کیوں ایسا ہوا کہ عقائد وایمان کی اصلاح اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے تو شیخ احمد فاروقی سرہندی، شاہ ولی اللہ دہلوی، سید احمد رائے بریلوی، اسماعیل دہلوی،احمد رضا خان بریلوی، اشرف علی تھانوی اور ابوالاعلی مودودی جیسے عبقری پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے اپنے فہم کے مطابق اسلام کی تشریح وتوضیح اور ترسیل وتبلیغ میں تن من دھن کی بازی لگا دی اور اسلامی وحدت ومسلم اتحاد کے کلیجہ میں اپنے مکاتب فکر کے رنگ برنگے جھنڈے گاڑ دیے لیکن کسی ایسی تحریک کا نام ونشان نہیں ملتا جس کے منشور میں اونچ نیچ، چھوا چھوت اور مسلم طبقہ میں ذات برادری کے نام پر پائی جانے والی نا برابری کا خاتمہ اور عملی مساوات شامل ہو. اس کے بر عکس "بڑی ذات” کے مسلمانوں نے اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لیے کم تر قرار دی گئی "بد ذات” برادری کے مسلمانوں کو اپنے وجود پر ہمیشہ شرمسار رکھا اور ذلت آمیز زندگی کو ان کی تقدیر کا نتیجہ قرار دینے کی ہر طرح سے قولی وعملی تدبیر کی. نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی غالب ترین آبادی, "بد ذات اکثریت” خدا داد صلاحیتوں کے نکھار اور استعمال سے محروم رکھی گئی۔ انگریزوں کے زمانے میں, یا جب تک "بڑی ذات” والوں کی مرضی چلتی رہی, "نچلی ذات” کے لوگ ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہو سکے. بعد کے زمانے کچھ بھلا ہوا ہے تو اس میں جمہوریت کی برکات اور حکومتی پالیسیوں کا دخل ہے, تا ہم وہ کل بھی اچھوت تھے اور آج بھی اچھوت ہیں. آج بھی کمیں ہیں اور کل بھی کمیں ہی رہیں گے۔ اگر کسی کو شک ہے تو پڑوسی ملک کے "کمیں” کلمہ گو مسلمانوں کے ساتھ وہاں کے "مخدوموں/سیدوں” اور چوہدریوں کا برتاؤ معلوم کر لے, تسلی ہو جائے گی۔
اس سے بڑا جھوٹ کوئی ہو ہی نہیں سکتا کہ مسلمان ایک ایسی قوم ہے جس میں ذات پات کا تصور نہیں ہے اور یہ کہنا کہ اسلام ذات پات کی اجازت نہیں دیتا اس سے بھی بڑا جھوٹ اور مغالطہ ہے. البتہ یہ بات درست ہے کہ اسلام ذات پات کی بنیاد پر بھید بھاؤ اور امتیازی سلوک کا قائل نہیں ہے۔ اس کے نزدیک افضلیت کا معیار اعلی انسانی شرافت (تقوی) ہے, لیکن افسوس یہ ہے کہ مسلمانوں نے پہاڑہ الٹا پڑھ لیا۔ ذات پات کا انکار کیا, بھید بھاؤ کو گلے لگا لیا اور نسلی امتیاز کو جی بھر کے فروغ دیا. مسجد میں نماز کے لیے بلا امتیاز ایک صف میں کھڑا ہونے پر مسلمان فخر کرتے ہیں اور اسے اسلامی مساوات کے نمونہ کے طور بیان کرتے ہیں. انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ان کی مجبوری ہے, وہ ایسی ریڈ لائن جسے وہ عبور نہیں کر سکتے۔ مسجد کے باہر جہاں جہاں وہ اپنی ذات دکھا سکتے ہیں دکھا دیتے ہیں اور "بد ذاتوں” کی اوقات بتا سکتے ہیں بتا دیتے ہیں۔
ہندوستانی مسلمانوں کی بدنصیبی ہے کہ ان میں گولوالکر, ساورکر, مونجے, لاجپت رائے, مالویہ اور شیاما پرساد مکھرجی جیسے لوگوں کی لمبی فہرست ہے لیکن کوئی راجا رام موہن رائے, جیوتی با پھولے اور امبیڈکر پیدا نہیں ہو سکا۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیر اور نیلسن منڈیلا نے گاندھی کے فلسفہ کو عمل میں لا کر اپنی قوم کے لیے عظیم خدمات انجام دیں،لیکن ہندوستانی مسلمانوں کو گاندھی نہیں "آندھی” چاہیے۔ دو ٹکے کے موقع پرست سیاسی لیڈران انتخابات کے وقت برساتی مینڈک کی طرح نمودار ہوتے ہیں, ٹرٹر کر کے آتش بیانی کے جوہر دکھاتے ہیں، کسی کا کام بنا دیتے ہیں اور کسی کا کھیل بگاڑ دیتے ہیں، اپنا الو سیدھا کر کے رفو چکر ہو جاتے ہیں اور قوم انہیں اپنا قائد مانتے ہوئے آنکھ بند کیے نعرے لگاتی رہ جاتی ہے اور پھر اگلا الکشن آ جاتا ہے، مسلمانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ قیادت موسمی بخار نہیں ہے, روز مرہ کا کار و بار ہے۔
مسلمانوں کے اندر امبیڈکر وادی سیاسی تحریک کا ہوا کھڑا کرنے والے "سوورن” مسلم قائدین "بد ذات” مسلمانوں کی طرح نچلی ذات کے ہندووں کو بھی احمق سمجھتے ہیں. وہ سوچتے ہیں کہ دبے کچلے ہندو انہیں اپنا مسیحا مان لیں گے۔ جوگندر ناتھ منڈل بھی نچلی ذات کا ہندو ہی تھا, مسلم لیگ اور جناح کے ساتھ غیر مشروط وفاداری کے باوجود اسے پاکستان سے ذلیل ہو کر کیوں بھاگنا پڑا, اور پھر اسے بھارت ہی میں پناہ ملی, یہ کسے معلوم نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مساوات کے تمام تر دعووں کے باوجود مسلم سماج میں امتیازی سلوک اور اونچ نیچ ایسا رچ بس گیا ہے کہ گویا مسلمانوں کی فطرت کا حصہ بن چکا ہے اور وہ اس سے آزاد ہونا بھی نہیں چاہتے ہیں. سید زادوں،خانقاہیوں، درگاہیوں اور مولویوں کی قدم بوسی میں ان کے دین ودنیا کی فلاح مضمر ہے. یہ سماجی رویہ عقیدہ کی شکل اختیار کر چکا ہے اور ایمان کا حصہ شمار ہوتا ہے جس سے وہ کسی حال میں دست بردار نہیں ہو سکتے تو بھلا یہ امبیڈکروادی مسلم "سوورن” سیاسی رہنما کس کھیت کی مولی ہیں کہ ان کے بہکاوے میں نچلی ذات کے ہندووں کا بڑا طبقہ اپنے "نجات دہندہ براہمن” کو چھوڑ کر ان کے ساتھ آ جائے گا۔
کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان مظلوم ہیں اور ان کے خلاف مسلسل سازشیں ہوتی رہتی ہیں. ناچیز کا خیال بھی ایسا ہی ہے. ہندوستان کا پہلا مقامی بندہ جس دن مسلمان ہوا ہوگا, اونچ نیچ اور امتیازی سلوک اسی دن شروع ہو گیا ہوگا جو تا حال جاری ہے اور سیاسی سازش بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ہوئی تھی جس نے 1947 میں ہلاکت خیز زلزلہ کی شکل اختیار کر لی, جس کے جھٹکے آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں اور بہت دیر تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔
ایک شکوہ مسلم قیادت کے فقدان کا بھی ہے. آئے دن سننے اور پڑھنے میں آتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان مخلص قيادت سے محروم ہیں. جبکہ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو قیادت کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے گا کہ کیا ہندوستانی مسلمان اس بات کے اہل ہیں کہ انہیں قیادت فراہم کی جائے. جواب یہ ہے کہ; نہیں. ابوالکلام آزاد کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر بڑے بڑے مضامین لکھے جاتے ہیں اور لمبی لمبی تقریریں جھاڑی جاتی ہیں. ایسے موقعوں پر جی چاہتا ہے کہ لکھنے والوں کے قلم چھین لیے جائیں اور مقررین کے ہونٹ سل دیے جائیں. ایسا خیال کیوں نہ آئے کہ ہم انہیں بے توفیق اور نا شکرے اسلاف کے نمائندہ ہیں جنہیں خدا نے داڑھی ٹوپی شروانی پاجامہ والے آزاد کی شکل میں ایک قائد دیا تھا جس کی اردو زبان ان کی سمجھ میں نہ آئی لیکن پینٹ کوٹ ٹائی سگار والے جناح کی انگریزی سمجھ میں آ گئی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)