے وزیرِ اعلیٰ اور اُن کی پیروی میں دوسرے وزرا اور سیاست داں یہ سوال قایم کرتے رہے ہیں۔امید یہ ہے کہ سیاسی ضرورت قایم رہی تو یہ ایجنڈاسامنے آئے گا اور اِسی موضوع پر مرکزی حکومت کو حصار میں لینے کی کوشش ہوگی۔
نتیش کمار نے ۲۰۰۶ء میں جب بہار میں حکومت قایم کی، اس وقت سے اب تک خصوصی ریاست کا درجہ دینے کی کئی بار مہم چلی ہے۔ اکثر و بیش تر جب مرکز میں اُن کی حریف جماعتیں ہوتی ہیں، اس وقت اُن کی یہ مہم تیز ہو جاتی ہے۔ من موہن سنگھ کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں طرح طرح سے یہ سوال اُٹھا، کمیٹیاں بنیں اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ جس سیاسی بساط پہ نتیش کمار نے شطرنج کے مہرے بچھائے ہیں، وہاں سے کوئی نتیجہ خیز جواب آ جائے گا۔یہ بھی خوب اتفاق ہے کہ یہ سوال اس زمانے میں زیادہ قابلِ توجہ نہیں رہاجب مرکز میں این ڈی اے کی حکومت تھی اور بہار میں نتیش کمار این ڈی اے کے سر براہ کے طور پر موجود تھے۔
اسی سے شبہات قایم ہوتے ہیںکہ اس بارے میں سنجیدگی کتنی ہے اور سیاسی حکمتِ عملی کے تحت سوالات قایم کرنے کا طوراختیار کرناکیوں کر روا رکھا گیا؟اِنھی اسباب سے پچھلے سترہ اٹھارہ برسوں میں مرکزی حکومت نے بھی اس موضوع پر کوئی خاص توجہ نہ دی، چاہے وہ حلیف پارٹیوں کی ہوں یا حریف جماعتوں کی۔اس سلسلے سے بھی ماضی میں بھی افسروں اور ماہرین کی مختلف کمیٹیاں قایم ہوئیں مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ بہار کو خصوصی ریاست کادرجہ نہ دیا جانا تھا، نہ ملا۔ اور اس طرح بہار کے وزیرِ اعلا نتیش کمار کے ہاتھ میں ایک مستقل ہتھیاربچا رہا جسے وہ سیاسی موقعے کے عین مطابق اُچھالتے رہتے ہیں۔
اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ صوبۂ بہار متعدد اسباب سے مُلک کے پچھڑے صوبوں میں سے ایک ہے۔عوامی وسائل ، غربت، کاشت کاری سے آمدنی، تعلیم ،صنعت کاری اور روزگار کے مواقع جیسی درجنوں شقیں ہیں جن میں بہار ہندستان کی پچھڑی ریاستوں میں سے ایک ہے۔اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پس ماندگی کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس کاسلسلہ بھی بہت پہلے سے قایم ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ پچھتر برس سے زیادہ کی آزاد قومیت ہونے کے باوجود صوبۂ بہار کو متوازن اور منظم طریقے سے آگے بڑھانے کے لیے کسی سرکار کی طرف سے ویسی پہل نہیں ہوئی جس سے اسے مُلک کے نمایاں اور ترقی یافتہ صوبوں میں گنا جا سکے۔یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کے مدِّ نظر بہار کے مقام و مرتبے کا جائزہ لینا چاہیے اور دوسری ریاستوں کے مقابلے اس کی شناخت کرنی چاہیے۔
بہار کی اب تک کی ساری حکومتوں پر یہ بات ایک الزام کی طرح نافذ ہوتی ہے کہ اس صوبے کی ترقی کے لیے منظم سطح سے کبھی کوشش نہیں ہوئی اور ایک سرکار کے بعد دوسری سرکار کو جس طرح منصوبہ بند طریقے سے کام کرنا چاہیے تھا، اس کی طرف سنجیدگی سے قدم نہیں بڑھائے گئے۔جس کی وجہ یہ ہوئی کہ پس ماندگی کی صورتِ حال میں مزید اضافہ ہوا اور رفتہ رفتہ بہار کا انڈکس گرتا چلا گیا۔آزادی کے بعدکچھ برسوں کے دوران صنعت کاری کی کوششیں ہوئیں مگر ۲۰۰۰ء میں جھارکھنڈ کی تشکیل کے ساتھ جمشید پور، بوکارو اور دھنباد جیسے صنعتی شہر بہار سے الگ ہو گئے۔ اس زمانے میں جب لالو یادو کی حکومت تھی اور تمام صنعت کاری سے تعلق رکھنے والے علاقوں کے جھارکھنڈ میں چلے جانے پر یہ مذاق قایم ہوتا تھا کہ جھارکھنڈ کے الگ ہو جانے کے بعد بہار میں بالو اور لالو بچیں گے۔کیوں کہ پورا شمالی بہار سیلاب کی تباہ کاریوں کے لیے دیکھا جاتا رہا ہے اور میدانی علاقے میں ندی کے کٹاو اور سیلاب سے کھیتوں پر بالو پھیل جاتا ہے۔بہار کے بٹوارے کے ۲۳؍ برسوں کے بعد صنعت کاری کی طرف کسی ٹھوس پہل کو ہوتے ہوئے ہم دیکھتے نہیں ہیں۔مطلب یہ کہ جھارکھنڈ کے الگ ہونے کے بعد بہار کو نئے سِرے سے گڑھنے کی کوئی خاص تیاری کسی حکومت نے نہیں کی۔
بہار میں تعلیم کے احوال ایک طویل مدت سے دگر گوں رہے ہیں۔ انجنیرنگ اور میڈیکل کے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرنے کے لیے بہار سے ہر سال کئی لاکھ بچّے دلّی اور راجستھان کے کوچنگ انسٹی ٹیوٹ میں جا کر پڑھتے ہیں۔ اسی طرح بی اے اور ایم اے کرنے کے لیے بھی ہر سال لاکھوں بچّے بہار سے نکل کر بنگال، اترپردیش، دلّی ، ہریانہ سے لے کر جنوبی ہندستان کی ریاستوں تک پہنچتے ہیں۔پرائیوٹ میڈیکل اور انجنیرنگ کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی بہار سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں بچّے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ بہار کی حکومتوں نے بڑے پیمانے پر اپنی آبادی کے مطابق تعلیمی ادارے بنائے ہوتے تو کیا ایسے کاموں کے لیے لاکھوں لوگوں کو باہر جانے کی ضرورت پڑتی؟ہرگز نہیں۔ جب انھیں اپنے گھر میں اعلا تعلیم اور کوچنگ کے لیے گنجائشیں نہیں نکلیں گی تو انھیں اپنے گھر ، زمین اور کھیت بیچ کر بھی اپنے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے آگے آنا ہوتا ہے۔
بہارایک خاص معاملے میں ایسا بد نصیب صوبہ ہے جہاں مزدوری کرنے کے لیے بھی دوہزار اور تین ہزار کلومیٹر دور جانے کی مجبوری ہوتی ہے۔پنجاب اور ہریانہ سے لے کر آسام اور مہا راشٹر تک ملک کا کون سا ایسا صوبہ اور بڑا شہر نہیں ہے جہاں ہر طرح کے مزدوری کے کام کے لیے بہار کے نوجوان اپنا لہو جلاتے ہیں۔جارج فرنانڈس جب وزیرِ دفاع کے طور پر کارگِل میں بن رہی سب سے اونچی سڑک کے جائزے کے لیے پہنچے تو ان کی ملاقات جن دو مزدوروں سے ہوئی، وہ دونوں بہار سے تعلق رکھتے تھے۔کورونا کے ابتدائی دورمیں پورے مُلک نے ٹیلی وژن پر بہار کے مزدوروں کو پیدل اور سائیکل سے ہزار اور دو ہزار کلومیٹر دور سے اپنے گھر بھوکے پیاسے جیتے مرتے لوٹتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ کیا ان تمام لوگوں کو اس سے آدھی رقم ان کے گھر، گاؤں یا اپنے صوبے میں مل جاتی تو وہ اپنے وطن اور اپنے خاندان کو چھوڑ کر اتنی دور کیوں کر جاتے؟
بہار کے اسکول اور کالج ایک طویل مدت سے اساتذہ کی کمی سے ناکارہ بنے ہوئے ہیں۔ نئے اداروں کا قیام تو ہوتا ہی نہیں ہے مگر پرانے اچھے اداروں کو بھی جب تک ناکارہ نہ بنا دیا جائے، بہار میں کسی کو چین نہیں آئے گا۔ حکومت اور حکومت کے اہل کاروں نے مل جل کر تعلیم گاہوں کو بیمار بنا دیا اور وہ اپنا سماجی اور تعلیمی فریضہ ایمان داری سے ادا نہیں کرسکتے۔اس سے تعلیمی، سماجی، اقتصادی اور نفسیاتی سطح پر بہار کا نوجوان خود کو شکست خوردہ محسوس کرتا ہے۔
آج اگر بہار کو خصوصی ریاست کادرجہ دیا جائے اور اس سلسلے سے حکومتِ ہند فیاضی کے ساتھ بہار میں ہر طرح کی ادارہ سازی کی مہم قایم کر دے تو ممکن ہے کہ صورتِ حال میں تبدیلی آئے۔ ابھی جو تبدیلی نظر آتی ہے ، وہ حقیقی زمین پر کم اور جملے میں زیادہ ہے۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ سیاسی جملوں سے نہ سیاست کا بھلا ہوتا ہے نہ عام آدمی کا۔ اس وجہ سے حکومتِ بہار کا یہ فریضہ ہے کہ وہ بہار کو خصوصی ریاست کادرجہ دلا کر بہار کی ہمہ جہت ترقی کے لیے ماحول سازی کر رہا ہے تو یہ نیک فال ہے۔
حکومتِ بہار پر ایک کھُلا الزام یہ عائد ہوتا ہے کہ مختلف محکموں کے سالانہ بجٹ سے کروڑوں اور اربوں روپے ہر سال اس بات کے لیے واپس ہوتے ہیں کیوں کہ انھوں نے وقت سے اُن پیسوں کوترقیاتی کاموں میں خرچ نہیں کیا۔دبے لفظوں میں یہ سوال بھی حزبِ اختلاف کے لوگ حکومتِ بہار سے پوچھتے رہے ہیں کہ جو رقم فی الوقت میسر ہے ، اسے خرچ کرنے میں جب آپ پورے طور پر کامیاب نہیں ہیں تو یہ کیسے کوئی مان لے کہ خصوصی ریاست کا درجہ دے کر آپ کو مرکزی حکومت مزید وسائل مہیا کر دے اور ان کا آپ استعمال آپ بھلا کیوں کر پائیں گے؟ عقلیت آبادی کے لیے ہر سال بجٹ میں رقم کم ہوتی جا رہی ہے اور اس سے بڑھ کر اربوں روپے نہیں خرچ کرکے واپس کرنے کی مہم چل رہی ہے۔اردو مشاورتی کمیٹی سے لے کراردو اکیڈمی تک پانچ چھے برسوں سے اپنی تشکیلِ نون کے انتظار میں ہے۔ اس میں بھلا مرکزی حکومت سے کون سی منظوری یا خصوصی ریاست کے درجے کی کون سی بات تھی۔ اس لیے سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ صوبۂ بہار کی ترقی کے لیے خصوصی ریاست کے نام پر نئے وسائل میسر آ جائیں تو اس سے بہتر کچھ نہیں مگر یہ صرف دکھانے یا سیاسی روٹی سینکنے کا کام نہیں ہونا چاہیے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہار ہی نہیں ، دوسرے پس ماندہ صوبوں کو بھی مرکزی حکومت کو زیادہ سے زیادہ معاونت دے کر آگے بڑھنے کے لیے راہ ہم وار کرنی چاہیے۔اسی سے ہندستان ترقی یافتہ مُلکوں کی فہرست میں شامل ہوگا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)