Home تجزیہ بھاجپا کی نفرت انگیز مہم، گھبراہٹ اور پریشانی-عبدالعزیز

بھاجپا کی نفرت انگیز مہم، گھبراہٹ اور پریشانی-عبدالعزیز

by قندیل

دہلی ہندستان کی ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ لوک سبھا کی سات سیٹیں اور اسمبلی کی 70سیٹوں کیلئے الیکشن ہوتا ہے۔ اس وقت ریاستی الیکشن درپیش ہے۔ اروند کجریوال بہت دنوں تک ریاست کے مکمل درجہ کیلئے مرکز سے لڑائی کر رہے تھے لیکن جب وہ ہر طرح سے اس لڑائی میں ہار گئے ان کو قانونی سہارا بھی نہیں ملا تو انھوں نے اپنی ساری توجہ دہلی کو ایک فلاحی اور بہتر ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش شروع کردی۔ جو بڑے اورسنگین مسائل دہلی کے رہنے والوں کیلئے پریشان کن تھے ان کو بہت حد تک حل کیا۔ پانی، بجلی، صحت اور تعلیم پر خاص طور پر زور دیا۔ محلہ کلینک کھولا۔ خواتین کو سرکاری بسوں میں مفت سفر کرنے کی سہولت فراہم کی۔ وہاں کے چھوٹے بڑے، امیر و غریب عام آدمی پارٹی سے متاثر ہوئے۔
آئندہ8فروری کو دہلی میں الیکشن ہے۔ گزشتہ پندرہ بیس روز سے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے یہاں الیکشن نہیں ہے بلکہ جنگ ہے۔ بی جے پی اور اس کے سردار اور سرغنہ سب مل کر پوری دہلی کو ہنگامہ خیز اور فساد انگیز ماحول میں تبدیل کرچکے ہیں۔ شاہین باغ میں جہاں خواتین پر امن اور جمہوری طریقے سے کالے قانون کے خلاف بیٹھی ہیں، بی جے پی الیکشن جیتنے کیلئے شاہین باغ اور مسلمانوں کو ہر طرح سے نشانہ بنا رہی ہے۔ پوری دہلی میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں دہلی کے الیکشن کا غلط اثر مرتب ہورہا ہے۔ بی جے پی کے لوگ جو وزیر اور ایم پی ہیں ایسی زہریلی زبان کا استعمال کر رہے ہیں کہ جس سے پورے ملک کا ماحول خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے۔ گن اور گولی مارو کلچر کے ساتھ فتنہ پردازی اور فساد انگیزی بڑھ رہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی جب گجرات میں تھے تو ایسا ہی ہندو، مسلمان کی بنیاد پر الیکشن لڑتے تھے۔ گجرات سے باہر آئے تو پورے ملک کو گجرات بنا دیا۔ دہلی اس وقت جنگجویانہ منظر پیش کر رہی ہے۔ پہلے مودی-شاہ کے لڑکے کپل مشرا، پرویش ورما، انوراگ ٹھاکر نے اپنی زہریلی زبانوں کا استعمال کیا۔ جب ٹھاکر اور ورما پر کچھ دنوں کیلئے الیکشن کمشنر کی طرف سے پابندی عائد کی گئی تو یوگی ادتیہ ناتھ کو میدان میں اتارا گیا جنھوں نے ماحول کو اور پراگندہ کردیا۔ وزیر اعظم مودی اپنی پست ذہنیت کے ساتھ پہلے بھی انتخابی مہم میں حصہ لیتے تھے اور اس وقت بھی ان کی پست ذہنیت ان کے ساتھ سائے کی طرح لگی ہوئی ہے۔ ہریانہ میں اکتوبر کے مہینے میں جو ریاستی الیکشن ہوا اس میں انھوں نے اپوزیشن کو بتایا کہ ان کی کیمسٹری پاکستان سے ملتی جلتی ہے۔ 2017ء میں گجرات اسمبلی کے انتخابی مہم کے دوران انھوں نے الزام لگایا کہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ پاکستان کی مدد سے بی جے پی کو گجرات میں ہرانا چاہتے ہیں۔
اس وقت موصوف شاہین باغ اور جامعہ ملیہ کو اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ شاہین باغ اور جامعہ ملیہ کا احتجاج یا دھرنا کوئی اتفاقیہ نہیں ہے بلکہ ایک تجربہ ہے جو ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پورے ہندستان میں جو کالے قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہورہے ہیں احتجاجیوں اور مظاہرین کو مودی، شاہ اور ان کے چہیتے اور حاشیہ بردار سب کو پاکستان نواز، غدارِ وطن، جہادی اور اربن نکسل سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان الزامات اور بہتان تراشیوں کے دوران گولی اور پستول کے استعمال کے باوجود بی جے پی کے لیڈروں اور کارندوں کی نیند حرام ہے۔ 250 افراد سے زائد جس میں بی جے پی کے گیارہ وزرائے اعلیٰ، کابینہ کے سارے وزراء اور پارٹی کے سارے اہم ایم پی شامل ہیں مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ ایگزٹ پول کی جو پیش گوئی ہے اس کے مطابق عام آدمی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے اور بی جے پی کو ایگزٹ پول کے مطابق 10-12 سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ ایگزٹ پول کی رپورٹ سے بی جے پی کے اوسان خطا ہوگئے ہیں۔ پہلے بی جے پی نے اپنے لوگوں کے ذریعے پستول اور فائرنگ کا سہارا لیا۔ اب کپل گورجر جس نے شاہین باغ میں فائرنگ کی تھی اسے عام آدمی پارٹی سے بی جے پی جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شاید بی جے پی کو گن کلچر انتخاب کیلئے راس نہیں آیا، جس کی وجہ سے ایک نئی سیاسی چال چلنے پر مجبور ہوئی ہے تاکہ اس کی جو رسوائی اور بدنامی ہوئی ہے اس میں کمی واقع ہو اور عام آدمی پارٹی بھی بدنام ہو۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کے اندر گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ (Nervousness) پیدا ہوگئی ہے۔
گزشتہ روز ایک تحریری سوال کے جواب میں بی جے پی کے وزیر نے بتایا کہ NRC کے لاگو ہونے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ اگر بی جے پی دہلی میں بری طرح ہارتی ہے تو اس کا زیادہ امکان ہے کہ CAA کے بارے میں بھی اس کا جواب دیر یا سویر این آرسی جیسا ہی ہوگا۔ NPR کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ سرکاری عملہ کاغذات یا دستاویز کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ ان اعلانات یا جوابات سے احتجاج اور مظاہرے کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے اور اس سے آگے بڑھ کر بی جے پی کو ہٹانے اور دیس بچانے کی مہم چلانے کی ضرورت ہے کیونکہ اب اس حکومت سے کوئی اچھی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس حکومت کی موجودگی میں ملک کا ماحول دن بدن خراب سے خراب تر ہوتا جائے گا۔ روزگار اور معاشی حالت بھی بدسے بدتر ہوتی جائے گی۔ جس سے عوام کو بیحد پریشانی لاحق ہوجائے گی۔ جمہوریت اور دستور کو بھی خطرہ درپیش ہوگا۔ اس لئے اس حکومت کو ہٹانے اور ملک کو بچانے کی مہم میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنی چاہئے۔ جن لوگوں نے یہ سوچا ہے کہ آزادی سے بڑی لڑائی اس وقت لڑنے کی ضرورت ہے انھوں نے صحیح سوچا ہے۔ اس سوچ اور اس کیلئے جو عمل ہے اس کا دل و جان سے ساتھ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment