Home نقدوتبصرہ باتیں شعاعِ انجم کی

باتیں شعاعِ انجم کی

by قندیل

عطا عابدی
شاعری دل کی آواز ہوتی ہے۔ایک ایسی آواز جس کا رشتہ ذاتی احوال کے ساتھ ساتھ اجتماعی معاملات موضوعات سے ہوتا ہے۔ ذاتی احوال کی آواز کا محرک رنج وغم بھی ہوتا ہے اور عشق و نشاط بھی ہے۔ اس طرح اجتماعی موضوعات ومسائل کے تحت تبصرہ و احتجاج کی فضا ملتی ہے تو کبھی تقلید وتردید کے حوالے بھی روشن ہوتے ہیں۔ کبھی زخم درد واہ کا سبب قرار پاتا ہے اور مرہم طلب ضرورت سامنے لاتا ہے تو کبھی یہی زخم مسکرانے کی ادا بھی رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر شاعروں کے یہاں جہاں درد کی جلوہ گری ہوتی وہیں سماج ومعاشرہ کا رویہ اور اس پر اس کا ردعمل بھی ملتا ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ الگ الگ شاعر کے الگ مزاج وافکار کے سبب الگ الگ رنگ و کیفیت کی تصویریں سامنے آتی ہیں ۔ کسی کے یہاں ذات کا غم،کائنات کے غم سے ہم آہنگ ہے تو کہیں ان کے درمیان حد فاصل کی لکیریں نمایاں ہیں کہیں خواب وخیال کی خوبصورت دنیا ہے تو کہیں زندگی کی تلخ حقیقتیں دل کے مدوجزرکی سمت رفتار طےکر رہی ہوتی ہیں۔ کہیں ذات و کائنات کے درمیان تطابق وتوازن کی قدریں متوجہ ومتاثر کرتی ہیں تو کہیں ان قدروں سے مستعار انصرام اور قدرےانحراف کا عمل بھی ملتا ہے۔
جہاں تک شعاع انجم کی غزلوں کا تعلق ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل سے دل تک کے سفر کا درپیش مرحلہ زبان پا گیا۔یہ غزلیں ابتدا تا اخیر غزل کے لغوی معنی کے اہتمام والتزام سے عبارت ہیں۔ محبوب یا معشوق سے گفتگو غزل کی روایت کا مقبول ومحبوب حصہ رہی ہے ۔ فریدہ انجم کے نزدیک غزل کی یہ روایت بہت محبوب ہے اور قابل تقلید بھی ہے۔ اس کے نزدیک غزل غم دل اور حدیث جاناں کے اظہار کا وسیلہ ہے، لہزااکثر غزلیں ایسی تعلق سے سامنے آتی ہیں کہ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ شعاع انجم کی شاعری صدائے دل کی شاعرہ ہیں۔یہ صدائے اس غم کی پروردہ ہے جو جزبوں اور لفظوں کے سہارے اپنے مخاطبت کے دل کو سمجھنے اور سمجھانے کا مخاطبت ہوتا ہے۔ خوبصورت تمناؤں کے حوالے سے مطلوب سے مخاطبت کا انداز جہاں زندگی کی امنگوں یا نشاطیہ جزبوں کا آئینہ دار ہے وہی الطاف وجمال کے شعور کی کیفیت کا اظہار بھی کرتا ہے ۔جزبئہ عشق کے روایتی اور قدیم وتیرے سے انسلاک کے بعض پہلو شاعرہ کے تصور و عمل کے درمیان اشتراک کی نوید کے طور پر سامنے آتے ہیں۔متعدد اشعار کے زریعہ کسی کی التفات کے سبب زندگی کے حسین ہونے کا اعتراف کرنا اور الفت کے عمل کو عبادت سمجھنا دل کی اس کیفیت کا اشارہ کرتا ہے۔جس کے آگے دیگر چیزیں ثانوی ہو جاتی ہیں_
بعض مقامات پر اظہار غم سے گریز اور آنکھوں کی زبان سمجھنے پر اصرار کے معاملات شاعرہ کے نسوانی اطوار کا مشرقی استعار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ اطوار آگے چل کر اظہار بیگانگی یعنی نیم بے نیازی کی صورت میں بھی سامنے آتے ہیں۔ کہیں کہیں سانس کی بے اعتباری کا احساس اور انتظار کے حوالے تجربہ و مشاہدہ کی صورت ملتی ہیں ـ
غرض "شعاعِ انجم” معشوق سے گفتگو کی محفل کا وہ منظر نامہ ہے جہاں کہیں "وہ” کا تخاطبت اور کہیں "وہ”کو ” تم” سے تخاطب کرنا اور کہیں ” تم” کا "آپ” ہو جانا دراصل مختلف حالات میں مختلف جذبوں اور رویوں کی پرداخت اور پردہ داری شعاع انجم کی شاعرہ کی شاعری حیات شاعری کی عمر نسبتا مقصود کے ابتدائی ادوار سے متعلق ہونے کے سبب فکر و فن کی وسعت و بلندی کے حوالے بہت روشن نہیں تو مایوس کن بھی نہیں ہیں ۔زندگی کے ابتدائی مراحل میں مختلف آزمائشوں کے باوجود ہراساں و پریشاں ہونے کے بجائے مخصوص غزلیہ شاعری رویوں کو اپنانا اور زہنی ہم آہنگی پیدا کرنا سخت مشکل امر ہے۔جو یہاں نظر آتا ہے۔شاعرہ کے یہاں جذبوں کی جو کیفیت ہے اور اس کیفیت کو بیان کرنے کی جو کوشش ہے یا جدوجہد ہے اس سے توقع پیدا ہوتی ہے کہ ان کے افکار کئی وسعتوں کے حامل ہوں گے، موضوعات کی مختلف جہتیں روشن ہوں گی۔اور فن کے پیمانے مزید مستحکم ہوں گے ۔یعنی شاعرہ کا تابناک مستقبل یقینی نظر آتا ہے ۔ہمارے اس یقین کا بہت کچھ دارومدار قارئین کی پزیرائی اور حوصلہ افزائی پر بھی ہےـ

You may also like

Leave a Comment