بہت پہلے جب مشتاق اعظمی ممبئی آئے تھے ، شہر میں اردو زبان و ادب کی کتابوں کے تاریخی مرکز ’ مکتبہ جامعہ ‘ میں میری اُن سے ایک ملاقات ہوئی تھی ۔ ملاقات رسمی تھی لیکن میں انہیں بھول نہیں سکا ، اس کی سب سے بڑی وجہ کتابوں سے اُن کا عشق ہے ، اُس روز ان کے سامنے کتابوں کا ڈھیر لگا تھا ، اور وہ اپنی پسند کی کتابیں ایک جانب رکھتے جا رہے تھے ۔ اچھی کتابیں ان کے لیے روحانی غذا ہیں ، اور اس غذا کو حاصل کرنے کے لیے وہ مضطرب رہا کرتے ہیں ۔ ’ مکتبہ جامعہ ‘ کے نوجوان انچارج عالمگیر کے مطابق مشتاق اعظمی صاحب اُن شخصیات میں سے ہیں جن سے انہیں اکثر نئی کتابوں کی اطلاع ملتی ہے ، اور ان کےکہنے پر وہ کتابیں منگوائی اور انہیں بھیجی جاتی ہیں ۔ مشتاق اعظمی کی پیدائش ہے تو اعظم گڑھ کی لیکن وہ رہتے ہیں مغربی بنگال کے آسنسول میں ۔ درس و تدریس کے معزز پیشہ سے وظیفہ یاب ہونے سے قبل وہ ٹی ڈی بی کالج رانی گنج میں ریڈر اور شعبۂ اردو کے صدر تھے ۔ آج مشتاق اعظمی اپنی نئی کتاب ’ بارے شوکت کا کچھ بیاں ہو جائے ‘ کے لیے یاد آ گئے ، یہ کتاب پڑھ کر کچھ پہلے ہی مکمل کی ہے ۔ یہ مشتاق اعظمی کی نویں کتاب ہے ، اس سے پہلے ان کے دو افسانوی مجموعے ’ آدھا آدمی ‘ اور ’ نارسیدہ ‘ ، بچوں کے لیے دو کتابیں ’ کھلونا اور دوسری کہانیاں ‘ اور ’ کنکر منتر ‘ شائع ہو چکی ہیں ۔ چار کتابیں مزید ہیں ’ تاریخ پارے ‘ ، ’ بیدی میرا ہمدم میرا دوست ‘ اور ’ قطرے لہو کے ‘۔ ان میں سے بیدی والی کتاب اوپیندر ناتھ اشک کی تحریرکردہ ہے ، اعظمی صاحب نے اسے ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے ، اور ’ قطرے لہو کے ‘ آسنسول کے چار شاعروں کے تذکرے اور ان کے منتخب کلام پر مشتمل ہے ۔ ان کے مضامین کا مجموعہ ’ اشارات و ارشادات ‘ کے عنوان سے اور افسانوں کا مجموعہ ’ یہ دھواں ‘ کے عنوان سے زیرِ اشاعت ہیں ۔
کتاب ’ بارے شوکت کا کچھ بیاں ہو جائے ‘ اپنے دور کے معروف طنز و مزاح نگار شوکت تھانوی کو مشتاق اعظمی کا خراجِ عقیدت بھی ہے ، اور ان کی ادبی خدمات کو نئی نسل میں متعارف کرانے کی ایک کوشش بھی ۔ ’ بقلم خود ‘ کے عنوان سے مشتاق اعظمی نے کتاب کا تعارف تو کروایا ہی ہے ، داستانوں ، سوداؔ کی شاعری ، مرزا غالبؔ کی شاعری اور خطوط ، نذیر احمد کے ناول ’ توبتہ النصوح ‘ کے کردار مرزا ظاہردار بیگ ، اودھ پنچ ، اس کے مدیرمنشی سجاد حسین ، رتن ناتھ سرشارؔ ، اودھ پنچ کے قلم کاروں ، اور رشید احمد صدیقی ، کنہیا لال کپور ، فکر تونسوی اور کرشن چندر وغیرہ کے حوالے سے طنز و مزاح کی روایت پر بھی سنجیدہ بات کی ہے ۔ مرتب کتاب ( مشتاق اعظمی نے مرتب کےبجائے ’ انتخاب و تشکیل ‘ لکھا ہے ) نے شوکت تھانوی کا بھرپور تعارف کرایا ہے ۔ عام طور پر لوگ شوکت تھانوی کو ایک مزاح نگار کے طور پر جانتے ہیں ، لیکن مرتب نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ’’ شوکت تھانوی ایک بلند پایہ مزاح نگار ، اخبار نویس ، ادیب اور شاعر تھے ۔‘‘ انہوں نے کئی انکشافات کیے ہیں ، مثلاً یہ کہ ’’ وہ میٹرک کے امتحان میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے تھے ‘‘ ، ’’ ان کی تعلیم کے سلسلے میں یہ رایے مشہور ہے کہ وہ سند یافتہ طالب علم نہیں تھے لیکن قدرت نے انہیں بلا کی ذہانت عطا کی تھی ‘‘ ، ’’ انگریزی ، فارسی اور اردو زبان میں انہیں مہارت حاصل تھی ، وہ انگریزی اخبارات کی خبروں کا بہترین ترجمہ کرلیا کرتے تھے ۔‘‘ مشتاق اعظمی نے شوکت تھانوی اور معروف ادیب نسیم انہونوی کی دوستی کا ذکر کرتے ہوئے ان کے ذریعے ’’ ناول لکھنے کے عجیب و غریب سلسلہ شروع ‘‘ کرنے کی بات کی ہے ، ایسے ناول جن پر ’’ پبلشر کا نام نہیں ہوتا تھا ۔ نوجوان نسل عموماً ( لڑکے اور لڑکیاں ) ان ناولوں پر کاغذ کا غلاف چڑھا کر تنہائی میں پڑھتے تھے اور اپنے شہوانی جذبات کی تسکین کرتے تھے ۔ بوڑھے ان ناولوں کو معجون شباب آور جان کر پڑھتے تھے ۔‘‘ یہ ناول کبھی خوب پڑھے جاتے تھے ، ان کے مصنف کے طور پر جو نام چھپا ہوتا تھا وہ مجھے پتہ ہے لیکن چونکہ مشتاق اعظمی نے اسے پوشیدہ رکھا ہے ( نہ جانے کیوں ! ) اس لیے میں بھی اسے عیاں نہیں کروں گا ، لیکن اتنا کہنا ہے کہ اس نام سے جو ناول لکھے گئے اُن کے لکھنے والوں میں شوکت تھانوی اور نسیم انہونوی کے علاوہ مزید اہم ادیبوں کے نام بھی لیے جاتے ہیں ۔ ’ بقلم خود ‘ میں مشتاق اعظمی نے ایک دلچسپ واقعہ شوکت تھانوی کے ابتدائی دنوں کا ، اُن کی کتاب ’ مابدولت ‘ کے حوالے سے نقل کیا ہے ، یہ واقعہ مرحوم مزاج نگار کی زبان و بیان پر قدرت کا ایک ثبوت ہے ۔ ملاحظہ کریں ؛ ’’ میری ایک غزل چھپ گئی ، کچھ نہ پوچھیے میری خوشی کا عالم ، میں نے وہ رسالہ کھول کر ایک میز پر رکھ دیا تھا کہ ہر آنے جانے والے کی نظر اس غزل پر پڑسکے مگر شامت اعمال کہ سب سے پہلی نظر والد صاحب کی پڑی ، انہوں نے یہ غزل پڑھتے ہی ایسا شور مچایا کہ گویا چور پکڑ لیا ہو ، والدہ محترمہ کو بلا کر کہا : آپ کے صاحب زادے فرماتے ہیں کہ ؎
ہمیشہ غیر کی عزت تری محفل میں ہوتی ہے
ترے کوچے میں ہم جا کر ذلیل و خوار ہوتے ہیں
میں پوچھتا ہوں کہ یہ جاتے ہی کیوں ہیں ، کس سے پوچھ کر جاتے ہیں ۔ والدہ بے چارہ سہم کر رہ گئیں اور خوف زدہ آواز میں کہا :غلطی سے چلا گیا ہو گا۔‘ ‘‘
شوکت تھانوی نے جو کچھ سیکھا محنت سے سیکھا ۔ خود لکھتے ہیں کہ ان کی پوری کی پوری تحریر ابتداء میں قلم زد ہو جاتی تھی ، لیکن ان کے ماتھے پر شکن نہیں آتی تھی ۔ مدیر سے انہوں نے سیکھا کہ نقطۂ نگاہ اور زاویۂ نگاہ میں کیا فرق ہے ! آج کے نئے صحافی یوں ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ سب سیکھے ہوئے ہیں ، اور ان کی تحریر کو دیکھنے تک کی ضرورت نہیں ہے ، اسی لیے اب کوئی شوکت تھانوی نہیں پیدا ہوتا ۔ شوکت تھانوی نے لکھنئؤ سے لے کر کراچی تک علم و ادب کے بڑے کام کیے ہیں ۔ مشتاق اعظمی نے اس کتاب میں ان کی حیات اور خدمات کو آٹھ بڑے ادیبوں عبدالماجد دریابادی ، قدرت الله شہاب ، قرۃالعین حیدر ، حفیظ جالندھری ، فیض احمد فیض ، کنہیا لال کپور ، خاتون ارشد اور رشید عمر تھانوی کی تحریروں کے ذریعے پیش کیا ہے ۔ ان میں سے آخر کے دو نام بالترتیب شوکت تھانوی کی بہن اور بیٹے کے ہیں ۔ یہ مضامین شوکت تھانوی کی زندگی کے تقریباً ہر گوشے پر ، بشمول ادب ، روشنی ڈالتے ہیں اور ان کی شخصیت اور ان کے کام کو پڑھنے والوں کے سامنے اس طرح لاتے ہیں کہ ان کی عظمت کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔ مشتاق اعظمی نے بہت ساری کتابوں و رسالوں سے مضامین کا شاندار انتخاب کیا ہے ۔ اس کتاب میں شوکت تھانوی کی ایک مکمل کتاب ’ قاعدہ بے قاعدہ ‘ بھی شامل ہے ۔ اس میں ’ الف ‘ سے لے کر ’ یے ‘ تک یعنی حروف تہجی کے لحاظ سے اُس وقت کے معروف ادیبوں کے گدگداتے تذکرے ہیں ، ’ شین ‘ میں شوکت تھانوی نے اپنا خود کا دلچسپ تذکرہ تحریر کیا ہے ۔ متفرقات کے تحت شوکت تھانوی کی چھ تحریریں شامل ہیں جو ان کے مضامین کے تنوع اور رنگارنگی کو سامنے لاتے ہیں ۔ ’ کچھ یادیں کچھ باتیں ‘ کے عنوان سے شوکت تھانوی کی خودنوشت بھی شامل ہے اور آخری کے تین صفحات میں ’ میری سرگزشت ‘ کے عنوان سے ایک ریڈیائی تقریر بھی ۔ نسیم انہونوی نے ۱۹۳۴ء میں لکھنؤ سے ’ شباب ‘ کے نام سے ایک ادبی جریدے کا اجرا کیا تھا ، اس کے سرورق پر ایڈیٹر کی حیثیت سے شوکت تھانوی کا نام ہوا کرتا تھا ، اس جریدے کے ایک شمارے کا عکس یادگار کے طور پر اس کتاب میں شامل ہے ۔ شوکت تھانوی کی اب صرف یادیں ہیں ؛ مشتاق اعظمی نے صحیح لکھا ہے کہ ’’ بے شک وہ رات ( ۴، مئی ۱۹۶۳ ) محمد عمر ( تھانوی صاحب کا اصلی نام) کے جسد کو لے گئی مگر شوکت تو اپنی فکر وفن کی شان کے ساتھ اب بھی ظرافت میں سانسیں لے رہے ہیں اور مستزاد کہ یہ ظرافت تو آج دوسروں کے لیے بھی ایک آکسیجن کا کام کر رہی ہے ۔‘‘
مشتاق اعظمی کی یہ کتاب لوگوں کو ضرور پڑھنا چاہیے ۔ ۲۵۶صفحات کی اس کتاب کی قیمت صرف دوسو روپیہ ہے ۔ اسے موبائل فون 9123620415 پر رابطہ کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ ممبئی میں اسے کتاب دار ( موبائل : 9869321477 ) اور مکتبہ جامعہ ( موبائل : 8108307322 ) سے لیا جا سکت ہے ۔ کتاب کا انتساب مشتاق اعظمی نے والدین کے نام کیا ہے۔
بارے شوکت کا کچھ بیاں ہو جائے – شکیل رشید
previous post