(ایڈیٹرروزنامہ ممبئی اردونیوز)
ہندو مسلم تصادم کا واحد حل بات چیت ہے ،نہ کہ اختلاف۔
راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس )کے سربراہ موہن بھاگوت کی بات اچھی لگی ! موہن بھاگوت پہلے بھی کئی بار ایسی باتیں کہہ چکے ہیں ،لیکن اس بار انہوں نے کچھ زیادہ ہی تفصیل سے ہندو مسلم تصادم اور اختلاف پر بات کی ہے ،اور بات یوںکی ہےجیسے کہ ، وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان سامنے آئیں، تاکہ جو بھی اختلافات ہیں، ان کے حل بات چیت کے ذریعے نکالے جائیں ۔ کیا یہ ایک اچھی پیشکش نہیں ہے ؟ یہ سوال مسلم قیادت سے ہے ۔مسلم قیادت کو اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے ،بھلے ہی سوچنے سمجھنے میں کچھ وقت لگ جائے ، کوئی بھی ہندوستانی مسلمان یہ نہیں چاہے گا کہ موہن بھاگوت کی بات چیت کی یہ پیشکش ،اگر یہ بات چیت کی پیشکش ہے تو، آنکھ بند کر کے قبول کر لی جائے ،کیونکہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کا ،باالفاظ دیگر سارے سنگھ پریوار کا تجربہ ،مسلمانوں کے لیے کوئی بہت اچھا نہیں رہا ہے ۔مسلمان آج جہاں پر کھڑا ہوا ہے وہاں سے جب پیچھے گھوم کر ،ماضی بعید و ماضی قریب پر نظر ڈالتا ہے ، تو اسے آگ کی وہ لپٹیں اور وہ خون کے بہتے ہوئے دریا دکھائی دیتے ہیں ،جو ترقی کی سمت بڑھنے کی ،اس کی راہ کی سب سے بڑی روکاؤٹ بنے ہیں ،اور ان میں سنگھ کا ہاتھ بہت نمایاں نظر آتا ہے۔سب ہی اس بات سے خوب واقف ہیں کہ ملک کی تقسیم کا سارا الزام بھلے ہی پاکستانیوں کے قائدِ اعظم محمد علی جناح کے سر ڈال دیا جائے ،اس کے قصوروار ملک کے سیکولر اور غیر سیکولرسیاست داں بھی رہے ہیں ۔وہ سیکولرسیاست داں جن کی نظریاتی وابستگی سنگھ سے ابتدا سے تھی ،اور جو آج بھی سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیوں میںموجود ہیں ،نہ صرف موجود بلکہ اُن پر اپنی پکڑ اور گرفت بنائے ہوئے ہیں۔ سنگھ کے اشارےپر انہوں نے ملک کے جمہوری سیکولر کردار اور ڈھانچے کو اندر ہی اندر مسخ کرنے کا کام پہلے بھی بڑی ہی مہارت سے کیا ، اور آج بھی جب یہ بہت ضروری ہو گیا ہے کہ ملک کے سیکولر و جمہوری ڈھانچے کو قوت بخشنے کے لیے ،بغیر ڈرے پوری محنت اور ایمانداری کے ساتھ مہم چلائی جائے ،یہ عناصر اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ کیا کانگریس یونہی زوال کی طرف بڑھ رہی ہے ؟ کیا سماج وادی پارٹی، جو لوہیا کے سوشلزم کا بھونپو بجاتی چلی آرہی تھی خودبخود اپنے نظریات اور اپنی راہ سے ہٹ گئی ہے؟ اعظم خان ،مختارانصاری ،عتیق احمد وغیرہ کے ساتھ جو ہو رہا ہے کیا سماج وادی پارٹی کا اُس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے؟ کیا لالو پرساد یادو کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل نے، شہاب الدین مرحوم کے ساتھ جو کچھ ہوا ،اسے دیکھ کر اپنی زبان پر بغیر اپنے کسی مفاد کے ، تالے ڈالے رکھے تھے؟ بھلا مایاوتی کو اپنے مسلمان ووٹروں کی یاد اب کم کم کیوں آنے لگی ہے؟ یو پی میں وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو کیوں اب سیکولر سیاسی پارٹیوں کے احتجاج کا کوئی ڈر نہیں رہ گیا ہے؟اگر ان سوالوں پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے مسلم قیادت اور مسلم رائے دہندگان کو اس ملک میں حاشیے پر لگانے کی مشترکہ کوششیں کی گئی ہیں ،اور کیسے اس کوشش میں ایک حد تک اُنہیں ،جو اس کوشش کو ناکام نہیں دیکھنا چاہتے تھے، کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کیا یہ سب سنگھ پریوار کی مرضی اور منشاء کے بغیر ہوا ہے ؟ نہیں، اس کے پسِ پشت بھگوائیوں کا ہاتھ بہت واضح ہے۔ ہوایہ ہے کہ آر ایس ایس نے ، کیا سیکولر اور کیا غیر سیکولر ، ہر سیاسی پارٹی سے اپنی مرضی کے کام لیے ، ہاں یہ بہت ممکن ہے کہ سیکولر سیاسی پارٹیوں کے کچھ اربابِ حل و عقد کو اندازہ ہی نہ رہا ہو کہ وہ استعمال کیے جا رہے ہیں ۔
جس طرح اس ملک میں جمہوری قدروں کے خاتمے اور سیکولزم کو مٹانے کے لیے سازشیں گڑھی گئی ہیں اسی طرح مسلم اقلیت کو ، جسے اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کہا جاتا ہے ، برباد اور تباہ کرنے کے لیے بھی سازشیں بُنی گئیں ،ہر سیاسی پارٹی کو استعمال کیا گیا ،فسادات کرائے گیے ، دہشت گردانہ حملے کرائے گیے ،سرکاری ایجنسیوں کا استعمال کیا گیا ، لُٹے پٹے بھی مسلمان ، حراست میں لیے گیےبھی مسلمان ، سزاجنہیں دی گئی وہ بھی مسلمان ۔ آبادی کا تناسب کوئی ۱۴ فیصد اور جیلوں میں جو مسلمان ٹھونسے گیے وہ آبادی کے تناسب سے کئی گنا زیادہ ۔ گویا کہ تباہ وبرباد کرنے کا وہ کون سا ہتھیار نہیں تھا یا نہیں ہے جس کا گزرے ہوئے کل یا آج مسلمانوں کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا یا نہیں کیا جا رہا ہے۔ پوٹا اور ٹاڈا سے لے کر یو اے پی اے تک کے غیر انسانی قوانین کے تحت جو پکڑے گیے اور جنہیں سزا دی گئی ،بشمول سزائے موت ،ان میں کس کی تعداد زیادہ ہے ،دیکھ لیں ۔ ناانصافی اور مصائب کا جو سیلِ رواں تھا اور ہے ،اُس کے پسِ پشت بھی سنگھ ٹولے کا ہاتھ بہت نمایاں ہے ۔ جب سے مرکز میں نریندر مودی کی سرکار بنی ہے ،اور ملک کی اکژ ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں کام کرنے لگی ہیں ،ہندوستانی مسلمانوں کے لیے حالات انتہائی دشوار بنا دیے گیے ہیں ۔ فسادات تو کم ہوئےہیں، سوائے دہلی کے کوئی اور بڑا فساد نہیں ہوا ہے ،لیکن ایسے ایسے قانون بنا دیے گیے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے روزی روٹی سے لے کر زندگی کے دیگر معاملات تک میں سرگرم ہونا، مشکل سے مشکل ترین ہوتا جارہا ہے ۔ گئوذبیحہ کو ہی لے لیں ، اس نام پر ہر طرح کے ذبیحے پر سختی ،اور ایسی سختی کر دی گئی ہے کہ اس روزگار سے لگے ہوئے لوگوں کے لیے زندگی گزارنا تقریباًناممکن سا ہو گیا ہے۔اس پر گئو رکھشا کے نام پر کی جانے والی ماب لنچنگ مرے پر سو دُرّےکے مصداق ہے ،اور بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس کے خلاف ،سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود ، کوئی قانون نہ بنایا گیا ہے اور نہ ہی بنائے جانے کی امید ہے ،رہی اپوزیشن پارٹیاں تو انہیں جیسے کہ ماب لنچنگ کوئی مسٔلہ ہی نہیں لگ رہا ہے!مودی دور کے آغاز میں یعنی ۲۰۱۴ء سے جو ماب لنچگ کی شروعات ہوئی ہے اس پر آج تک قابو نہیں پایا جاسکا پے ۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ قابو پانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی ہے۔ ماب لنچنگ کے ساتھ شہریت کے نئے قانون کے ذریعے مسلمانوں کو ، جو پہلے ہی اس ملک میں حاشیے پر تھا ، نہ سرکاری ملا زمت اور نہ ہی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ ،وہ مزید حاشیے پر پہنچا دیا گیاہے ۔ شہریت قانون کی مخالفت ہوئی اور جم کر ہوئی مگر مخالفت کرنا بھی اس ملک میں ، مسلمانوں کے لیے ایک جرم ٹھہرا ہے لہٰذااس کی املاک قرق کی گئیں اور اسے جیلوں میں ٹھونسا گیا ،بالخصوص یوگی کے راج میں ۔ افسوس یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلمانوں کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آئی ہے ،اسے تقریباً سب نے بیچ منجدھار میں چھوڑ دیاہے ۔ کئی سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیاں شہریت معاملے میں بی جے پی کے ساتھ کھڑی نظر آئی ہیں ۔دہلی فسادات میں عام آدمی پارٹی کے کیجریوال فسادیوں کے خلاف کچھ نہیں کر سکے ہیں ،بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے لیے دیئے گئے گگوئی کے فیصلےکی کانگریس جیسی قدیم ترین سیاسی پارٹی گُنگان کرتی رہی ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کسی نہ کسی موقعے سے سنگھ پریوار کے خیمے میں کھڑی نظر آئی ہے ،لہٰذا کیوں نہ مسلم قیادت بھی ایک بار بات چیت کر کے دیکھ لے۔ ممکن ہے کہ کوئی راہ نکل ہی آئے۔ مجھے اس موقعے پر آر ایس ایس کے سربراہ سدرشن یاد آرہے ہیں کہ ان کی جب مسلمانوں سےبا ہوئی تھی تو بہتر نتائج سامنے آئے تھے ،وہ خود مسلمانوں کے لیے نرم پڑے تھے بلکہ ان کے ساتھ مل جل کر کام کرنے اور ملک کو ایک بہتر راستے پر لے کر چلنے کے لیے راضی بھی ہوگئے تھے ۔
بھاگوت نے جو کہا اس پر ایک نظر ڈال لیں تاکہ پتہ چل سکے وہ کیا چاہتے ہیں۔ بھاگوت نے کہا:’’تمام ہندوستانیوں کا ڈی این اے ایک ہے اور مسلمانوں کو ڈر کے اس چکر میں نہیں پھنسنا چاہیے کہ ہندوستان میں اسلام خطرے میں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا :’’جو لوگ مسلمانوں سے ملک چھوڑنے کو کہتے ہیں وہ خود کو ہندو نہیں کہہ سکتے ، ایساشخض ہندو نہیں ہےاور جو لوگ لنچنگ کرتے ہیں وہ ہندوتوا کے خلاف ہیں ، قانون کو غیر جانبداری سے اپنا کام کرنا چاہیے۔‘‘ مزید کہا: ’’ایکتا کی بنیاد نیشنل ازم اور اجداد کا فخر ہونا چاہیے ،ہندو مسلم تصادم کا واحد حل بات چیت ہے۔‘‘مجھے حال ہی میں موہن بھاگوت کی ایک کتاب ’’ مستقبل کا بھارت‘‘دیکھنے کا اتفاق ہوا ، اس میں مذکورہ موضوعات پر ان کی کہی باتیں کچھ تفصیل سے شامل ہیں ،مثلاًایک جگہ وہ لکھتے ہیں :’’جو گائے کے تحفظ کی بات کرتے ہیں، وہ لنچنگ کرنے والے نہیں ہیں،وہ معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرتے ہیں ،وہ اعلیٰ اخلاق کے لوگ ہیں۔‘‘ایک جگہ لکھتے ہیں:’’پرانی روایات ، قومیت ،مادرِ وطن اور اپنے اسلاف کے اعتبار سے ہم سب ہندو ہیں۔یہ ہمارا کہنا ہے اور یہ ہم کہتے رہیں گے۔‘‘بھاگوت کی یہ اور جو باتیں اوپر کہی گئی ہیں ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے ، بلکہ اختلاف کیا جانا چاہیے ،کیونکہ اس ملک کے مسلما ن خود کو ہندو نہیں کہلا سکتے ،اس لیے کہ ہندو اور اسلام دو الگ الگ مذاہب ہیں ،دونوں میں بڑا فرق ہے ،اب اگر کوئی مسلمان بھاگوت کی بات مان کر خود کو ہندو کہنے لگے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ اب وہ مسلمان نہیں ہے ،لہٰذا یہسوال اٹھے گا کہ کہیں بھاگوت کی منشا سارے مسلمانو ں کوہندو بنانا تو نہیں ہے؟ اسی طرح یہ تو درست ہے کہ تمام ہندوستانی قوم کا ڈی این اے ایک ہے لیکن وہ جو یہ کہتےہیں کہ مسلمان عرب سے آئے ہیں انہیں بھاگوت کیا جواب دیں گے؟ بھاگوت تک یہ بات پہنچانا چاہیے کہ بھارت میں اسلام کو قطعی خطرہ نہیں ہے ،یہ تو سنگھ ہی کے لوگ ہیں جو ’ہندو خطرے میں ہیں ، ہندو دھرم خطرے میں ہے ‘ کے نعرے لگاتے ہیں ۔ لنچنگ کا جہاں تک معاملہ ہے تو یہ کرنے والےاکثر لوگ سنگھ اور بی جے پی سے جڑے ہوئے لوگ ہیں ،کیا بھاگوت ان سے یہ کہہ سکیں گے کہ اب آپ لوگ ہندو نہیں رہے ؟ بہت سارے سوال ہیں جو بھاگوت سے پوچھے جا سکتے ہیں اور پوچھے جانے ضروری بھی ہیں ،لیکن اس کے لیے یہ بھی ْضروری ہے کہ جب سوال رکھے جائیں تو جواب ملے ،اور جواب پانے کے لیے آمنے سامنےکا بیٹھنا ضروری ہے ۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ مسلم قیادت بھاگوت کی باتیں مانے ہی ، مگر نہ ماننے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ جو بھی باتیں ہیں وہ سامنے آئیں ۔اور اس سے بہتر موقع شائد بات چیت کا پھر نہیں ملے گا ۔ آر ایس ایس کے سربراہ نے ایک پہل کی ہے اس پہل کا جواب مسلم قیادت کو ،جس میں مذہبی قیادت بھی شامل ہے، دینا ہی چاہیے ۔ اختلاف بہت ہوچکا۔ بات چیت کرنے سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ بھاگوت اپنی بات میں کتنے سنجیدہ ہیں ،کیا وہ واقعی مسٔلے کا حل چاہتے ہیں یا ملک کو ’ہندو راشٹر ‘ میں بدلنے کے لیے مسلمانوں کو کوئی فریب دے رہے ہیں ۔ اب بھاگوت نے مسلمانوں کے پالے میں گیند پھینک دی ہے ،اس گیند کا کیا کرنا ہے ،اس پر غور کرنا اب مسلم قیادت کی ذمہ داری ہے۔