Home تجزیہ بہار اسمبلی انتخاب اور کانگریس -ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

بہار اسمبلی انتخاب اور کانگریس -ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

by قندیل

بہار اسمبلی کا انتخاب تو اس سال کے آخر میں ہوگا لیکن سیاسی جماعتوں تیاری ابھی سے شروع کردی ہے ۔ پالا بدلنے کا کھیل بھی چل رہا ہے ۔ این ڈی اے کے کئی لیڈران آر جے ڈی میں شامل ہو چکے ہیں تو آر جے ڈی کے کئی ممبران کو این ڈی اے نے اپنا دامن تھما دیا ہے ۔ پرشانت کشور بھی کئی سال سے بہار کی سیاست میں سرگرم ہیں ۔ اس بار کے اسمبلی انتخاب میں وہ مودی کے ہنومان کا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ کیونکہ بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ رہ رہ کر اختلافات کی خبریں آتی رہتی ہیں ۔ ایسے میں الیکشن سے کئی ماہ قبل خلاف توقع کانگریس کی اچانک فعالیت نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے ۔ راہل گاندھی اپوزیشن اتحاد ‘انڈیا’ کے قیام کے بعد سے کئی بار ریاست کا دورہ کر چکے ہیں اور راشٹریہ جنتا دل کے رہنماؤں لالو پرساد یادو اور ان کے بیٹے تیجسوی یادو (سابق نائب وزیر اعلی) کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کانگریس آر جے ڈی مل کر اسمبلی انتخابات لڑیں گے ۔ دوسری طرف، وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور جنتا دل یونائیٹڈ کے ایک ساتھ لڑنے کا امکان ابھی بھی برقرار ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ دونوں پارٹیاں الیکشن لڑنے کے لیے کتنی منظم ہوں گی کیونکہ ایک طرف، بی جے پی کے اندر یہ احساس ابھرا ہے کہ (وجے کمار سنہا، نائب وزیر اعلیٰ اور بی جے پی لیڈر کے مطابق) ‘سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کو تبھی سچا خراج عقیدت ہوگ جب بہار میں بی جے پی کی قیادت میں حکومت بنے گی ۔ دوسری طرف ریاست میں بھاجپا کے ساتھ مل کر حکومت چلانے کے باوجود نتیش کمار ‘پرگتی یاترا’ کے نام سے ریاست بھر کا دورہ کر رہے ہیں جس میں بی جے پی شامل نہیں ہے ۔
یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ماضی اور مستقبل کی کچھ سیاسی پیش رفتوں کے درمیان کن ممکنہ سمیکرنوں کے تحت یہ انتخاب لڑا جائے گا کیونکہ کانگریس نے پہلے ہی سے یہ انتخاب پورے زوروشور سے لڑنے کی تیاری شروع کردی ہے ۔ اس الیکشن کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے اس سے پہلے کے چند واقعات کو یاد کرنا مفید ہو گا تاکہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ آئندہ انتخابات کے لیے کس قسم کا انتخابی میدان تیار کیا جا رہا ہے ۔ یاد رہے کہ بی جے پی اور جے ڈی یو طویل عرصے سے ایک ساتھ ہیں، لیکن اسی اسمبلی میقات کے دوران نتیش کمار نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر آر جے ڈی سے ہاتھ ملایا اور تقریباً 18 ماہ تک حکومت چلائی ۔ لیکن پھر اچانک وہ اپنا رخ بدل کر این ڈی اے کا حصہ بن گئے اور بی جے پی کے ساتھ دوبارہ حکومت بنالی ۔
وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے نتیش کمار نے انڈیا اتحاد بنانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن ان کے اس طرح یو ٹرن لینے سے ان کی شبیہ کو بہت نقصان پہنچا ۔ اس کے باوجود، این ڈی اے کے ساتھ 2024 کا لوک سبھا انتخاب لڑ کر، انہوں نے 12 سیٹیں جیت کر ثابت کر دیا کہ انہیں آسانی سے خارج نہیں کیا جا سکتا ۔ اس وقت جن دو پارٹیوں پر مرکزی حکومت کا انحصار ہے وہ آندھرا پردیش کی تیلگو دیشم پارٹی (16 ممبران) اور جے ڈی یو ہی ہیں ۔ فطری ہے کہ بی جے پی صرف دکھاوے کے لئے جے ڈی یو کو اہمیت دیتی رہے گی لیکن اسمبلی میں اسے کمزور کرنے اور اپنی طاقت بڑھانے کی پوری کوشش کرے گی ۔ 2020 کے الیکشن میں جے ڈی یو کو کمزور کرنے کے لئے چراغ پاسوان کی مدد لی گئی تھی ۔ جے ڈی یو کو صرف 49 سیٹیں مل سکی تھیں جبکہ 2015 اس نے 71 سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی ۔ اس کے برعکس بی جے پی کی سءٹیں 53 سے بڑھ کر 74 ہو گیئں ۔ بی جے پی کا ریکارڈ ہے کہ وہ جس پارٹی کے ساتھ ہوتی ہے اس کے ووٹ بینک پر قبضہ کر لیتی ہے یا پھر اسے توڑ کر کمزور کر دیتی ہے ۔ اکالی دل اور شیو سینا اس کی مثال ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بہار میں بی جے پی نتیش کو کمزور کرنے کے لئے کیا حربے استعمال کرتی ہے ۔
کانگریس کی بات کریں تو وہ اپنے ساتھیوں کو عزت کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع دیتی ہے ۔ آنے والے اسمبلی انتخاب کے پیش نظر لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی حال ہی میں دو بار بہار کا دورہ کر چکے ہیں ۔ اب کانگریس صدر ملکارجن کھرگے 22 فروری کو بہار جانے والے ہیں ۔ پارٹی کے مقرر کردہ نئے ریاستی انچارج کرشنا الوارو 20 فروری کو بہار پہنچیں گے اور وہاں تین دن قیام کریں گے ۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہاں کانگریس سماجی انصاف کے ایشو کو دوبارہ زندہ کرے گی کیونکہ بہار ذات پر مبنی سیاست کا میدان رہا ہے ۔ خود نتیش کمار کو کسی زمانے میں پسماندہ ذاتوں اور دلتوں کا محافظ سمجھا جاتا تھا لیکن بی جے پی کے ساتھ ان کے اتحاد اور کئی اہم مواقع پر سماجی انصاف سے متعلق مسئلہ پر ان کی خاموشی نے ان سے یہ اعزاز چھین لیا ہے ۔ تاہم لالو پرساد یادو کی وراثت کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھانے کی وجہ سے اس معاملے میں تیجسوی کی ساکھ برقرار ہے ۔ پھر، وہ اپنے نائب وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے لاکھوں ملازمتیں پیدا کرنے کی وجہ سے نوجوانوں اور فائدہ اٹھانے والے طبقوں میں مقبول ہیں ۔ تیجسوی یادو انڈیا اتحاد میں کانگریس کے ساتھ ہیں ۔ حالانکہ تیجسوی یادو نے دہلی انتخاب سے پہلے کہا تھا کہ انڈیا اتحاد لوک سبھا الیکشن کے لئے بنا تھا ۔ اب اس کی ضرورت ختم ہو چکی ہے ۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس نے الگ رہ کر الیکشن لڑا تھا ۔ جبکہ کانگریس اتحاد چاہتی تھی لیکن عآپ نے اپنے امیدواروں کے ناموں کا پہلے ہی اعلان کر دیا تھا ۔ اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کو ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا ۔ انڈیا اتحاد کے ساتھیوں میں اکھلیش یادو، ممتا بنرجی، شیو سینا نے بھی اروند کجریوال کی حمایت کا اعلان کیا تھا ۔ اتحاد کے باقی پارٹنرس کے سُر بھی بدلے ہوئے تھے ۔ لیکن دہلی انتخاب کے نتائج نے سب کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ اکھلیش یادو سمیت انڈیا کے ساتھیوں کو کہنا پڑا کہ اتحاد کو آئندہ اور مضبوط کیا جائے گا ۔
جہاں تک بہار کا سوال ہے تو وہاں مہا گٹھ بندھن میں کسی طرح کے اختلاف کی کوئی خبر نہیں ہے ۔ کانگریس کے صدر کھرگے اپنے مجوزہ دورے میں بکسر جائیں گے جہاں پارٹی کی طرف سے ‘جئے باپو جئے بھیم جئے سمودھان’ کے نام سے ایک بڑی ریلی کو خطاب کریں گے ۔ مانا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے کانگریس دلت، او بی سی ووٹ بینک کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرے گی ۔ اس کے ساتھ یہاں تنظیم کو مضبوط کرنے کے لئے نئے سرے سے منصوبہ سازی کی جائے گی ۔ مانا جا رہا ہے کہ کانگریس یہاں کم از کم 70 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا دعویٰ کرے گی ۔ 2020 میں بھی اس نے 70 سیٹوں پر چناؤ لڑا تھا لیکن صرف 19 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی ۔ اس وقت سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ اگر کانگریس کم سیٹوں پر الیکشن لڑتی تو مہا گٹھ بندھن کی حکومت بن سکتی تھی ۔ مگر کانگریس کی ریاستی یونٹ کا کہنا تھا کہ کانگریس کو وہ سیٹیں دی گئی تھیں جہاں مہا گٹھ بندھن کو کبھی کامیابی نہیں ملی ہے ۔ مانا جا رہا ہے کہ اس وقت حالات بدلے ہوئے ہیں ۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے 9 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا ۔ پپو یادو کے علاوہ، جس نے پورنیہ سے آزاد انتخاب لڑا تھا، اسے 3 سیٹیں ملی ہیں جب کہ آر جے ڈی نے کل 22 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا لیکن اسے صرف 4 سیٹیں مل سکیں ۔ اگر اس طرح دیکھا جائے تو کانگریس کا اسٹرائیک ریٹ آر جے ڈی سے بہتر ہے ۔ اس وجہ سے کانگریس قیادت محسوس کرتی ہے کہ وہ یہاں اپنی گراؤنڈ مضبوط کرکے زیادہ سیٹیں حاصل کر سکتی ہے ۔ تاکہ آر جے ڈی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کوئی دشواری نہ ہو ۔ مگر اس کے لئے کانگریس کو ان غلطیوں سے بھی پرہیز کرنا ہوگا جو وہ سابق میں کرتی رہی ہے ۔ انڈیا اتحاد میں ایک اور پارٹنر پارٹی سی پی ایم (ایم ایل) (ایل) بھی ہے جس کے پاس لوک سبھا کی دو اور ریاستی اسمبلی میں 11 سیٹیں ہیں ۔ اس نے 2020 کا الیکشن بھی مہا گٹھ بندھن کے ساتھ مل کر لڑا تھا ۔
بہار کا الیکشن کئی لحاظ سے بہت اہم ہے کیونکہ یہاں نتیش کمار نے انڈیا اتحاد کو جس طرح سے دھوکہ دیا، یہ مانا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے ہی بی جے پی لوک سبھا میں اپنی حکومت بنا سکی اور نریندر مودی وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئے ۔ کئی بار خبریں سامنے آئی ہیں کہ اسمبلی انتخابات سے پہلے نتیش کمار پھر کیمپ بدل سکتے ہیں ۔ تاہم ایک بڑا طبقہ ان قیاس آرائیوں کو یکسر مسترد کرتا ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ نتیش بابو کم از کم 2025 کے اسمبلی انتخابات تک ایسا فیصلہ نہیں لیں گے ۔ تاہم الیکشن کے اعلان اور سیٹوں کی تقسیم تک انتظار کرنا ہوگا کہ بہار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like