صدر شعبہ عربی و فارسی
الہ آباد یونیورسٹی
’گاندھی جی کی جان بچانے والے بطخ میاں انصاری ‘ در اصل ۲۸؍ صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ ہے جسے سید نصیر احمد نے تیلگو زبان میں لکھا تھا۔اتفاق سے محمد وزیر انصاری صاحب آئی پی ایس کی نگاہ اس کتابچہ پر پڑی۔انھوں نے اس کی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہوئے اس کا اردو ترجمہ کروانے کا ارادہ کیا۔الغرض ابو الفوزان نے اس تیلگو کتابچہ کا اردو ترجمہ کیا اور آزاد ہائوس پبلیکیشن نے اسے شائع کر دیا۔اس طرح دنیا نے بطخ میاں انصاری جیسی شخصیت کے بارے میں جانا۔اسی کتابچہ میں پیر مونس انصاری اور شیخ گلاب کا بھی ذکر آیا ہے۔ان تمام حضرات نے چمپارن کی ستیہ گرہ تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ اس کتابچہ کی اطلاع کے مطابق بطخ میاں انصاری نے تو ایک طرح سے گاندھی جی کو دوسری زندگی عطا کر دی۔زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ ہے مگر وہ اپنے برگزیدہ بندوں سے بعض اہم کام لے لیتا ہے۔ایسا ہی کچھ بطخ میاں انصاری کے ساتھ ہوا۔بخت میاں انصاری عرف بطخ میاں انصاری ۲۵؍جون ۱۸۶۹ءکو موضع سسواں اجگری موتیہاری ، بہار میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام محمد علی انصاری تھا۔۴؍دسمبر ۱۹۵۷ءکو کسمپرسی کے عالم میں آپ اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستانی عوام پر انگریزوں کے مظالم اپنے عروج پر تھے۔وہی انگریز جواتّر پردیش کے بنکروں کے ہنر کو تو تباہ کر چکے تھے اور اب بہار کے کاشتکاروں پر ان کے مظالم جاری تھے۔چمپارن میں نیل کی کاشت کا واقعہ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔شیخ گلاب انگریزوں کی اس ناانصافی کے خلاف میدان میں اتر آئے۔ان کو دیکھ کر دوسرے کسانوں نے بھی ہمت کی اور ان کا ساتھ دینے لگے۔اس وقت پیر محمد مونس انصاری بڑی دلیری سے اپنی صحافت کی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔چمپارن کے اطراف کے کاشتکاروں اور عوام کے مسائل کو اجاگر کرنا ان کا خاص مقصد تھا۔شیخ گلاب نے پیر محمد مونس اور راج کمار شکل کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ گاندھی جی کو چمپارن بلایا جائے تاکہ وہ یہاں کی حالت زار کا بچشم خود مشاہدہ کریں۔لہٰذاگاندھی جی ۳؍اپریل، ۱۹۱۷ء کو چمپارن تشریف لائے اور موتیہاری میں پیر مونس کے گھر جا کر ان کی والدہ سے ملاقات کی ۔اس واقعے کو اخبار پرتاپ نے اسی تاریخ کی اہم خبر بنا کر شائع بھی کیا ۔اس کتابچہ میں یہ بھی درج ہے کہ پیر مونس سائے کی طرح گاندھی جی کے ساتھ لگے رہے۔
چمپارن جسے راجہ جنک کا ملک کہا جاتا تھا،وہاں آم کے ساتھ نیل کی بھی کھیتی ہوتی تھی۔مگر ایک زبردست دشواری یہ تھی کہ کسان اپنی زمین کے بیس حصوں میں سے تین میں زمیندار کے لئے نیل کی کاشت کرتا تھا۔اسے ’تین کٹھیا ‘ کہتے تھے۔اس ناانصافی کی اطلاع گاندھی جی کو راج کمار شکل نامی کاشتکار نے دی جو خود اس ظلم کے شکار تھے۔اسی سلسلے میں راج کمار شکل نے اپنے وکیل دوست برج کشور پرساد کی ملاقات گاندھی جی سے لکھنؤ میں کرائی۔ برج کشور پرساد اس وقت بہار میں قومی فلاح و بہبود کے کاموں کے روح رواں جانے جاتے تھے۔۱۹۱۷ء کے شروع میں گاندھی جی کلکتہ گئے اور وہاں سے ان کا چمپارن جانے کا پروگرام بنا۔اس سے قبل ۱۹۱۵ء میں بھی گاندھی جی کلکتہ آئے تھے۔انھیں یہاں سے رنگون کا سفر کرنا تھا۔ذیل کی سطور میں گاندھی جی کی آپ بیتی ’تلاش حق ‘سے چند واقعات نقل کئے جا رہے ہیں تاکہ اس وقت کے ہندوستانی سماج کی ایک ہلکی سی جھلک آپ کے سامنے آ جائے جن حالات میں بطخ میاں انصاری نے اپنے مفاد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گاندھی جی کی جان بچائی ۔
رنگون کے سفر کے دوران گاندھی جی جہاز میں پھیلی گندگی کے بارے میں کچھ اس طرح لکھتے ہیں ؎
’رنگون جاتے وقت میں نے عرشے پر سفر کیا۔۔۔بے توجہی کا یہ عالم تھا کہ ہم لوگ روز مرہ کی ضرورت سے بھی محروم تھے۔غسل خانہ اس قدر میلا تھا کہ قدم رکھنے کو جی نہیں چاہتا تھا اور پاخانوں میں غلاظت کے انبار لگے تھے۔وہاں جاتے ہوئے گویا غلاظت کی دلدل میں سے گذرنا پڑتا تھا۔‘(تلاش حق )
۱۹۱۵ء میں ہی گاندھی جی کلکتہ سے ہردوار کمبھ میلے میں شرکت کی غرض سے گئے۔کلکتے سے ہردوار تک کے سفر کی داستان سے چند جملے ملاحظہ ہوں جو آج ایک صدی گذر جانے کے بعد بھی قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں :
’کلکتے سے ہردوار تک ریل کے سفر میں بیحد تکلیف ہوئی۔بعض جگہ ڈبوں میں روشنی تک نہ تھی۔سہارنپور سے ہم لوگ مال گاڑیوں میں اور مویشیوں کے ڈبوں میں بھر دئے گئے۔ان میں چھت نہیں تھی۔دوپہر کو ایک تو سورج کی گرمی دوسرے لوہے کے فرش کی تپش نے ہمیں بھون ڈالا۔لوگوں کا یہ حال تھا کہ اس مصیبت کے سفر میں پیاس سے تڑپتے تھے لیکن اگر کسی اسٹیشن پر ’مسلمان‘ پانی ملتا تھا تو نہیں پیتے تھے اور ’ہندو‘ پانی کے انتظار میں رہتے تھے۔یہ یاد رہے کہ یہی ہندو جب بیمار ہوتے ہیں تو ڈاکٹر کی تجویز سے بے تکلف اور بے پوچھے گچھے شراب یا گائے کے گوشت کی یخنی چڑھا جاتے ہیںاور مسلمان یا عیسائی کمپائونڈر کے ہاتھ کا پانی پی لیتے ہیں۔‘(تلاش حق)
۱۹۱۷ءکے شروع میں گاندھی جی راج کمار شکل کے ساتھ چمپارن کے لئے روانہ ہو گئے۔ریل گاڑی سے وہ پہلے پٹنہ پہنچے۔راج کمار شکل انھیں بابو راجندر پرساد کے گھر لے گئے۔راجندر بابو اس وقت پٹنہ میں نہیں تھے۔بنگلے میں ان کے دو تین نوکر موجود تھے۔جن کے سلوک کو لے کر گاندھی جی یوں رقم طراز ہیں :
’بہار میں چھوت چھات کا بڑا زور تھا۔راجندر بابو کے نوکر اس کے روادار نہیں تھے کہ جس وقت وہ کنویں کے پاس موجود ہوں ،میں پانی بھروں۔انھیں میری ذات معلوم نہیں تھی۔اس لئے احتیاط کرتے تھے کہ کہیں میرے ڈول کے چھینٹے ان کے جسم کو ناپاک نہ کر دیں۔مجھے قضائے حاجت کی ضرورت ہوئی ۔راج کمار نے مجھے اندر کا پاخانہ بتایا مگر ایک نوکر نے فوراً باہر کے پاخانے کی طرف اشارہ کیا۔میں ان باتوں کا عادی تھااس لئے نہ مجھے تعجب ہوا اور نہ برا لگا۔یہ لوگ اپنے خیال میں اپنا فرض ادا کر رہے تھے اور راجندر بابو کی منشاء کے مطابق عمل کر رہے تھے۔‘(تلاش حق)
پٹنہ میں اتنی پریشانی اٹھانے کے بعد گاندھی جی نے اپنی بیرسٹری کے زمانے کے لندن کے شناسہ مولانا مظہر الحق کو رقعہ بھج کر اطلاع دی کہ وہ چمپارن جانے کی غرض سے یہاں آئے ہوئے ہیں۔مولانا مظہر الحق اپنی موٹر کار لے کر حاضر ہو گئے اور اپنے گھر چلنے کا اصرار کرنے لگے۔مگر گاندھی جی نے ان سے کہا کہ جو سب سے پہلی گاڑی چمپارن جاتی ہو اس میں بٹھا دیں۔اس طرح وہ۱۵؍اپریل ۱۹۱۷ء کوچمپارن پہنچ گئے۔ان کے ساتھ بابو راجندر پرساد بھی تھے۔ان کا مقصد تھا کہ وہ کسانوں سے مل کر یہ معلوم کریں کہ ان کو نیل کی کوٹھی والوں سے کیا شکایتیں ہیں۔چمپارن ترہٹ کا ایک ضلع ہوتاتھا اور اس کا صدر مقام موتیہاری تھا۔راج کمار شکل بیتیا میں رہتے تھے اور ان اطراف میں کاشتکاروں کی حالت زیادہ خراب تھی۔ان دنوں نیل کی کاشت کا مینیجر ارون تھا۔اس نے گاندھی جی اور بابو راجندر پرساد کو اپنے گھر دعوت دی۔بطخ میاں انصاری اس کے خانساماں تھے۔ارون نے ان سے کہا کہ وہ گاندھی جی کے دودھ کے گلاس میں زہر ملا دیں۔ بطخ میاں نے مالک کے حکم کی تعمیل کی مگر گاندھی جی کو دودھ کا گلاس تھمایا تو انھیں آگاہ کر دیا کہ دودھ میں زہر ملا ہوا ہے۔ظاہر ہے گاندھی جی نے اس دودھ کو نہیں پیا اور ان کی جان بچ گئی۔اس کی پاداش میں بطخ میاں پر ظلم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ان کی پانچ بیگھہ اور بارہ کٹھہ زمین اور سات بھیسیں ضبط کر لی گئیں۔کپڑے کی دوکان تباہ کر دی گئی ۔رہائشی مکان زمین بوس کر دیا گیا۔دفعہ ۱۸۸؍کے تحت ایک ماہ کی سزا ہوئی۔ڈاکٹر راجندر پرساد کے مطابق انھیں تین مرتبہ جیل ہوئی۔ڈاکٹر راجندر پرساد ۱۹۵۰ء میں صدر جمہوریہ بنے تو موتیہاری آئے۔لوگوں کا ہجوم ان سے ملاقات کرنے امنڈ پڑا۔اتنی بھیڑ میں ایک کنارے میلے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص کو انھوں نے پہچان لیا اور انھیں بلا کر گلے لگا لیا ۔یہ بطخ میاں انصاری تھے۔بابو راجندر پرساد ۱۹۶۲ء تک صدر جمہوریہ رہے۔بطخ میاں کے انتقال کے بعد انھوں نے ان کے بچوں کو بلا کر ان کے ساتھ تصویر کھنچوائی۔۲۷؍ نومبر ۱۹۶۲ءکو بطخ میاں کے بیٹے کو بلا کر سند تفویض کی۔گویا ۱۹۱۷ء میں رونما ہوئے واقعے کو ڈاکٹر راجندر پرساد نے یاد رکھا۔شکیل استھانوی، اعجاز اشرف اور پروفیسر عزیز الدین وغیرہ نے بطخ میاں کے پوتوں کو تلاش کرکے ان سے گفتگو کی۔جس کی تفصیل ان کے مضامین میں دستیاب ہے۔ان کے مطابق بطخ میاں انصاری کے تین بیٹے تھے۔شیر محمد انصاری ، راشد انصاری اور محمد جان انصاری۔محمد جان انصاری سب سے چھوٹے تھے ۔ان کے چھ بیٹے تھے۔جن میں سے دو علاء الدین انصاری اور کلام انصاری سے ان لوگوں نے گفتگو کی اور یہ معلوم ہوا کہ بابو راجندر پرساد نے اس خاندان کو پچاس بیگھہ زمین بطور انعام دینے کی سفارش کی تھی مگر زمام داران حکومت نے آج تک اس پر عمل در آمد نہیں کیا۔۲۰۱۷ء میں چمپارن ستیاگرہ کا صدی جشن منایا گیا تو مقامی لوگوں نے بطخ میاں انصاری کے نام پر خاص اہتمام کی اپیل کی ۔صدائے انصاری کے مدیر اطہر حسین کے مطابق ایک گیٹ بطخ میاں کے نام پر تعمیر کیا گیا ہے ۔بیتیا میں ان کی قبر بھی محفوظ ہے۔ان کی جاں فشانی کی اس داستان کو تحریر میں لا کر عوام کے سامنے پیش کرنے کی کاوش بھی اسی لئے ہو رہی ہے کہ لوگ ان کے اس عظیم کارنامے سے واقف ہو سکیں۔
ایک بات جو بطخ میاں انصاری کے معاملے میں بہت حیران کرتی ہے وہ یہ ہے کہ گاندھی جی نے کبھی اور کہیں اس اہم واقعے کا ذکر نہیں کیاجو ان کی زندگی اور موت کے درمیان لکیر کھینچ گیا۔کلکتہ ، ہری دوار اور چمپارن کے سفر کے تعلق سے جن واقعات کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ہر چھوٹی بڑی سفر کی تکلیف ، جہاں گئے وہاں کے باشندوں کے عادات و اطوار پر نگاہ رکھی اور اپنی کتاب میں باقاعدہ انھیں درج کیا۔مولانا مظہر الحق اور ان کی رفاقت کا ذکر وہ کرتے ہیں مگر جان بچانے والے مسیحا کا ذکر نہیں کرتے۔ راج کمار شکل کا ذکر کرتے ہیں جن کی سادگی اور بے وقوفی کے سبب انھیں اکثر مشکلیں پیش آئیں مگر جس نے زہر ہلاہل آپ کے گلے سے نیچے نہ اترنے دیا اس کے لئے اتنی خاموشی کیوں؟