Home تجزیہ بھارت جوڑو یاترا میں ہماری شمولیت ! ۔ مسعودجاوید

بھارت جوڑو یاترا میں ہماری شمولیت ! ۔ مسعودجاوید

by قندیل

بدعنوانی کرپشن کے خلاف اپریل ٢٠١١ سے دسمبر ٢٠١١ تک ایک ملک گیر تحریک چلی تھی تاکہ لوک پال قانون بنے ۔۔ کتنے مسلمان اس میں شامل تھے ؟
‌ظاہر ہے ایک فیصد بھی نہیں ۔۔۔ یہ اور بات ہے جو بعد میں واضح ہوا کہ اس ملک گیر احتجاج کا اصل محرک ایک خفیہ ایجنڈا تھا۔ اس تحریک نے کانگریس حکومت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ لوک پال قانون تو نہیں بنا لیکن اس تحریک کے سربراہان میں سے کوئی وزیر اعلیٰ بن گیا تو کوئی گورنر ۔
لیکن مسلمانوں کی عدم شرکت اس خفیہ ایجنڈا کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس وجہ سے تھی کہ عموماً مسلمان قومی دھارے سے الگ رہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی مین اسٹریم ایشوز کی تحریک کی قیادت کے شانہ بشانہ یا ایک یا دو سیڑھی نیچے بھی نہیں ہوتے ہیں‌ جس کا خمیازہ انہیں یہ بھگتنا پڑتا ہے کہ جب وہ تحریک کامیاب ہوتی ہے تو اس میں مسلمان حاشیہ پر یا حاشیہ پر بھی نہیں ہوتے ہیں ۔

اس کے بعد دور چلتا ہے شکوہ کا، الزام تراشی کا، بھید بھاؤ discrimination کا، اور بیانیہ چلایا جاتا ہے مظلومیت victimhood be کا !

اب بھارت جوڑو یاترا- ایک ملک گیر تحریک کے طور پر عنقریب شروع ہونے والا ہے – ہم اور آپ بھی اسی ملک کے شہری ہیں ، بھارت کو ٹوٹنے سے بچانا ہم سب پر لازم ہے۔
ضروری نہیں ہے کہ کانگریس کے ہر اصول سے آپ متفق ہوں۔ بھارت جوڑو مہم میں شمولیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ دوسری پارٹیوں کے مخالف ہیں ۔

بھارت جوڑو یاترا کے تعلق سے سول سوسائٹی کے ساتھ میٹنگ میں راہل گاندھی نے کہا کہ اپوزیشن بالخصوص کانگریس اس لئے کمزور نظر آ رہی ہے کہ اسے نہ صرف مقتدرہ جماعت سے بلکہ کئی حکومتی اداروں سے لڑنا پڑ رہا ہے اس لئے کہ ہر ادارے میں آر ایس ایس کے دو چار لوگ بیٹھے ہیں۔

لیکن کیا راہل گاندھی نہیں جانتے کہ یہ آج یا ٢٠١٤ کے بعد نہیں ہوا ہے۔ دائیں بازو کے لوگ سرکاری محکموں میں تو بہت کم لیکن کانگریس اعلیٰ کمان کے ارد گرد مابعد آزادی برسہا برس سے ہیں اور موقع مصلحت دیکھ کر حکومت پر دباؤ بناتے رہے ہیں۔ ادھر کچھ سالوں میں تناسب میں محض اضافہ ہوا ہے۔

کانگریس اعلیٰ قیادت کو بھارت جوڑو یاترا سے پہلے اپنے گھر کی صفائی ضروری ہے۔ کانگریس ایک آئیڈیالوجی بیسڈ پارٹی ہے اور اس آئیڈیالوجی میں سب سے زیادہ نمایاں سیکولرازم ہے جس سے فرقہ پرست عناصر کو ازلی الرجی ہے۔ سیکولرازم اس ملک کے خمیر میں ہے ۔ वसुदेव कुटुंबकम् پر صدیوں سے عمل ہوتا آیا ہے۔
کانگریس نے دو کشتیوں پر سواری کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ملی اس لئے کہ جینیو پہننے اور مندروں کی زیارت کے بعد بھی اور کشمیری برہمن کی نسل ہونے کے باوجود فرقہ پرست عناصر نے راہل گاندھی کی ذات کو مشکوک بنانے کی کوشش کی۔

اس لئے، دیر سے سہی ، وقت آ گیا ہے کہ کانگریس قیادت علی الاعلان، بغیر ذرہ برابر تذبذب کے، اپنے اصولی عہد سیکولرازم کا تجدید کرے اور اکثریتی طبقے کی خوشنودی یا اقلیتی طبقے کی منہ بھرائی سے اوپر اٹھ کر ملک و قوم کی ترقی اور فلاح وبہبود کے لئے کام کرنے کا تجدید عہد و پیمان کرے۔

جہاں تک غلام نبی آزاد کا کانگریس پارٹی کی بنیادی رکنیت تک سے استعفیٰ دینے کا تعلق ہے، ہمارے لئے یہ کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ہے۔
کوئی غلام سے آزاد ہوا ہو یا آزاد سے غلام ہونے والا ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا لیکن ان کے اور ان جیسوں کے پارٹی میں رہنے یا چھوڑنے سے مسلمانوں کو فرق نہیں پڑتا ہے اس لئے کہ انہوں نے تیس سالوں میں بحیثیت مسلمان کبھی اپنی شناخت نہیں بنائی۔
یہ اور بات ہے کہ کانگریس کے اقلیتی کوٹے سے ہی انہیں پارلیمنٹ بھیجا جاتا رہا۔ ان کے کانگریس سے استعفیٰ کا کشمیر سے باہر کے مسلمانوں پر کسی قسم کا منفی اثر نہیں پڑے گا۔‌ شاید کشمیر میں بھی نہیں۔

اس لئے کہ کانگریس پارٹی میں یہ ہمیشہ قیادت سے قریب رہے اور مسلسل بغیر چناؤ جیتے پارلیمنٹ کے ممبر رہے۔ لیکن کیا کسی موقع پر انہوں نے ملی حمیت کا ثبوت دیا! کبھی اقلیتوں پر ظلم اور اس پر پارٹی کی سردمہری کے خلاف دھرنا پر بیٹھے، استعفیٰ کی دھمکی دی!

آخر کے سالوں میں یعنی ٢٠١٤ کے بعد اعلیٰ کمان کا سلوک بالخصوص راہل گاندھی کے خلاف شکایت کا دفاع تو کانگریس پارٹی کرے گی لیکن ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ پس پردہ آپ باغی گروپ والے بھی کانگریس مکت بھارت میں معاون بن رہے ہوں جسے راہل گاندھی نے محسوس کر لیا اور سرد مہری کا رویہ اپنایا ۔۔۔۔۔۔

اس وقت آپ کو مسلمان یاد آیا اور آپ نے بیان بازی شروع کردی کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے اسٹیج پر جگہ نہیں ملتی اور پوسٹر بینر میں نام نہیں ہوتا۔

ہاں ٢٠١٤ کے بعد سے کانگریس ہی نہیں سماج وادی اور دیگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا بھی ایسا ہی رویہ رہا ہے ۔ جو بلا شبہ ہر حساس انسان کے لئے تکلیف دہ ہے اور اس درد کو سماجوادی اور دیگر پارٹیوں میں قدرے قیادت سے قریب مسلمان بھی محسوس کر رہے ہیں ۔

لیکن بالآخر کمان اسی جگہ ٹوٹ جاتی ہے کہ سیکولر پارٹی کے قائدین ملک کے موجودہ ماحول اور مزاج سے مجبور ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ زعفرانی تنظیموں نے ہندو مسلم کی لکیر کھینچ دی ہے۔ مسلمانوں کو ٹکٹ دینے کی بات ہو ، قیادت میں نمایاں مقام دینے کی بات ہو ، مسلمانوں کے جائز مطالبات کو انتخابی منشور میں درج کرنے کی بات ہو یا مسلم اکثریتی علاقوں میں جلسے کرنے کی بات ہو ، ہم سب( سیکولر پارٹیاں) اس لئے سہمے ہوئے ہیں کہ ان باتوں سے ہمیں مسلم پرست کہہ کر ریجیکٹ کرنے کی مہم چلا دی جائے گی۔ چند مسلمانوں کو چوٹی کی قیادت یا ثانوی درجے کی قیادت میں جگہ دینے سے اکثریتی طبقہ ناراض ہو جائے گا ان کے پاس بی جے پی میں جانے کا آپشن ہے ۔ آپ مسلمانوں کا کیا ہے آپ کے پاس آپشن تو ہے نہیں ! آپ تو ہمیں (نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو) ووٹ کرنے کے لئے مجبور ہیں۔

نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے تمام عذر لنگ ، اور مسلمانوں کی سیاسی بے وقعتی کے دیگر اسباب کے باوجود کانگریس میں مشروط بھرپور شمولیت سے پارٹی ہائی کمان کا رخ صحیح سمت لے جانا اور حقیقی سیکولرازم کا پابند بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آپ کی بھرپور شرکت ہی فرقہ پرست چاپلوسوں کو پارٹی سے رخصت ہونے پر مجبور کرے گی۔ بشرطیکہ کہ آپ ان کے ساتھ برابری کے سطح پر اکول فوٹنگ پر ڈائلاگ کر کے شامل ہوں۔ ہم مسلمان کے نام پر ان سے خصوصی مراعات نہ مانگیں۔ ملک و قوم کی بہبودی کے لئے اور بالخصوص اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے لئے ایک فلاحی ریاست کی جو ذمہ داریاں ہیں اسے وہ پارٹی اور حکومت بغیر امتیازی سلوک کے پوری کرے۔ یہی ہمارا مطالبہ ہو اسی میں ہم سب اقلیتوں کا بھی حصہ ہوگا ۔ مسلم نام ، مسلمانوں کے مسائل کا مسلم ایشو کے نام پر اٹھانے سے اگر الرجی ہے تو ہم بھی اس سے پرہیز کریں اور مفاد پرست پارٹی لیڈران کو بھی ایسے اعلان کرنے سے روکیں کہ ان کی پارٹی یا ان کی حکومت نے ” مسلمانوں” کے لئے یہ یہ کیا ۔

You may also like

Leave a Comment