صفدر امام قادری
ایک طرف صوبہ در صوبہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے حکومتیں چھننے کا سلسلہ قائم ہے اور جھارکھنڈ یا مہاراشٹر کے بعد پورے ملک کی نگاہیں بہار اور مغربی بنگال کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ مغربی بنگال میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بڑھی ہوئی سرگرمی سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اسے ممتا بنرجی کو آسانی سے جیتنے نہیں دینا ہے۔ مگر سیاسی اعتبار سے نہایت مشکل اور بیدار صوبہ بہار میں جہاں اگلے چھے سات مہینوں کے بعد انتخابات ہونے ہیں مگر عجیب و غریب سناٹا پھیلا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور نتیش کمار کو غالباً یکسر اس بات کا خوف معلوم نہیں ہوتا کہ وہ سرکار سے بے دخل ہوسکتے ہیں۔ اندرونی طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی اور جنتا دل یونائیٹیڈ کے بیچ کی رسا کشی کبھی کبھی سطح پر آجاتی ہے مگر اب تک ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی جس سے کہا جاسکے کہ نتیش کمار کی قیادت کو دونوں پارٹیوں میں کوئی خطرہ ہے۔ اس لیے نریندر مودی کے نام سے بھارتیہ جنتا پارٹی اور نتیش کمار اپنے کام اور پالیسیوں کی بنیاد پر میدا ن میں اترنے کی تیاری میں ہیں۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ ملک میں جگہ جگہ جب بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی سرکاروں پر آفت آئی ہوئی ہے، ایسے میں بہار میں خاموشی اور سناٹے کے علاوہ حکمراں جماعت میں ایک اطمینان کی بھی کیفیت نظر آتی ہے۔ اطمینان کی ایک وجہ تو ہمیں معلوم ہے کہ حزبِ مخالف جسے عظیم اتحاد کا نام دیا جاتا ہے، اس میں ظاہری اور باطنی دونوں طرح کا انتشار نظر آتا ہے۔ نتیش کمار نے گذشتہ اسمبلی کا انتخاب ہر چند اسی عظیم اتحاد کے ساتھ مل کر لڑا تھا اور اقتدار تک پہنچے تھے مگر گذشتہ پارلیامنٹ میں اس جماعت کے اندر جو بکھراو نظر آیا، اسی کی بنیاد پر وہ اس بات کا اندازہ لگانے میں کامیاب ہوئے ہوں گے کہ یہ بکھری ہوئی جماعت نریندر مودی اور امت شاہ کے ساتھ نتیش کمار کے انتخابی طوفان میں کہیں نہیں ٹھہر پائے گی۔ ممکن ہے یہ حسنِ ظن ہومگر اس کی سرشاری میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور نتیش کمار دونوں مبتلا ہیں۔ یہی نہیں گذشتہ پارلیامنٹ کی طرح بہار میں کانگریس اور لالو یادو کی غیر موجودگی میں تیجسوی یادو کی قیادت والی راشٹریہ جنتا دل میں بھی کوئی حوصلہ مندی اور جوش و جذبہ نظر نہیں آتا۔ کانگریس تو قومی سطح پر اپنی شکست خوردگی سے خود کو نکال نہیں پارہی ہے مگر راشٹریہ جنتا دل میں بھی پارلیامنٹ کی ہار کے بعد اسمبلی انتخاب کے لیے کوئی عملی اقدام اور عوامی بیداری کی مہم کا ثبوت نہیں ملتا۔ جنگ کی اصطلاح میں اسے یوں کہتے ہیں کہ وہ آئے اور ہمیں زیر کرتے ہوئے آگے نکلتے چلے گئے۔ بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور نتیش کمار کے مخالفین اپنے طور پر پورا میدان خالی کرچکے ہیں، بس نومبر کے انتخابات اور موقعے کی سرگرمیوں تک خود کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔
نتیش کمار کو ان کے چاہنے والے عہدِ قدیم کے ماہرِ معاشیات اور سیاسی قائد چانکیہ سے موسوم کرتے ہیں۔ چانکیہ اپنے ذہن سے بادشاہوں کی پگڑیاں ادل بدل دیتا تھا۔ موجودہ عہد میں مفاد کی سیاست کے انتہائی درجے پر پہنچنے والے شخص کے لیے اس اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے۔ جس کی چت اور پٹ دونوں اپنی ہو، اسے ہی چانکیہ کہہ سکتے ہیں۔ سیاست میں اصول اور اخلاق جیسے الفاظ یوں بھی ایک طویل مدت سے بے گھری کا شکار ہیں مگر نتیش کمار کی سیاسی اٹھان میں ان کی چانکیہ نیتی نے ان الفاظ کو قبر میں گاڑ دیا ہے۔ ان کے لیے اقتدار میں مقامِ اول چاہیے، باقی سب آنی جانی ہے۔ رات کے اندھیرے میں یا دن کے اجالے میں وہ جب چاہیں گے، اپنا فلسفہ آمیز بیان ایمان اور اخلاق کے ملمعے کے ساتھ پیش کرکے نیا مورچہ اور اس کی قیادت کے شراکت دار ہوجائیں گے۔ ابھی حالات جب جب کروٹ لیتے ہیں یا دونوں حلیف جماعتوں میں کچھ اختلافات ابھر کر سامنے آتے ہیں، اس وقت بڑے سلیقے سے نتیش کمار امت شاہ یا اسی قد کے دوسرے لیڈر سے یہ بول پیش کراتے ہیں کہ بہار میں نتیش کمار کی قیادت میں ہی انتخاب کا عمل پورا ہوگا۔
ابھی حال کے دنوں میں نتیش کمار کے دو قریبی مشیر ان سے الگ ہوئے: پون ورما اور پرشانت کشور۔ دونوں کی حیثیت نتیش کمار کے مشیر کی رہی۔ پون ورما راجیہ سبھاتک پہنچے اور تہذیب و ثقافت کے امور میں وہ باضابطہ طور پر وزیر اعلا کے مشیر تھے۔ اسی طرح پرشانت کشور کو انھوں نے الیکشن مینیجر تو بنایا ہی تھا مگر اس سے بڑھ کر انھیں اپنی پارٹی کا نائب صدر بھی بنایا۔ اب دونوں سے انھوں نے رخصت پالی ہے اور پرشانت کشور تو روزانہ ان کے خلاف آواز بلند کرنے لگے ہیں۔ پرشانت کشور کی حیثیت سیاسی اور کاروباری دونوں ہے۔ ممکن ہے، وہ کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل کی بہار کی انتخابی سرگرمیوں میں ہزار پانچ سو کروڑ کا کاروبار بھی کرلیں مگر جس آسانی سے پرشانت کشور کو نتیش کمار نے پارٹی سے آزادی دی اور بہار میں اپنی مخالفت کے لیے سرگرم رہنے کے لیے کھلا چھوڑ رکھا ہے، سیاسی نبض پر انگلی رکھنے والے افراد یہاں دال میں کچھ کالا دیکھتے ہیں۔
ہندستانی فلموں میں کچھ ایسے مکالمہ نگار مشہور ہوئے جنھیں ایسے جملے لکھنے پر قدرت تھی جن کے دو معنی ہوتے تھے۔ ایک میں شرافت اور دوسرے میں ظرافت یا کمینگی۔ اٹھارہویں صدی میں اردو میں جس ایہام گوئی کی شاعری نے قبولِ عام کا درجہ حاصل کیا تھا، اس میں بھی یہ بات تھی۔ نتیش کمار کی سیاست میں اور ان کی سرگرمیوں میں ایہام کا پہلو اس قدر بھرا ہوا ہے کہ غور کریں تو محسوس ہوگا کہ یہ شخص تقریر میں تو سی۔اے۔اے۔ کی مخالفت کر رہا تھا پھر جب عمل کی باری آئے گی تو معلوم ہوا کہ اس کے کارندوں نے پارلیامنٹ میں اسے ہی ووٹ دیا۔ وہ خود تفکر آمیز انداز میں سیاسی اور سماجی مسئلوں پر اس انداز سے گفتگو کرتے ہیں کہ غور نہ کریں تو آپ انھیں سادھو اور پیر فقیر سمجھ لیں اور ذرا گہرائی سے توجہ دیں تو معلوم ہوگا کہ یہ شیطانی حرکات کا عامل ہے۔ نتیش کمار کی حکومت کے پہلے دور میں بہار کے گلی محلوں میں شراب کی دکانیں کھلیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چوری سے شراب بکتی ہے اور حکومت کا محصول گھٹتا ہے۔ اس لیے ہم عام لائسنس دیں گے۔ معلوم ہوا کہ اسپتال اور اسکول کالج کے دروازے پر بھی شراب کی دکانیں کھلیں مگر وہی شخص اچانک پورے بہار میں شراب بندی کا اعلان کرتا ہے اور وزیر اعظم سے بھی کہتا ہے کہ پورے ملک میں شراب بند ہوجائے۔ معلوم یہ ہوا کہ اسی آسانی سے اب بھی شراب بہار بھر میں ملتی ہے مگر اس کی قیمت تین گنی ہوگئی ہے۔ پتا یہ چلا کہ یہ فیصلہ شراب انڈسٹری کے فائدے کے لیے کیا گیا ہے۔ ایک بار باڑھ آئی تو نتیش کمار نے اس کی وجہ فرخا براج کو بتاتے ہوئے اعلان کیا کہ اسے توڑنا ہی اس کا حل ہے۔ پھر وہ بات خود بھول گئے۔ الجھن تب پیدا ہوئی جب پٹنہ شہر کے گلی محلوں میں بارش کا پانی اس طرح سے بھر گیا کہ دو ہفتے کی کوششوں کے باوجود وہ پانی نکل نہیں سکا۔ حقیقت سامنے آئی کہ ایک شہر کے نالوں کا نقشہ بھی ان کی حکومت کے پاس نہیں۔ پانی نکلے تو کہاں نکلے، یہ ان کے انجینئر نہیں پتا کرسکے۔
بہار کے سیاسی انتشار میں اگر ان کی قیادت کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے چیلنج ملا تو پہلے سے ہی پرشانت کشور کے طور پر حزبِ اختلاف کی بولی بولنے والا ان کا پُراعتماد کارکن موجود ہے جو ایک لمحے میں پُل بن جائے گا اور حزبِ اختلاف یا عظیم اتحاد کی قیادت کے لیے فوری طور پر ان کا نام سامنے آجائے گا۔ ان کے مقابلے یوں بھی نہ تیجسوی یادو اہل ہیں اور نہ کوئی دوسراقائد سامنے آرہا ہے۔ وہ چراغ پاسوان اور رام بلاس پاسوان کی متوقع سیاست اور اچانک الٹ پلٹ کردینے کے کاموں کو بھی باریکی سے دیکھ رہے ہیں اور اس ناپ تول میں انھیں دونوں طرف سے برابر دوری یا برابر نزدیکی کا ایک رویہ سامنے رکھنا ہے۔
ان کی چالاک سیاست کا نیا نعرہ ”جل -جیون-ہریالی“ ہے۔ ملک فرقہ وارانہ فسادات سے جھلس رہا ہے، شہریت قانون پر ہر جگہ آگ لگی ہوئی ہے اور نتیش کمار نیرو کی طرح بنسی بجا رہے ہیں۔ کسی بنیادی سیاسی سوال پر ایک لفظ نہیں بولنا اور موضوعِ بحث یکسر تبدیل کردینا انھیں پہلے سے بھی آتا تھا مگر نریندر مودی کے ساتھ رہ کر ان کی باضابطہ تربیت ہوگئی ہے۔ اس لیے وہ اسکول،کالج اور گاؤں گاؤں میں ہریالی کی بات شروع کررہے ہیں۔ ممکن ہے انتخاب کے بعد انھیں بھی یہ یاد نہیں رہے کہ پانی کی قیمت، صوبے میں ہریالی کا ہونا اور ماحول کا غیر آلودہ رہنا انسان کے لیے کتنا ضروری ہے۔ مگر آج سیاسی اور سماجی بھونچال سے خود کو الگ تھلگ رکھ کر موضوع کو بدل دینے کی یہ کوشش کامیابی کے راستے پر چل پڑی ہے۔ مگر یہ انتخاب آنے تک سیاسی داؤں میں تبدیل ہوپائے، یہ ممکن نہیں معلوم ہوتا۔
بہار کا آیندہ انتخاب نتیش کمار اور بھارتیہ جنتا پارٹی تو لڑیں گے ہی مگر ملک کے اور صوبوں کی طرح اگر ان کی قسمت میں ہار لکھی ہے تو وہ ہار حقیقت میں اُکتائے ہوئے پریشان عوام کے ووٹ کی وجہ سے ہوگی۔ اس میں کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل کے قائدین کا تاریخی نکمّاپن بھی شاید دھُل جائے۔ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ یا مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں اقتدار کی جو تبدیلی ہوئی، اس میں بھی کانگریس یا مخالف جماعتوں کے مقابلے عوامی طاقت کا زور زیادہ تھا۔ سیاسی تاریخ میں کئی بار لیڈروں سے آگے بڑھ کر عوام اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔ بہار میں اگر نومبر انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور نتیش کمار کو اقتدار سے بے دخل ہونے کا موقع ملا تو وہ عوامی کارکردگی کا ہی نتیجہ ہوگا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)