Home ستاروں کےدرمیاں بہار اسمبلی میں مظفرپور کی نمائندگی کرنےوالے پہلے مسلم رکن اسمبلی اور عظیم مجاہد آزادی مہدی حسن – اسلم رحمانی

بہار اسمبلی میں مظفرپور کی نمائندگی کرنےوالے پہلے مسلم رکن اسمبلی اور عظیم مجاہد آزادی مہدی حسن – اسلم رحمانی

by قندیل

مجھولیا، پارو، ضلع مظفرپور

موبائل:8578980094

سوسال پہلے 1921 میں شمالی بہار کے مرکز مظفرپور سے پہلی مرتبہ منتخب ہوکر بہار اسمبلی پہنچنے والے عظیم مجاہد آزادی مہدی حسن تھے۔اسی بہار قانون سازیہ کی صد سالہ تقریب کا 7فروری کو وزیر اعلی نتیش کمار نے بہار اسمبلی کی توسیع شدہ عمارت کے سینٹرل ہال میں شمع روشن کرکے افتتاح کیا ۔قانون سازیہ کا صد سالہ جشن پورے سال چلے گا۔ پروگرام میں صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند،نائب صدر جمہوریہ وینکیا نائیڈواوروزیراعظم نریندر مودی اور لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کے علاوہ کئی ریاستوں کے اسمبلی اسپیکر شریک ہوں گے۔

قابل ذکر ہے کہ 7فروری 1921کو سر والٹمورے کی صدارت میں قانون سازیہ کی تشکیل ہوئی تھی جس میں بہار،اڈیشہ صوبہ کی پہلی بیٹھک ہوئی تھی۔قانون سازیہ کے ہال میں انہوں نے خطاب کیا تھا۔ پہلے گورنر لارڈ ستندر سنہا نے 7فروری 1921کو اجلاس سے خطاب کیا تھا۔ سال 2021بہار قانون سازیہ کا سال ہوگااسی سال 1921میں بہار قانون سازیہ کا قیام عمل میں آیاتھا۔

شمالی بہار مظفرپور ضلع پارو تھانہ حلقہ مجھولیا کے محقق صحافی آفاق اعظم نے اپنی غیر مطبوعہ کتاب”مظفرپور” میں 1921 میں مظفرپور سے منتخب ہونے والے پہلےرکن اسمبلی مہدی حسن کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیاہے۔انہوں نے یہ بھی لکھاہے کہ 1921 میں پہلی مرتبہ جو مسلم امیدوار کامیاب ہوکر اسمبلی پہنچے تھے ان میں پٹنہ مشرقی دیہات حلقہ سے سید محمد فخر الدین تو پٹنہ شہری حلقہ سے محمد یونس، پٹنہ مغربی دیہات حلقہ سے سید محمد حسین،گیا دیہات حلقہ سے ملک مختار احمد، شاہ آباد دیہات حلقہ سے مولوی حافظ نو ر الحق ، سارن دیہات سے سید مبارک حسین،چمپارن دیہات سے سید عباس علی، دربھنگہ دیہات سے مولوی لطافت حسین،بھاگلپور ڈیویزنل شہری حلقہ سے خان بہادر سید محمد طاہر،بھاگلپور دیہات سے خان بہادر سید محمد نعیم،مونگیر دیہات سے شاہ محمد یحییٰ،کشن گنج دیہات سے سید معین الدین مرزا، پورنیہ دیہات سے مولوی میر فیاض علی، سنتھال پرگنہ سے مولوی محمد امید علی،اڈیشہ دیویزنل حلقہ سے مولوی شیخ عبد المجید، چھوٹا ناگپور ڈیویزن سے خان بہادر خواجہ محمد نور، سرکار کے ذریعہ نامزد سید حسن امام، ترہت ڈیویزنل شہری حلقہ سے خان بہادر احمد حسین اور مظفرپور دیہات سے مہدی حسن پہلی مرتبہ منتخب ہوکر اسمبلی پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔انہوں نے کھا ہے کہ مہدی حسن مسلسل دو مرتبہ 1921 اور 1924 میں انتخاب میں کامیابی حاصل کر کے مظفرپور کی نمائندگی کی۔ مہدی حسن برہمپورہ کے ایک زمیندار گھرانے میں سید ابو الحسن کے گھر پیدا ہوئے۔ مہدی حسن نے اعلی تعلیم حاص کی تھی اور وطن پرستی ان کو وراثت میں ملی تھی۔ مہدی حسن نے سماج کی خدمت میں پوری زندگی صرف کی اور ان کے دادا میر حسن نے زمینداری کے زمانے میں ہی میر حسن وقف کے نام سے اپنی جائداد وقف کردی تھی جس کے ذریعے مہدی حسن نے مختلف طرح کے فلاحی و رفاہی کام انجام دیے۔ مرحوم مہدی حسن کے نواسے پروفیسر سید منیر رضا کاظمی نے بتا یا تھا کہ ان کے نانا کے دیرینہ رشتے ضلع کے سبھی مجاہدین آزادی سے تھے اور خود مہدی حسن نے تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مسلسل میونسپل کارپوریشن کے انتخاب میں بھی انہوں نے کامیابی پائی تھی جس کی وجہ سے میونسپل کارپوریشن نے ان کی وفات کے بعد برہمپورہ کے ناکہ کے پہلے والے چوک کا نام مہدی حسن چوک رکھا۔ مہدی حسن مظفرپور کی نمایاں شخصیات میں سے ایک تھے اور حکومت کے ذریعے وہ مظفرپور کے اعزازی مجسٹریٹ بھی نامزد کئے گئے تھے۔ عدلیہ احاطے کے علاوہ گھر پر بھی اجلاس لگایا کرتے تھے۔ مہدی حسن نے آزادی کے بعد سرگرم سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی لیکن 1952، 57اور 1964کے انتخاب مین کانگریس امیدوار کی مدد کرتے رہے۔ 1964میں چھوٹے بھائی عسکری حسن و داماد سید حسن رضا کاظمی کے انتقال کا ان کو قلبی اور ذہنی صدمہ پہنچا جس کی تاب نہ لا کر وہ 1965 میں انتقال کر گئے۔

یہ المیہ ہے کہ ایک ایک کر کے قومی رہنماؤں کو بھلایا جا رہا ہے۔ ایک طرف سنگھ پریوار کی اقلیت سوزی تحریک آزادی اور سیکرلرزم سے دشنمی کی وجہ سے نہ صرف اقلیتوں پر ملک دشمنی کا الزام لگایا جاتا رہا ہے،دوسری طرف اقلیتوں کے کارناموں کو صفحہ تاریخ سے مٹایا جارہا ہے۔ ساتھ ساتھ سنگھ پریوار اپنے ارکان کومجاہدین آزادی کی فہرست میں بھی ڈالتا جا رہا ہے اور اس کے لئے بھگو ازدہ تاریخ نویسی کا سہارا لیا جا رہا ہے اور تاریخی تحقیق کی تمام تنظیموں کو ایسے ہی لوگوں سے بھرا جا رہا ہے ۔ نام نہاد سیکولر دانشور سیاستدان بھی کوئی قابل ستائش رول ادا نہیں کر رہے ہیں۔ان لوگوں نے بھی تمام جاں نثارانِ حریت کو ایک خاص فرقے کا سمجھ کرایسے افراد کوفراموش کر دیا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ اپنے روشن ماضی کی طرح حال اور مستقبل کوروشن بنانے کے لیے ماضی کی روشنی میں منظم منصوبہ بندی کریں تاکہ ہم اپنے اسلاف کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کر سکیں۔

 

 

You may also like

Leave a Comment