جو غلطی آسام میں کانگریس نے کی تھی ،راجد ایم آئی ایم سے الائنس نہ کر کے وہی غلطی دہرانے جا رہی ہے۔ پچاس سیٹوں پر مسلم ووٹ فیصلہ کن ہے بہار میں۔اویسی کھیل بگاڑ نہیں، بنا سکتے ہیں۔ مایاوتی نے کہا کہ مسلم کٹر وادی پارٹی کو روکنے کے لئے ہم نے اپنے ووٹروں کو بھاجپا کو ووٹ کرنے کو کہا تھا۔ ” سیکولر پارٹیوں” کے چہرے بے نقاب ہو رہے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی طرح مسلم قیادت کو ابھرنے نہیں دینا ہے۔ جب ’میم‘ ہندوستان کے دستور و قوانین کے مطابق ایک سیاسی پارٹی ہے، الیکشن کمیشن کو کوئی اعتراض نہیں ہے، تو پھر کانگریس ،سماج وادی ،بہوجن سماج وادی کے لئے اچھوت کیوں ہے؟ کیا ’میم‘ کی ضد میں بھاجپا کی طرف دلت اور ہندو ووٹ شفٹ کرنا یہ عندیہ نہیں دیتا کہ مسلم مکت سیاست کی نیو دھر دی گئی ہے ؟
ہم مذہب کی بنیاد پر فرقہ پرست سیاست کے خلاف ہیں لیکن ہمارے ساتھ سیکولر طاقتوں کو آنے سے پرہیز کیوں ہے؟ وہ ہمیں مین اسٹریم انتخابی سیاست کا حصہ بننے سے روکنا کیوں چاہتی ہیں؟ ہم تو امن پسند غیر فرقہ پرست عناصر کے ساتھ مل کر اپنے دستوری حقوق پر عمل کرنا چاہتے ہیں بشرطیکہ وہ ہمیں اور ہمارے ووٹ کو بے وقعت نہ بنائیں۔ ہم کب تک نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے جھنڈے ڈھوتے رہیں گے اور دریاں بچھاتے رہیں گے ؟
مسلمانو!بھکاری نہیں ،حصے دار بنو۔ اپنی نام نہاد سیکولر پارٹیوں پر الائنس کے لئے پریشر بناؤ۔ سڑک، نالی ،پل تالاب کی ٹھیکیداری سے اوپر اٹھ کر سوچو۔ وقتی اور ذاتی مفادات کی قربانی پیش کرو۔ منزل تک نہیں پہنچ سکتے تو اپنی آنے والی نسلوں کے لئے راستہ تو بنا دو ۔ ان دانشوروں کی مت سنو جو ایر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر گیان بانٹتے ہیں کہ بی جے پی کو ہرانے کے لئے سنٹرسٹ پارٹی کانگریس کو ووٹ کرنا ہی وقت کا تقاضہ ہے ،اس لئے کہ ایک مضبوط مرکزی پارٹی ہی اسے ٹکر دے سکتی ہے، لوہا ہی لوہے کو کاٹے گا۔ یا لالو جی کی ایم وائی سمیکرن کو یاد کرو کس طرح ریاست میں مسلمانوں کا وقار بحال ہوا تھا۔ان دانشوروں سے کہہ دیں کہ اب وہ دور رہا اور نہ لالو جی۔ اب ملک کی سیاست مسلمانوں کو حاشیے پر پہنچانے کے درپے ہے۔ اب سیاسی پارٹیوں کا کہنا ہے کہ مسلم ووٹ کے بغیر بھی ہم اقتدار میں آ سکتے ہیں۔ اب اکثریت کی خوشنودی حاصل کرنے کا دور ہے۔ اگر ایسا ہے تو ایسا ہی سہی۔ جس دن ہم سے وہ آزاد ہو جائیں گے، ان کی اکثریت جوتیوں میں دال بانٹنے لگے گی۔