Home قندیل بہار الیکشن:اپنےحلقے والوں سے چند باتیں-نایاب حسن

بہار الیکشن:اپنےحلقے والوں سے چند باتیں-نایاب حسن

by قندیل

کل بہار کے جن پندرہ اضلاع کی 78نشستوں پر ووٹنگ ہونے والی ہے، انہی میں ہمارا حلقہ "باجپٹی "بھی ہےـ اس کی تشکیل 2008میں پارلیمانی و اسمبلی حلقوں کی تحدیدِ نو کے تحت عمل میں آئی تھی ـ دراصل سیتامڑھی اور پوپری کے کچھ حصوں کو کاٹ کر اس کی بنیاد گزاری ہوئی تھی۔ اِس وقت اس حلقے میں باجپٹی اور بوکھرا بلاک کی تمام پنچایتیں اور نانپور کی کچھ پنچایتیں شامل ہیں اور یہ حلقہ سیتامڑھی لوک سبھا حلقےمیں پڑتا ہے۔

یہاں کل ووٹس تین لاکھ، چودہ ہزار، تین سو بیالیس ہیں، جن میں مرد ووٹر ایک لاکھ، چھیاسٹھ ہزار،چھ سو چورانوے ہیں اور خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ، سینتالیس ہزار، چھ سو انتالیس ہےـ یادو اس حلقے میں زیادہ ہیں ، برہمن کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے،مسلمان بھی یہاں بااثر پوزیشن میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2010کے الیکشن میں موجودہ ایم ایل اے رنجو گیتا کو کامیاب ہونے میں مشکل ہوئی تھی اور وہ آرجے ڈی کے قدآور نیتا انوارالحق کو محض ساڑھے تین ہزار کے فرق سے ہرا پائی تھیں،البتہ 2015 میں منظرنامہ بدلا ہوا تھا اور جے ڈی یو،آرجے ڈی و کانگریس اتحاد کا حصہ تھی،سورنجو گیتا کو آسانی سے کامیابی ملی اور لگ بھگ سترہ ہزار کے فرق سےانھوں نے این ڈی اے امیدوار ریکھا گپتا کو شکست دی۔ یہ محترمہ تب رالوسپا یعنی اوپندر کشواہا کی پارٹی سے امیدوار تھیں،جواس وقت این ڈی اے میں شامل تھی۔

اس بار منظرنامہ خاصا بدلا ہوا ہے۔ یہ ریکھا گپتا جو پچھلی بار این ڈی اے کی امیدوار تھیں،اس بار ایک تیسرے اتحاد یعنی اویسی،کشواہا،مایاوتی و دیگر کی شراکت میں بننے والے اتحاد کی امیدوار ہیں اور آرجے ڈی،کانگریس وغیرہ کے اتحاد نے مکیش کمار یادو کو امیدوار بنایا ہے،جبکہ این ڈی اے سے اس بار رنجو گیتا امیدوار ہیں۔

اس سیٹ پر ہار جیت کے امکانات کا بہت حد تک صحیح اندازہ 2010کے الیکشن کو سامنے رکھ کر لگایا جاسکتا ہے جب نتیش اِس بار کی طرح ہی این ڈی اے کا حصہ تھے اور تب انھیں یہ سیٹ جیتنےمیں خاصی مشقت اٹھانی پڑی تھی۔ اس بار آرجے ڈی ایم وائی اتحاد کے سہارے اس سیٹ پر الیکشن لڑرہی ہے،جبکہ این ڈی اے کا رویتی ووٹ بینک بڑی ہندو جاتیوں کا ہے،البتہ پچھلے چند سالوں میں جدیو نے اس حلقے کےمسلمانوں پر بھی خاصی گرفت بنالی تھی،مگر پچھلا الیکشن جیتنے کے بعد جدیوکی پلٹی بازی اور پھر مسلم مسائل پر اس کے موقف نے مسلمانوں کو بدظن کردیا اور بہار کے دیگر علاقوں کے ساتھ اس حلقے کے مسلمان بھی بتدریج نتیش سے دور ہوتے گئے۔ مگر پھر بھی آرجے ڈی اتحاد کا کامیاب ہونا اتنا آسان نہیں ہے؛کیوں کہ یہاں تیسرے اتحاد سے وہ محترمہ امیدوار ہیں،جو پچھلی بار دوسرے نمبر پر تھیں،پھر اویسی فیکٹر بھی ہے،اللہ جانے یہ کام کرتا ہے یا نہیں،حالاں کہ کرنا نہیں چاہیے؛کیوں کہ کم ازکم باجپٹی جیسے حلقے میں کشواہااینڈ کمپنی سے بدرجہا بہتر آرجے ڈی اتحاد رہے گا،یہاں تو ’’اپنی قیادت‘‘کا بھی امکان نہیں ہے؛کیوں کہ کشواہا جی کا کچھ پتا نہیں کہ کہیں ان کے دوچار ایم ایل اے نکل گئے،تو وہ این ڈی اے کی طرف چل لیں گے۔ ایک دوسرا پیچ اس حلقے میں یہ ہے کہ لوجپا نے بھی اپنا امیدوار مسلمان ہی کوبنادیا ہے اور کوئی صاحب مولانا عامر رشادی کی پارٹی سے بھی امیدوار ہیں،جبکہ کل مسلم ووٹ اس حلقے میں نوے ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہے۔

ایسی صورتِ حال میں باجپٹی اسمبلی حلقے میں اصل کردار مسلم ووٹ کا ہی ہوگا۔ اگر سارے مسلمان مل کر یا زیادہ تر کسی بھی ایک امیدوار کی طرف جاتے ہیں،تو اس کے جیتنے کے امکانات روشن ہوں گے؛لیکن اگر انتشار ہوااور اپنی قیادت کے چکر میں کشواہا کی طرف گئے یا مودی کے ہنومان جی کی طرف لڑھکے،تو پھر معاملہ بگڑنے کے چانسز زیادہ ہیں۔ یوں بھی بہار کے دوسرے خطوں کی طرح یہاں بھی پچاس سے پچپن فیصد کے درمیان ہی ووٹ پڑتے ہیں،ان میں سے محض چند ہزار؛بلکہ چند سو ووٹوں کے اِدھر اُدھر ہونے سے بھی خاصا فرق پڑسکتا ہے؛لہذا زمینی حقیقت کو دیکھتے ہوئے حکمت اور بصیرت کے ساتھ ووٹ کرنا ضروری ہے۔ مختلف پارٹیوں سے پیسہ کھائے ہوئے گاؤں اور پنچایت سطح کے بکلول نیتاؤں اور جذباتی نعرے بازی کرنے والے بے پیندے کے لوٹوں کی باتوں پر دھیان دیے بغیر اپنے حلقے میں حقیقی بدلاؤ،ترقی،تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتری لانے کے لیے ووٹ کریں اور جب آپ کا امیدوار کامیاب ہوجائے،تو اس سے اپنے حقوق وصول کرنے کی تدبیریں پہلے سےتیار رکھیں!

 

You may also like

Leave a Comment