Home نقدوتبصرہ بیان شبلی کی تیسری جلد اور تذکرہ شبلی منزل کے مسافروں کا- شکیل رشید

بیان شبلی کی تیسری جلد اور تذکرہ شبلی منزل کے مسافروں کا- شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے والد پنڈت موتی لال نہرو کو ’ شبلی منزل ‘ سے بے انتہا تعلق تھا ؟ کیا یہ پتہ ہے کہ اعظم گڑھ کے اپنے ایک سفر میں پنڈت نہرو رات کے گیارہ بجے باغوں باغ ، پبلک سے بچتے بچاتے ’ شبلی منزل ‘ پہنچے تھے ؟ اور کیا جانتے ہیں کہ جب مہاتما گاندھی ؔ شبلی منزل ‘ پہنچے تھے تو وہاں کے سب لوگ صف بنائے نماز پڑھ رہے تھے ، اور انہیں خاموشی کے ساتھ بنچ پر بیٹھ جانا پڑا تھا ؟ یہ سب ، اور دیگر اہم شخصیات ، اُس لمبی فہرست میں شامل ہیں جسے ماہرِ شبلیات ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی نے ’ بیان شبلی ‘ کے سلسلے کی تیسری جلد میں ’ مسافرانِ شبلی ‘ کا نام دیا ہے ۔ ’ بیانِ شبلی ‘ نمبر – ۳ میں ، شبلی اور شبلی کے حوالے سے اعظم گڑھ اور ’ شبلی منزل ‘ سے تعلق رکھنے والوں کے تذکرے نے ، اسے ’ بیانِ شبلی ‘ کے سلسلے کی پہلی اور دوسری جلدوں سے بہت مختلف اور یادگار بنا دیا ہے ۔ شبلی اور ان کے شاگرد سیّد سلیمان ندوی کے حوالے سے ’ شبلی منزل ‘ میں آنے اور ٹھہرنے والوں کا ذکر نہ جانے پہلے کیوں نہیں کیا گیا ، اور اگر کسی نے کہیں کیا بھی تو سرسری اور وہ بھی کسی اور موضوع کے حوالے سے ، یہ پہلا موقع ہے ، اور یہ موقع ڈاکٹر صاحب ہی کو حاصل ہوا ، کہ انہوں نے اپنے اِس مقالے میں ’ مسافرانِ شبلی ‘ کا ذکر صراحت کے ساتھ ، اور ایک مخصوص پس منظر میں کیا ہے ۔ مقالات کا یہ سلسلہ علامہ شبلی نعمانی کی کتابَ زندگی کے بکھرے ہوئے گوشوں کو جمع کرنے کی ایک کوشش ہے ، اس سلسلے کی اب تک کی تینوں جلدوں میں علامہ کی خدمات و حیات کے کئی ایسے اچھوتے پہلوؤں کو ، الگ الگ مقالات کی صورت میں ، اجاگر کیا گیا ہے ، جو علامہ کی سیرت سے متعلق ضخیم کتابوں میں بھی پڑھنے کو نہیں ملتے ۔ اس جلد کے مضامین کو ۹ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، ابتدا میں ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کا ’ دیباچہ ‘ ہے ، جو اپنے آپ میں ایک مضمون ہی ہے ۔ ’ دیباچہ ‘ سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ شبلی کی خدمات اور حیات پر یہ ڈاکٹر صاحب کی تیسویں کتاب ہے ! یہ ایک کارنامہ ہی ہے ، بلکہ غیر معمولی کارنامہ ! ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ، ’’ کم علمی ، نامساعد حالات اور خراب صحت کے باوجود مطالعہ شبلی کے جس سلسلے کا ناچیز نے عزم کیا تھا اللہ کے فضل و کرم سے اسے بڑی مقبولیت بلکہ محبوبیت نصیب ہوئی ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’ بیانِ شبلی ‘ کا یہ حصہ اس سلسلہ کی تیسویں جلد ہے ۔ ‘‘ اور ابھی یہ سلسلہ رُکا نہیں ہے ، ’ دیباچہ ‘ ہی میں انہوں نے شبلی کے مداحوں کو ، یہ خوش کن خبر دے دی ہے کہ ، ’’ امید ہے یہ سلسلہ ابھی اور دراز ہوگا اور ابھی شبلیات کے مزید گوشے روشن ہوں گے ۔‘‘ اس ’دیباچہ ‘ سے کئی دلچسپ باتیں و حقائق سامنے آتے ہیں ، جیسے یہ کہ ،’’ تصانیف شبلی کے رد میں لکھی جانے والی کتابوں کی تعداد ۲۷ ہے ۔‘‘ اور یہ کہ ، ’’ علامہ شبلی کی علمی زندگی کا آغاز مناظروں اور مناظراتی تحریروں سے ہوا تھا ، اور انہوں نے اس سلسلے میں متعدد رسائل لکھے تھے ۔‘‘
اس جلد کے مضامین ، جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے ۹ حصوں میں تقسیم ہیں ۔ پہلا حصہ ’ نوادراتِ شبلی ‘ کے عنوان سے ہے ، اس حصہ میں ’ تین نادر تحریریں ‘ شامل ہیں ۔ ایک تحریر مولانا ظفر علی خاں کے روزنامہ ‘ زمیندار ‘ کے ’ پیمبر نمبر ‘ [ یکم مارچ ۱۹۱۲ء ] میں بعنوان ’ ایک مبسوط اور مستند سیرتِ نبویﷺ کی ضرورت ‘ شائع ہوئی تھی ، وہ ڈاکٹر صاحب کو ڈاکٹر زاہد منیر کی کتاب ’ دوکوزہ گر شبلی نعمانی اور زاہد علی خاں ‘ سے مل گئی ، اور انہوں نے اُسے اُن کے حوالے سے اس جلد میں شامل کرلیا ۔ اس مضمون میں سیرت نبویﷺ لکھے جانے میں جو مشکلات درپیش آ سکتی تھیں ان کا تذکرہ کیا گیا ہے ، ساتھ ہی ایک ایسے سچ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، جس کا مکمل ازالہ آج بھی نہیں کیا گیا ہے ، وہ ہے جرمن ، فرنچ اور انگریزی زبان میں لکھی سیرت نبوی ﷺ کی کتابوں کی غلط بیانیاں ۔ علامہ لکھتے ہیں ، ’’ ان تصنیفات نے اسلام کی نہایت بدنما تصویر کھینچی ہے ۔‘‘ علامہ کا یہ ماننا تھا کہ ، ’’ جب تک ان تصنیفات پر عبور نہ ہو اور ان کی غلطیوں اور اعتراضوں کا حفظ ماتقدم نہ کیا جائے ، سیرت نبوی ﷺ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے بہت کم مفید ہوگی ۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ علامہ نے سیرت کی اہمیت اور ضرورت پر ایک مضمون اور لکھا تھا جو ’ الندوہ ‘ میں شائع ہوا تھا ، اسے مولانا سیّد سلیمان ندوی نے ’ مقالاتِ شبلی ‘ جلد ہشتم میں شامل کر لیا تھا ، لیکن یہ لکھتے ہوئے ایک جگہ بجائے ’ الندوہ ‘ کے ڈاکٹر صاحب ’ الہلال ‘ لکھ گئے ، پروف کرتے ہوئے یقیناً اس پر دھیان نہیں گیا ہوگا ۔ دوسری نادر تحریر ’ حیات سعدی اور مولانا حالی ‘ کے عنوان سے ، اور تیسری تحریر ’ محمد عبدالقوی فانی ‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس حصہ میں ایک نادر خط ، دو نادر خطبات ، ایک نادر تقریر اور فارسی کی دو نادر غزلیں بھی شامل ہیں ۔ دوسرا حصہ ’ بیان شبلی ‘ کے عنوان سے ہے ، اس حصہ میں علامہ شبلی کی بعض تصانیف کے خلاصوں کا تعارف ، چند کتابوں اور رسالوں کا ذکر شامل ہے ۔ تیسرا حصہ ’ تصانیف شبلی اور ان کے جوابات ‘ دلچسپ ہے ، اس میں ان کتابوں کا تعارف کرایا گیا ہے ،جو شبلی کی کتابوں کے رد میں تحریرکی گئی تھیں ۔ شبلی کی مناظراتی تحریروں کا تعارف بھی اس حصہ میں آ گیا ہے ۔ مناظراتی رسالوں میں ایک رسالہ امام کے پیچھے ’ قرأت فاتحہ ‘ پر ہے ، علامہ نے دلیلیں دی ہیں کہ ’ امام کے پیچھے قرأت فاتحہ ‘ نہ صرف کہ واجب نہیں بلکہ مکروہ ہے ۔‘ اس رسالہ کے جواب میں پانچ کتابیں لکھی گئیں ۔ ایسے ہی مزید آٹھ کتابیں ہیں ، موضوعات مختلف ہیں ، ان کے بھی جواب لکھے گئے ہیں ۔ یہ حصہ دلچسپ بھی ہے اور معلوماتی بھی ۔ چوتھا حصہ ’ اثرات شبلی ‘ کے عنوان سے ہے ، یہ ڈاکٹر صاحب کی دوجِلدی کتاب ’ اثراتِ شبلی ‘ کی توسیع ہے ، اس میں ۹ ایسی شخصیات کا ذکر ہے ، جو شبلی سے متاثر تھیں ، پہلے نمبر پر پنڈت منوہر لال زتشی کا نام ہے ۔ اس حصہ میں مشفق خواجہ کا نام بھی ہے ، اور ان کی شبلی کے بارے میں ایک تحریربھی ۔ اس تحریر میں شبلی کی کردار کشی کے لیے مشفق خواجہ نے منشی امین زبیری کی اپنے مخصوص ڈھنگ سے ’ خبر لی ہے ‘۔ پانچواں حصہ ’ تحریک ندوہ میں علامہ شبلی کے سوا اعظم گزھ کا حصہ ‘ کے عنوان سے ہے ، اور چھٹا حصہ ’ برادرانِ شبلی ‘ کے عنوان سے ۔ یہ دونوں ہی حصے انتہائی معلوماتی ہیں ۔ پہلی بار کسی نے ندوہ تحریک میں اعظم گڑھ کے حصے کی کچھ تفصیل پیش کی ہے ، اور پہلی بار برادرانِ شبلی پر بھی ایک وقیع مقالہ نظر سے گزرا ہے ۔ ساتواں حصہ ’ مسافرانِ شبلی منزل ‘ میرے لیے بے حد دلچسپ تھا ۔ اس حصے کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کیسی کیسی عظیم شخصیات کو شبلی ، سیّد سلیمان ندوی اور شبلی منزل سے لگاؤ اور تعلق تھا ! عہدِ شبلی اور عہدِ سلیمان میں ۳۸ اہم شخصیات ’ شبلی منزل ‘ میں آئیں اور رُکیں ، اُن میں مذکورہ شخصیات کے علاوہ نواب محسن الملک ، مولانا سیّد عبدالحئی حسنی ، مولانا ابوالکلام آزاد ، شیخ عبدالفتاح ابو غدہ ، سرسیتا رام ، جگر مرادآبادی ، سرتیج بہادر سپرو ، فیروز گاندھی جیسی بڑی شخصیات شامل تھیں ۔ اس حصہ میں کئی اہم واقعات ہیں جو پڑھنے سےتعلق رکھتے ہیں ، اور جنہیں پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ پہلے کا ہندوستان آج کے ہندوستان سے کتنا مختلف تھا ۔ اگر کوئی ’ شبلی منزل ‘ آنے اور ٹھہرنے والی شخصیات کے اُن تاثرات ہر ، جو انہوں نے رجسٹر میں لکھے ہوں گے ، تحقیق کرے تو بڑی معلومات سامنے آ سکتی ہیں ۔ کتاب کا آخری حصہ ’ سخنورانِ شبلی ‘ کے عنوان سے ہے ، اس حصہ میں اردو فارسی کے اُن ۱۸ شعراء کا تذکرہ کیا گیا ہے ، جنہوں نے علامہ شبلی کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا ہے ۔
اس خوبصورت کتاب کا انتساب ڈاکٹر صاحب نے ’ ہماری زبان ، دہلی ‘ کے شریک مرتب محمد عارف خاں کے نام کیا ہے ۔ کتاب کی ایک خوبی ’ کتابیات ‘ ہے ، جس میں بڑی اہم کتابوں اور رسالوں کے نام مل جاتے ہیں ، اور یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تحقیق کے لیے مطالعہ کس قدر ضروری ہے ۔ ہمیشہ کی طرح مولانا محمد عرفات اعجاز اعظمی نے محنت سے ’ اشاریہ ‘ مرتب کیا ہے ۔ آخر میں شائستہ ریاض کا مرتب کردہ تین صفحہ پر پھیلا ہوا ’ تعارف مصنف ‘ ہے ، اس میں ڈاکٹر صاحب کے کوائف کے ساتھ کتابوں کی تفصیل بھی آ گئی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کو اس کتاب پر کی گئی محنت کے لیے سراہا جانا چاہیے ، اور اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے ۔ ’ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، نئی دہلی ‘ سے سفید مضبوط کاغذ پر شائع ، پختہ جلد والی یہ ۲۲۴ صفحات کی کتاب ۳۵۰ روپیہ میں حاصل کی جا سکتی ہے ۔ حصول کے لیے موبائل نمبر 9838573645 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔

You may also like