Home تجزیہ بھارت جوڑو یاترا : کیا کانگریس ہوگی مضبوط  – ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

بھارت جوڑو یاترا : کیا کانگریس ہوگی مضبوط  – ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

by قندیل
کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا 7 ستمبر کو کنیا کماری سے شروع ہوئی ہے ۔ یہ ملک کی 12 ریاستوں اور دو مرکز کے زیر انتظام صوبوں سے گزرتے ہوئے کل 3750 کلومیٹر کا فاصلہ 150 دن میں طے کرے گی ۔ ویسے تو یہ کانگریس کا اپنا پروگرام ہے لیکن اس میں پارٹی پالیٹکس کے بجائے بے روزگاری، مزدوری، مہنگائی، جی ایس ٹی، کسانوں کی مشکل، نفرت پھیلا کر سماج کو بانٹنے، توڑنے، پولرائز کرنے، آئینی اداروں کے جارحانہ استعمال اور جمہوری قدروں کی پامالی جیسے مدوں پر بات ہو رہی ہے ۔ اسی وجہ سے قریب 200 سماجی کارکنوں نے جن کا انتخابی سیاست سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے نے بھی راہل گاندھی سے ملاقات کی ۔ اب وہ اور ان کی تنظیمیں یاترا میں سرگرم حصہ لے رہی ہیں ۔ جانے مانے سماجی کارکن یوگیندر یادو نے بھی سماجی تنظیموں سے یاترا میں حصہ لینے کی اپیل کی تھی ۔ یاترا جن جن علاقوں سے گزر رہی ہے وہاں کے عوام اس سے جڑ رہے ہیں ۔ زبردست عوامی حمایت کو دیکھتے ہوئے بی جے پی ہر روز نئی خبر بنا کر یا تنازعہ کھڑا کرکے یاترا کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ لیکن اس بار حالات بدلے ہوئے ہیں پہلی مرتبہ کانگریس بی جے پی کو اپنے دائرے میں لاکر سوال اٹھانے کو مجبور کر رہی ہے ۔ ٹی شرٹ کو لے کر بی جے پی نے سوال کیا، جھٹکے میں دس لاکھ کا سوٹ، آٹھ ہزار کروڑ کا ہوائی جہاز، ڈیرھ لاکھ کا چشمہ ہر کسی کو یاد آگیا ۔ مدا اٹھا اور کٹ گھرے میں بی جے پی کھڑی ہو گئی ۔
بھارت جوڑو یاترا جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے، عوامی حمایت کو دیکھ کر بی جے پی نے کی گھبراہٹ میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ ملک تو پہلے سے ہی جڑا ہوا ہے تو آخر راہل کسے جوڑ رہے ہیں؟ یہ سوال یا تو بی جے پی کر رہی ہے یا پھر وہ جماعتیں جو ملک کی ٹوٹ پھوٹ میں بھاجپا کی مددگار ہیں ۔ اور اس تقسیم کا فائدہ اٹھا رہی ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ ملک کہاں کہاں سے اور کیسے تقسیم ہو رہا ہے ۔ کون کر رہا ہے آج یہ سب صاف ہے کہ بی جے پی کے راج میں کیا کیا ٹوٹا اور کیا کیا جوڑنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ہم مرکز اور بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کے پچھلے 8-9 سالوں کے حالات پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ ملک کے صدیوں پرانے مخلوط معاشرے میں بڑی دراڑیں پڑی ہیں ۔ موجودہ سیاسی اقتدار نے اکثریت کے زور پر تمام با اختیار آئینی اداروں، ملک کی تکثیری جمہوریت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، مساوات، بھائی چارے جیسی اقدار کو تباہ کیا ہے ۔ معاشی اور سماجی عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے ۔ ریاست طاقتور اور مرکز کی مطلق العنانی بڑھی ہے جبکہ شہری اور وفاقی ڈھانچہ بالترتیب کمزور اور خستہ حال ہوا ہے ۔ پچھلے 8 سالوں میں بھارت کی بنیاد جس قدر کمزور اور اس کی عظیم الشان میناروں کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ یہ پورے ملک کے اتحاد اور سالمیت کو خطرہ میں ڈالنے والی سیاست ہے جو بی جے پی اپنے چھوٹے مقاصد کے لئے کر رہی ہے ۔ مودی دور میں بھارت صرف اور صرف ٹوٹا ہے ۔ جسے راہل گاندھی جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس لیے وہ نہ الیکشن کی بات کر رہے ہیں اور نہ ہی سیاست کی ۔ یاترا کامیاب ہوگی یا نہیں یہ تو معلوم نہیں لیکن کانگریس اور راہل گاندھی اپنا فرض ضرور ادا کر رہے ہیں ۔
کانگریس نے یاترا کے لئے ریاست وار مدوں کا انتخاب کیا ہے ۔ کیرالہ میں لمبے وقت سے آر ایس ایس اور لیفٹ کے درمیان جدوجہد چل رہی ہے ۔ اس کے مد نظر یاترا میں بنیادی مسائل کے ساتھ سنگھ کے نظریہ پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں ۔ ہو سکتا ہے جب یہ یاترا کرناٹک پہنچے تو وہاں ذاتوں کے سمیکرن، کرپشن، ای ڈی، سی بی آئی کے چھاپے اور یدیورپا کو بی جے پی پارلیمانی بورڈ میں لانے پر بات ہو ۔ یہ یاترا ایسے وقت شروع ہوئی ہے جب ملک انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے ۔ بی جے پی حکومت ملک کی حفاظت، معیشت اور گورننس کو نہیں سنبھال پا رہی ہے ۔ مگر بناوٹی راشٹر واد، نفرت اور ہندوتوا کا ایجنڈہ ریاست در ریاست سیاست کو سادھ رہا ہے ۔ جس کا مقابلہ اپوزیشن جماعتیں نہیں کر پا رہیں ۔ ممبران اسمبلی کو خرید کر منتخب حکومتوں کو راتوں رات گرایا جا رہا ہے ۔ حکومت کی پالیسیوں سے غیر متفق یا تنقید کرنے والوں کو مجرموں کی طرح جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن لیڈروں کے خلاف سرکاری ایجنسیاں استعمال ہو رہی ہیں ۔ عدالتیں آئین کے دائرے میں کام کرنے کے بجائے سیاسی دباؤ میں کام کر رہی ہیں اور ان کے فیصلے سماجی پولرائزیشن میں معاون ہو رہے ہیں ۔ اب کسی بھی سماجی مقدمہ کا فیصلہ کیا آنے والا ہے یہ عوام کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے ۔ اس لئے کانگریس کی سیاست سے اختلاف رکھنے والی بھی کئی تنظیمیں یاترا سے جڑ رہی ہیں ۔ کیوں کہ انہیں احساس ہو چکا ہے کہ سماجی پولرائزیشن قومی اتحاد کے لئے خطرہ ہے ۔ اس لئے فرقہ وارانہ سیاست اور اس کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنا ضروری ہے ۔
نریندرمودی کی سربراہی میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے کئی لوگوں کو لگتا تھا کہ وہ ملک کے حق میں بہتر فیصلے لیں گے ۔ آر ایس ایس نے ان کی شبیہ ایسے حوصلہ مند لیڈر کی بنائی تھی جو کم حکومت زیادہ حکمرانی، گڈ گورننس، ملک کی حفاظت اور معیشت کو مضبوط بناکر ترقی کی راہ پر لے جانے والا ہوگا ۔ لیکن وہ کسی بھی فرنٹ پر کامیاب نہیں ہوئے ۔ انہوں نے ہر غیر مدے کو مدے کے طور پر مشتہر اور چھوٹے چھوٹے کاموں کو ایونٹ بنا کر پیش کیا ۔ اب یہ بات سب کی سمجھ میں آ چکی ہے کہ وہ حب الوطنی کے برعکس ہندو راشٹر واد کے پیروکار اور ہندوتوا کے ایجنڈہ کے تئیں با عہد ہیں ۔ ان کے دور میں آر ایس ایس مضبوط ہوئی ہے ۔ تعلیم کا بھگوا کرن اور شہروں، سڑکوں کے نام بدل کر تاریخ بدلنے کی کوشش ہوئی ہے ۔ جس ترقی کا، مہنگائی سے نجات اور گڈ گورننس کا خواب دکھایا گیا تھا ۔ وہ آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ۔ مہنگائی کی شرح کو 2 سے 6 فیصد کے دائرہ میں رکھنے کا ہدف طے کرنے کے باوجود اسے حاصل کرنے کے لئے مضبوط قدم نہیں اٹھائے گئے ۔ نتیجہ میں مہنگائی 7 فیصد سے اوپر بنی ہوئی ہے ۔ اس پر طرہ یہ کہ دودھ، اناج اور خوردنی اشیاء کو جی ایس ٹی کے دائرہ میں لا کر غریبوں کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے ۔ جو پہلے ہی لاک ڈاؤن کے سبب پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ مہنگائی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے ۔ بھارت جوڑو یاترا میں مہنگائی ایک اہم مدا ہے ۔
گاندھی جی سے لے کر راہل گاندھی تک ملک میں کئی یاترائیں نکالی گئی ہیں ۔ چندر شیکھر، این ٹی آر، اڈوانی راج شیکھر ریڈی، جگن موہن ریڈی اور اب راہل گاندھی میں سے اڈوانی کو چھوڑ کر کسی کی بھی یاترا نفرت پیدا کرنے اور سماج کو بانٹنے والی نہیں تھی ۔ اس کے باوجود عوام نے ہر جدوجہد کرنے والے کا ساتھ دیا ۔ چندر شیکھر وزیراعظم بنے، این ٹی آر، راج شیکھر اور جگن موہن ریڈی وزیر اعلیٰ ۔ خود اڈوانی کی رتھ یاترا کے بعد بی جے پی 85 سے 120 سیٹوں پر پہنچ گئی تھی ۔ راہل کی یاترا جن 12 ریاستوں اور دو مرکز کے زیر انتظام صوبوں سے گزرے گی اس کے دائرے میں لوک سبھا کی 370 سیٹیں آتی ہیں ۔ ووٹوں کے لحاظ سے دیکھیں تو اس علاقے میں 20 سے 39 سال عمر کے تقریباً 36 فیصد ووٹر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی راہل گاندھی اور کانگریس کو کبھی کنٹینر، کبھی وویکانند، کبھی کسی اور بہانے سے گھیرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ گوا میں کانگریس کے ممبران اسمبلی کو بی جے پی میں شامل کرنا ہو یا کانگریس لیڈران کا استعفیٰ یا چیتوں کے لانے کو بڑی کامیابی یا امریندر سنگھ کو بی جے پی میں شامل کرنا یہ سب اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ لیکن ہر بار اس کا داؤ الٹا پڑ رہا ہے ۔ یاترا جتنی کامیاب ہوتی جائے گی اکسانے اور بھڑکانے والے کاموں میں آئندہ اتنی ہی تیزی آئے گی ۔ اتنی لمبی یاترا میں اپنے اوپر کنٹرول رکھنا مشکل ہوگا ۔ مگر راہل گاندھی کسی بھی تنازعہ میں الجھنے کے موڈ میں نہیں ہیں ۔
گجرات اور ہماچل پردیش یاترا کے شیڈول میں شامل نہیں ہے ۔ کانگریس کے ترجمان جے رام رمیش نے بتایا کہ ان دونوں ریاستوں میں بھی یاترا ہوگی ۔ اس کا الگ سے پروگرام بنایا جا رہا ہے ۔ جتنے دن راہل وہاں یاترا کریں گے اتنے دن یہاں جاری یاترا رکی رہے گی ۔ واضح رہے کہ ان دونوں ریاستوں میں اسی سال انتخابات ہونے والے ہیں ۔ جے رام رمیش نے بتایا کہ یاترا کا مقصد کانگریس کو مضبوط کرنا، نوجوانوں میں جوش، ہمت، حوصلہ اور طاقت پیدا کرکے پارٹی میں نئی روح پھونکنا ہے ۔ یہ کانگریس کا با ہمت قدم اور بدلاؤ کا لمحہ ہے ۔ ہم بھاجپا سے نظریاتی، نفسیاتی جنگ ہار رہے تھے ۔ کانگریس میں بھی منفی سوچ اور ذہنیت بڑھ رہی تھی ۔ اس یاترا سے کانگریس کے ہر فرد کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ ہم بھاجپا کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ ان کی سوچ وفکر بدلی ہے ۔ دراصل ہم سمجھ نہیں پائے کہ بھارت بدل رہا ہے ۔ نوجوانوں کی امیدیں، مانگیں بدل رہی ہیں، کمیونی کیشن جگت بدل رہا ہے ۔ ہم اقتدار میں رہے ہیں، دیر سے جاگتے، دیر سے جانکاری ہوتی اور اس پر ہمارا ردعمل بھی دیر سے آتا ہے ۔ ہمیں اپوزیشن میں رہنا نہیں آتا ۔ اب ہم یہ سیکھ رہے ہیں ۔ آج ہمیں احساس ہے کہ لبرالائزیشن، اقتصادی اصلاحات سے محرومی، نابرابری بڑھی اور کمنڈل والی طاقتیں مضبوط ہوئی ہیں ۔ مہنگائی، اقتصادی نابرابری، ذات، مذہب، نسل رنگ کی بنیاد پر بڑھ رہے امتیاز، جرائم اور آئینی اداروں کے غلط استعمال کے خلاف یہ ہماری ایماندار کوشش ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت جوڑو یاترا کا نعرہ "ملے قدم جڑے وطن” کتنا اثرانداز ہوگا ۔ یاترا کی کامیابی زمینی سطح پر کانگریس کی تنظیم اور ربط کی مضبوطی پر منحصر ہے ۔ یہ یاترا اسی طرح جاری رہی تو 2024 کی راہ ہموار ہوگی ۔ 150 دن چلنے کے بعد پارٹی کو استحکام اور راہل کا قد آج کے مقابلہ کافی اونچا ہوگا ۔

You may also like

Leave a Comment