(فیچر ایڈیٹر، روزنامہ اردو ٹائمز ، ممبئی)
حماس کے جنگجو ۷؍اکتوبر بروز سنیچر فلسطین کی اس زمین پر داخل ہوئے جس پر اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ ہے اور وہاں سے سینکڑوں اسرائیلی فوجیوں کو حراست میں لیا اور انہیں لے کر غزہ پٹی لے آئے۔ ایسی صورت میں فطری تقاضا یہ تھا کہ اسرائیل اپنی فوج (جو دنیا میں بہت ہی زبردست قسم کی مانی جاتی ہے ) لے کرشمالی غزہ میں داخل ہوتا اور چونکہ اسرائیلی جاسوسی ایجنسی’ موساد‘ دنیا کی سب سے افلاطونی قسم کی جاسوسی ایجنسی ہے لہٰذا اس کے پاس حماس کے تمام اڈوںکی اطلاع یقیناہوگی، اسرائیل ان اطلاع کی بنیا دپر حماس کے اڈوں پر چڑھائی کرکے اپنے یرغمال فوجیو ںکو رِہا کروادیتا ، لیکن ۱۴؍دن گزرنے کے بعد بھی اسرائیل اب تک غزہ میں ایک انچ اندر داخل ہونے کی ہمت نہیں جٹاپایا ہے ۔ غزہ زمین کا چھوٹا سا حصہ ہے جس کے ایک طرف پانی دو طرف اسرائیل اور ایک طرف مصرکی سرحد لگتی ہے ۔ مصر کی سرحد بھی بند ہے ۔ اس طرح غزہ چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے ۔ حماس کو کوئی فوجی مدد بھی نہیں پہنچ سکتی ہے پھر آخر یہودی ریاست حماس پر چڑھائی کیوں نہیں کررہی ہے ، جبکہ اسرائیل کے سر پر دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کا پدرانہ دست شفقت بھی ہے ۔
دراصل زمینی کارروائی سے اسرائیل کا پس وپیش یونہی نہیں ہے ۔ ۲۰۰۶ء میں اسرائیل کو بالکل اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا جب حزب اللہ کے جنگجو اسرائیل کے چند فوجیوں کو حراست میں لے کر انہیں لبنان لے گئے تھے۔اپنے فوجیوں کی بازیابی کےلیے اسرائیل نے زمینی کارروائی سمیت ساری طاقت آزمالی تھی لیکن کوئی کامیابی نہیں ملی ۔ آخر کار اسے حزب اللہ کی شرطوں کو ماننا پڑا تھا ۔آج اسرائیل کا سوچنا یہ ہوسکتا ہے کہ کہیں ۲۰۰۶ء میں جو سبکی اٹھانی پڑی تھی وہ پھر سے مقدر نہ بن جائے ۔ ایسی صورت میں حماس سے دو بدو لڑائی سے بچنے کےلیے اور حماس سے لڑے بغیر اسے زیر کرنے اور اپنی شرائط پر راضی کرنے کا اسرائیل نے دوسرا اور ابلیسی راستہ منتخب کیا ۔ اس نے غزہ کے عام شہریوں کو بمباری کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔یہ ابلیسی بمباری حماس کو بلیک میل کرنے کا طریقہ ہے۔
یہودی کا خیال ہے کہ اس طرح عام فلسطینیوں پر بمباری سے حماس کا دل پگھل جائے گا اور وہ گھٹنوں پر آجائےگا۔ یہ حربہ جنگی نقطہ نظر سے انتہائی گھناؤنا اور شیطانی ہے۔ دنیا میں کبھی بھی جنگی قوانین میں عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی گئی اور بنی نوع انسان نے ہمیشہ ہی عام شہریوں کو جنگ سے الگ رکھا، لیکن اسرائیل کا انسانی قوانین اور انسانیت سے آخر کیا واسطہ ؟ انسانیت کا دشمن اسرائیل عام شہریوں حتیٰ کہ اسپتال، اسکول، مسجد اور گرجا گھروں پر بھی بمباری کررہا ہے ۔ چونکہ وہ حماس کا مقابلہ نہیں کرپارہا ہے اس لیے حماس کا غصہ وہ عام شہریوں پر بمباری کرکےنکال رہا ہے ۔ یہاں یہ توجیہہ پیش کی جاسکتی ہےکہ جب حماس کو معلوم ہے کہ اسرائیل ایسا کرے گا تو اسے اس طرح کی مہم جوئی سے باز رہنا چاہیے تھا ، لیکن یہ توجیہہ اسرائیل کےشیطانی عمل کو تحفظ فراہم کرتی ہے اور دنیا میں جنگ کے حوالے سے ایک انتہائی غیر انسانی مثال بن جاتی ہے۔ یہ توجیہہ اور جواز اسرائیل کو اس بات کا حق دیتےہیں کہ وہ فوج کا بدلہ عام شہریوں سے لے سکتا ہے۔ اگر یہ حق اسرائیل کو دیا جاسکتا ہے پھر دنیا کے دیگر تمام ممالک کو اس سے کیوں روکا جائے؟پھر دنیا کے تمام ممالک کو اس بات کا حق دے دیا جائے کہ وہ فوج کا بدلہ دشمن ملک کے عوام سے لے سکتےہیں۔اگر تمام ممالک اس پر عمل شروع کردیں تو دنیا میں جو خونریزی ہوگی اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس کا ایک ہی حل ہے کہ اسرائیل کو اس کے جنگی جرائم کےلیے ایسی عبرتناک سزادی جائے کہ آئندہ کوئی بھی ملک یا فوج جنگ میں عام شہریوں کے قتل عام کی درندگی نہ کرے۔ ہندوستان اور پاکستان بہت بڑے دشمن ہیں کئی جنگیں لڑچکےہیں لیکن ان دونوں نے بھی جنگ میں عام شہریوں کو بمباری کا نشانہ نہیں بنایا۔ حماس بھی مزاحمت کے طو رپر اسرائیل کے خلاف راکٹ داغتا ہے لیکن کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ حماس کا راکٹ اسرائیل کے کسی اسپتال پر آکر گرا؟ یا کسی اسکول یا کسی عبادت گھر کو نشانہ بنایا؟ اسرائیل کے مقابلے میں کم جدید ٹیکنالوجی کے باوجود بھی حماس کے جنگجوؤں سے کبھی غلطی نہیں ہوتی۔ ایسا کیوں؟ ایسا اس لیے کیونکہ حماس زیادہ تر اسرائیلی فوج یا فوجی اڈوں کو نشانہ بناتا ہے عام شہریوں کو نہیں ۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ہزاروں راکٹ فائر کرنے کے بعد بھی ایک بھی راکٹ کسی اسپتال پر نہیں گرا۔یہاں صورتحال یہ ہے کہ حماس در حقیقت عالمی جنگی قوانین پر عمل کررہا ہے اور یہودی ریاست بنیادی انسانی قوانین کی دھجیاں اڑارہی ہےاس کے باوجود میڈیا حماس کو دہشت گرد اور اسرائیلی فوج کو قانونی فوج بناکر پیش کررہا ہے ۔اس جنگ میں اسرائیل نے تمام جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے ۔ اسپتالوں پر بمباری کرکے اس نے ابلیسیت کا ثبوت دیا ہے ۔میڈیا میں صرف ’ال اہلی ‘ اسپتال کا ہی ذکر ہے جبکہ حقیقت میں صہیونی ریاست نے کئی اسپتالوں کو تہس نہس کیا۔ ال اہلی اسپتال میں مقتولین کی تعداد ۵۰۰؍سے زائد ہے اس لیے اس کاذکر زیادہ ہوا۔ اسپتال پر بمباری جیسی درندگی اور گیارہ لاکھ لوگوں پر پانی ، کھانا اور بجلی بند کرنے جیسا شیطانی کام آج تک کسی بھی قوم نے نہیں کیا اور اس ساری درندگی اور ابلیسیت میں امریکہ اسرائیل کےساتھ برابر کا شریک ہے ۔ امریکی شہ پر ہی صہیونی ریاست اس طرح کی درندگی کا ننگا ناچ کررہی ہے ، تاہم ان سب کے باوجود بھی وہ اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہی ہے ۔ وہ اسرائیلی فوجی اب بھی حماس کے ہی قبضہ میں ہیں ۔
اسرائیل اور امریکہ کے پاس اب صرف دو متبادل ہیں۔ یا تو وہ زمینی کارروائی کرکے فوجیوں کو چھڑائے یا پھر مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر پرامن طو رپر حماس کی شرائط کو مان لے ۔ گمان غالب ہے کہ اسرائیل اور امریکہ شش و پنچ میں ہیں کہ ان دونوں متبادل میں سے کس پر عمل کیا جائے۔ زمینی کارروائی کا اعلان کرکے ۸؍دن گزرچکےہیں اور صہیونی فوج آگے نہیں بڑھی۔ ہم نے پچھلے ہفتہ اردوٹائمز کے سنڈے میگزین میں ہی لکھا تھا ۔ ’’غزہ میں جنگ کیا نوعیت اختیار کرتی ہے یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ یہ شہری علاقہ ہے ، جس کی وجہ سے یہ گوریلا جنگ کےلیے انتہائی موزوں میدان جنگ بن جاتا ہے۔‘‘ امریکہ اور اسرائیل کو اسی کاخوف ستارہاہےکہ غزہ میں داخل ہونا کہیں حماس کے تیار کیے ہوئے جال میں پھنسنا نہ ہوجائے کیونکہ حماس بھی ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھا نہیں ہوگا بلکہ وہ غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کا انتظار ہی کررہا ہوگا۔اب آخری بات!!
کیا حماس دہشت گرد ہے؟
صہیونی ریاست کی تمام ابلیسیت کے باوجود بھی اپنے آپ کو غیر جانبدار اور ’ایماندار‘ قرار دینے والے میڈیا گھرانے عام شہریوں کی ہلاکت کےلیے حماس اور اسرائیل دونوں کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں ، جبکہ حماس اور اسرائیل قطعی طور پر برابر نہیں ہوسکتے ہیں ۔ حماس کسی دوسرے کی زمین پرقبضہ نہیں کیا ہوا ہے جبکہ اسرائیل نے فلسطین کی زمین پرغیر قانونی قبضہ کررکھا ہے ۔ حماس اپنی سرزمین کی آزادی کےلیے مزاحمت کررہا ہے اور دنیا میں حماس کوئی پہلی تنظیم نہیں ہے جو اپنی سرزمین کےلیے اس طرح فوجی مزاحمت کررہی ہو۔ اس سے پہلے دنیا میں ایسی کئی مزاحمتیں ہوچکی ہیں اورہمیشہ دنیا نے ایسے مزاحمت کاروں کو ستائش کی نظروں سے دیکھا ہے ۔ ویتنام میں امریکہ کے خلاف لڑنے والوں کو دنیا نے کبھی دہشت گرد نہیں کہا۔افغانستان میں روس کے خلاف برسرپیکار مزاحمت کاروں کو پورا یوروپ اور خود امریکی حکومت ’مجاہدین آزادی‘ اوراپنی سرزمین کےلیے لڑنے والے بہادر سپوت وغیرہ کہتے تھے ؟خود امریکی بابائے قوم جارج واشنگٹن نے بھی بالکل حماس کی طرح ہی عسکری مزاحمت کی ہی قیادت کی تھی اور جنگ و جدل کے ذریعے ہی امریکہ کو آزاد کروایا تھا۔ اس طرح اگر حماس دہشت گرد ہے تو جارج واشنگٹن بھی دہشت گرد ہے۔ہمارے ملک میں سبھاش چند ربوس نے بھی برطانوی حکومت کے خلاف ایک فوج کی قیادت کی تھی ۔ اپنی سرزمین کی آزادی کےلیے فوجی مزاحمت کرنا دہشت گردی نہیں بلکہ مادر وطن کے لیے جان قربان کرنے کا قابل ستائش جذبہ ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)