Home ستاروں کےدرمیاں ‘بنگالی بابو’ سے ملاقات – محمد رضی الاسلام ندوی

‘بنگالی بابو’ سے ملاقات – محمد رضی الاسلام ندوی

by قندیل

 

مرشد آباد (West Bengal) کے سفر (24 دسمبر 2023) میں میری ایک قابلِ ذکر یافت میرے عزیز دوست اور کلاس فیلو ڈاکٹر عبد اللہ سے ملاقات ہے – ہم دونوں دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں کلاس فیلو رہے ، پھر ساتھ ہی 1983 میں علی گڑھ گئے اور وہاں طبیہ کالج میں بھی ایک ساتھ تعلیم حاصل کی – پورے تعلیمی سفر میں ہم دونوں کے درمیان کافی قربت رہی ، چنانچہ بھائی عبد اللہ نے ایک تعطیل میرے ساتھ میرے گھر پر گزاری – سفر شروع کرنے سے کئی روز قبل ان کا فون آیا :” معلوم ہوا ہے کہ آپ مرشد آباد آرہے ہیں ، نور الإسلام کالج میں آپ کا پروگرام ہے؟ “ میں نے اثبات میں جواب دیا تو انھوں نے کہا :” میرا گھر وہاں سے صرف 10 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے – یہاں آنے کے لیے کچھ وقت ضرور نکالیں – “ میں نے جواب دیا : ” پروگرام شیڈول اتنا ٹائٹ ہوتا ہے کہ عموماً کہیں جانے کا موقع نہیں نکل پاتا ، لیکن آپ امیر حلقہ سے بات کرلیں ، ممکن ہوا تو میں ضرور حاضر ہوں گا – “

مجھے اندازہ تھا کہ اجازت ملنی مشکل ہے – وہی ہوا – امیر حلقہ نے معذرت کی تو عبد اللہ بھائی کا پھر میرے پاس فون آیا : ” امیر حلقہ نے کہا ہے کہ آپ کا کہیں جانا ممکن نہیں ، اچھا تو میں خود آپ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوں گا – “ بھائی عبد اللہ آئے ، پروگرام میں شریک رہے ، ملاقات ہوئی تو پرانی یادیں تازہ کیں ، گھر بار ، بیوی بچوں کے احوال دریافت کیے – عبداللہ بھائی یونانی کی پریکٹس کرتے ہیں ، ان کا بڑا لڑکا MBBS کرچکا ہے ، وہ اور اس کی بیوی دونوں گورنمنٹ جاب میں ہیں ، چھوٹا لڑکا ابھی MBBS کررہا ہے۔ حالِ دل سنانے اور سننے کے بعد وہ مغرب کے وقت رخصت ہوئے۔

 

بھائی عبد اللہ کے ساتھ پیش آنے والا علی گڑھ کا ایک واقعہ زندگی کی آخری سانس تک نہیں بھلایا جاسکتا – علی گڑھ پہنچنے کے بعد میں نے اپنے والد صاحب سے خرچ لینا بند کردیا تھا۔ اپنا اور اپنی چھوٹی بہن اور چھوٹے بھائی کے تعلیمی مصارف خود پورے کرنے لگا تھا۔ اس کے لیے میں ٹیوشن پڑھاتا اور عربی سے اردو ترجمہ کرتا – کبھی کبھی وقت پر پیسے نہ مل پاتے تو پریشانی ہوجاتی تھی۔ ضرورت سے زیادہ جھجھک ہونے کی وجہ سے کسی سے قرض مانگنے کی ہمّت نہ پڑتی تھی۔ عبد اللہ بھی میری طرح تنگ دست تھے۔ ان کی کفالت ان کے ایک جاننے والے کرتے تھے۔ کبھی کبھی ان کے یہاں سے بھی پیسے آنے میں تاخیر ہوجاتی تھی۔ بھائی عبد اللہ نے اس کا حل یہ نکالا کہ ہاسٹل انتظامیہ سے مل کر اپنا کھانا معاف کروالیا، چنانچہ ان کے کھانے کی فیس انتظامیہ کی طرف سے ادا کردی جاتی تھی۔ بارہا ایسا ہوا کہ میرے پاس کھانے کی فیس ادا کرنے کے پیسے نہیں ہیں ، پھر فیس کیسے ادا کروں ؟ اور فیس جمع نہ ہو تو کھانا کیسے کھاؤں؟ بغیر ناشتہ کیے تو رہا جاسکتا ہے ، لیکن بغیر کھانا کھائے کتنے دن کاٹے جاسکتے ہیں؟! ایسے مواقع پر بھائی عبد اللہ نے بڑا کرم کیا۔ انھوں نے تسلّی دی اور کہا کہ گھبرانے اور پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ، ہم دونوں ایک ہی کھانے میں گزارا کرلیں گے – اس وقت سالن اور دال کی کٹوریوں کے ساتھ چار چھوٹی روٹیاں ، یا دو روٹیاں اور تھوڑا سا چاول ملتا تھا، چنانچہ کافی دنوں تک ہم دونوں ایک کھانے میں شریک رہے –

ایسے ٹوٹ کر چاہنے والے اور ایثار کرنے والے اب کہاں ملتے ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ یہ اخلاقی قدریں اب عنقا ہوگئی ہیں۔

You may also like