کوئی بھی عوامی تحریک یک سُری یا مکمل نظم و ضبط کی پابند نہیں ہوتی اور اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ وہ جیتے جاگتے انسانوں کی جدوجہد سے عبارت ہوتی ہے؛ وہ انسان جس کا چہرہ ایک نہیں، رنگ ایک نہیں، پس منظر ایک نہیں، معاشی حالات ایک نہیں، تعلیمی و فکری سطح ایک نہیں، جذبات ایک سے نہیں، قوت برداشت مساوی نہیں، نفسیات ایک نہیں اور نہ ہی ان کا ردعمل یکساں ہوتا ہے تو پھر آپ اس سے یہ کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ مقصد ایک ہونے کے باوجود اس کا طریقہ کار بھی یکساں ہو؟ مثلاً تحریک آزادی کو ہی لے لیں، یہاں بھی ‘نرم دَل’ اور ‘گرم دَل’ موجود تھے۔ آزادی کی داستان میں صرف گاندھی، نہرو، پٹیل اور مولانا آزاد وغیرہ جیسے مدبر کردار ہی نہیں ہیں، بلکہ اس میں سبھاش چندر بوس، چندر شیکھر آزاد اور بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو جیسے سرفروش بھی شامل ہیں جو انگریز سرکار کے نزدیک باغی،غنڈے اور تخریب کار تھے لیکن ہمارے لیے وہ گاندھی اور نہرو کی طرح ہیرو ہیں۔اسی طرح کیا آپ پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ 1974 میں اندراگاندھی کی سرکار کے خلاف طلبا تحریک بھی پوری طرح منظم اور یک سُری تھی؟ کوئی عوامی تحریک ہو بھی نہیں سکتی۔ منزل ایک ہوتی ہے لیکن اس تک پہنچنے کا راستہ مختلف ہو سکتا ہے، ممکن ہے کہ ہم ان راستوں کے راہی نہ بننا چاہیں لیکن آپ ان کی نیک نیتی اور جذبے کو غلط قرار نہیں دے سکتے چونکہ ہر عوامی تحریک کئی سطحوں پر کام کرتی ہے، صرف اوپری پرت کو ‘سمپورن کرانتی’ مان لینا تاریخ اور اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا۔جلیاں والا باغ ہو یا شاہین باغ؛ اس پر بھی مختلف ردعمل سامنے آیا اور آئے گا۔ ممکن ہے کہ میری اور آپ کی قوت برداشت مضبوط ہو، ممکن ہے ہم موجودہ سرکار کی بے حسی کو برداشت کرجائیں، ممکن ہے کہ ہم سرکار کی آئی ٹی سیل کی طرف سے ان عورتوں کو ‘بکاؤ’ کہنے پر خون کا گھونٹ پی کر رہ جائیں، ممکن ہے ہم جامعہ ملیہ میں لڑکیوں اور بے گناہ طلبا پر برسنے والی لاٹھی کے خلاف ترنگا ہاتھ میں لے کر سڑک پر اترنے کو کافی سمجھیں، ممکن ہے ہم جے این یو میں نقاب ڈالے غنڈوں کی داداگیری پر، پولیس اور سرکار کی یک طرفہ کاروائی پر سرکار کے خلاف نعرے لگانے کو ہی درست راستہ قرار دیں، ممکن ہے ہم یوگی سرکار کے وزیر کو جلسہ عام میں یہ بولتے سنیں کہ قبرستان میں دفن مسلم عورتوں کو قبروں سے نکال کر ان کا بلاتکار کرنا چاہیے، پھر بھی ہم دستور ہند کا ابتدائیہ پڑھ کر پُرامن احتجاج کرنا اپنی حکمت عملی کا اہم جزو سمجھیں، ممکن ہے کہ 26 جوان لاشوں کو دفن کرنے کے باوجود ہم اپنے سینوں کو ظالم کے آگے پیش کرنے کا جذبہ سلامت رکھیں، ممکن ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے جسموں پر پولیس کی لاٹھی سے پڑے نیلے داغوں کو چوم کر اپنے راستے پر آگے بڑھ جائیں، ممکن ہے کہ 24 گھنٹے گودی میڈیا کا انڈیلا ہوا زہر پی پی کر ہم نیل کنٹھ کہلانے کا اعزاز حاصل کرلیں؛لیکن ضروری نہیں کہ ہم میں سے ہر شخص اس اگنی پریکشا سے صحیح سلامت گزر جائے، ضروری نہیں کہ سب کی قوت برداشت ہم جیسی ہو، ضروری نہیں کہ سب کے جسم میں دوڑنے والا خون یکساں رفتار سے دوڑتا ہو، ضروری نہیں کہ سب کے پاؤں میں باٹا کا 9 نمبر کا جوتا ہی آتا ہو، ضروری نہیں کہ سب آپ کی امامت میں آپ ہی کی طرف رفع یدین کریں، کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ اس بھیڑ میں سب گاندھی وادی نہ ہوں، ان میں سے کچھ بھگت سنگھ اور سکھ دیو بھی ہوسکتے ہیں جن کا مقصد ایک ہونے کے باوجود طریقہ کار مختلف ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ان کے طریقہ کار سے آپ اختلاف کرسکتے ہیں لیکن ان کی نیک نیتی پر آپ سوالیہ نشان نہیں جڑ سکتے اور نہ ہی آپ کو ایسے سرفروشوں کو جسٹیفائی کرکے اپنے خانہ میں فٹ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے چونکہ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوگا کہ آپ کے ہیرو صرف گاندھی اور نہرو ہیں، چند شیکھر آزاد اور بھگت سنگھ جیسے جیالوں کی آپ کو ضرورت نہیں۔