بنگلور میں گزشتہ ہفتہ اہانت رسول ؐ کے واقعہ نے سوشل میڈیا کی افادیت پر کئی سنگین سوال کھڑے کر دئیے ہیں۔اس شرمناک واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شرپسند کہیں بھی کوئی قابل اعتراض پوسٹ ڈال کر کسی شہر کے امن و امان کو غارت کرسکتا ہے۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اظہارخیال کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کے دینی عقائد کو نشانہ بنانے کا چلن کوئی نیا نہیں ہے، لیکن جب سے شرپسندوں کو سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ہاتھ آیا ہے، وہ مسلمانوں کے خلاف اس کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔آئے دن ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن میں مسلمانوں کو مشتعل کرنے والی پوسٹیں ڈالی جاتی ہیں اور ان کے صبر وضبط کا امتحان لیا جاتا ہے۔اس قسم کے واقعات کے بڑھنے کا سبب یہ ہے کہ نہ تو سوشل میڈیا پر کسی کا کنٹرول ہے اور نہ ہی نظم ونسق قایم کرنے والی مشینری ان انتہائی سنگین معاملات کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک توہین رسالت ؐکے شرمناک واقعات کو روکنے کے لئے کوئی قانون بھی وضع نہیں کیا گیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس قسم کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے اور مسلمانوں کے ازلی دشمن اس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔
یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ مسلمان اپنے پیارے نبیؐ سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں اور وہ ناموس رسالت ؐپر اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپنے آپ کو جان بوجھ کر ہلاکت میں ڈالنا اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی بھی طور جائزنہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات اس کی مخالفت کرتی ہیں۔ یہ ایسا حساس موضوع ہے جس پر مسلمان اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ پاتے اور وہ توہین رسالت ؐ کے کسی بھی واقعہ کے خلاف سراپا احتجاج بن کربے تحاشا سڑکوں پر نکل آتے ہیں، خواہ انجام کچھ بھی ہو۔ گزشتہ منگل کی رات کو بنگلور میں بھی یہی ہوا۔ایک قابل اعتراض فیس بک پوسٹ کے بعد تین مسلم نوجوانوں نے توہین رسالت ؐ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنی قیمتی جانیں قربان کردیں۔کہا جاتا ہے کہ اگر بنگلورپولیس اس معاملے میں فوری کارروائی کرتی تو حالات اس درجہ خراب نہیں ہوتے اور نہ ہی تباہی وبربادی کے دل خراش مناظر دیکھنے کو ملتے۔یہ حقیقت ہے کہ پولیس نے اس معاملہ کی حساسیت کو سمجھنے میں بھول کی اور شکایت کنندگان پر عام تنازعات کی طرح آپسی سمجھوتہ کرنے کا دباؤ ڈالا۔جس سے نوجوانوں میں پہلے سے موجود اشتعال نے نئی کروٹ لی۔ توڑپھوڑ، آتش زنی اور لوٹ مار کا ایسا بازار گرم ہوا کہ بنگلور کے دوعلاقے میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگے۔ظاہر ہے کسی بھی معاملے میں قانون کو ہاتھ میں لینے یا تشدد میں شامل ہونے کی کسی بھی طور حمایت نہیں کی جاسکتی۔ مسلمانوں کو اس بات کا احساس ضرور ہونا چاہئے کہ حالات ان کے موافق نہیں ہیں اور اسلام دشمن طاقتیں تاک میں بیٹھی ہیں کہ وہ ذراسی بات کا بتنگڑ بناکر انھیں نرم چارہ سمجھ کر چباجائیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو کسی بھی حالت میں صبر وتحمل اور برداشت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ جس پیارے نبی ؐ کی محبت سے ہم سرشار ہیں، ان کی تعلیمات بھی یہی ہیں۔ انھوں نے نہ صرف اپنے دشمنوں کومعاف کردیا بلکہ دنیا کے سامنے صلہ رحمی اور درگزر کی ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ایسے میں اگر ہم اپنے پیارے نبیؐ کی خاطرتشدد میں شامل ہوتے ہیں یا پھر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تویہ سراسر رسول اکرم ؐ کی اعلیٰ تعلیمات کے خلاف ہے اور ہمیں اس سے ہر ممکن گریز کرنا چاہیے۔
بنگلور کے ان مسلم نوجوانوں کی سوجھ بوجھ اور دور اندیشی کی داد دی جانی چاہئے جنھوں نے تشدد، افراتفری اور اشتعال کے خطرناک ماحول میں بھی اپنے جذبات پر قابو رکھا اور اپنی جان پر کھیل کر ایک مقامی مندر کی حفاظت کی۔ اگر خدا نخواستہ مندر کو کوئی نقصان پہنچتا تو یہ واقعہ بدترین فرقہ وارانہ تشدد کا سبب بن سکتا تھا۔سمجھدار اور باشعور نوجوانوں کی کوشش دراصل اس پورے معاملہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے سے بچانے کی تھی جس میں انھیں کامیابی ملی۔
بنگلور معاملے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق کانگریس کے ممبر اسمبلی اکھنڈ نواس مورتی کے بھتیجے نوین نے فیس بک پر ایک ایسی پوسٹ لکھی جس میں اہانت اسولؐ کا ارتکاب کیا گیا تھا۔یہ پوسٹ ایک گھنٹے کے اندر پورے شہر میں پھیل گئی اور مسلمان اپنے زخمی جذبات کو لے کر سڑکوں پر نکل آئے۔ موقع غنیمت جان کر کچھ سماج دشمن عناصر بھی ان میں شامل ہوگئے اوراس مشتعل ہجوم نے سڑکوں پر افراتفری مچادی۔ سینکڑوں موٹر گاڑیوں کو نذرآتش کیاگیا۔کئی مکان پھونک دئیے گئے۔سڑکیں ویران ہوگئیں۔ چاروں طرف جلی ہوئی گاڑیاں، ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں اور اینٹ پتھر بکھرے پڑے تھے۔ مشتعل ہجوم نے پولیس اسٹیشن کو بھی نہیں بخشا۔حالات کو قابو میں کرنے کے لئے پولیس نے آنسو گیس چھوڑی اورفائرنگ کی جس کے نتیجے میں تین نوجوان جاں بحق ہوگئے، جن کی شناخت واحد خاں، سید یٰسین پاشااور سید شیخ کے طور پر ہوئی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ کانگریسی ممبر اسمبلی شری نواس مورتی کا تعلق دلت طبقے سے ہے اور ان کے مسلمانوں سے اچھے رشتے ہیں تاہم ان کے
بھتیجے نوین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بی جے پی کا حامی ہے اور اس نے حال ہی میں رام مندر کے شلانیاس کی بھی حمایت کی تھی۔اس کی پوسٹ کے بعد ممبر اسمبلی شرینواسن پر بھی حملہ کیا گیا۔ نوین کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے اور اس پورے معاملے کی مجسٹریٹ کے ذریعہ جانچ کرائی جارہی ہے۔قابل ذکر بات یہ کہ بنگلور تشدد کے سلسلہ میں مقامی انتظامیہ احتجاج میں شامل لوگوں سے ایسے ہی تاوان وصول کرنے کی تیاری کررہی ہے جیسا کہ اتر پردیش کی یوگی سرکار نے سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں سے وصول کرنے کی کارروائی شروع کررکھی ہے۔کرناٹک کے وزیروزیر داخلہ باسوراج بومئی نے اس فساد کو منصوبہ بند قرار دیتے ہوئے اس کا الزام ایس ڈی پی آئی نامی مسلم تنظیم پر ڈالا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقامی سیاسی رقابتوں نے بھی اس معاملے میں گل کھلائے ہیں۔اب تک 200 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار شدگان میں کانگریس کی سٹی کارپوریٹر ارشاد بیگم کا شوہر کلیم پاشا بھی شامل ہے۔ اس ہنگامہ آرائی کے پیچھے گزشتہ انتخابات اور آنے والے لوکل باڈیز کے انتخابات میں مقامی لیڈران کی رسہ کشی بھی بتائی جاتی ہے۔ پولیس خاص طور پر ایس ڈی پی آئی کے کردار کو محور میں رکھ کر جانچ کررہی ہے۔
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ توہین رسالت ؐ کے ارتکاب کے بعد جب ایک ہزار سے زائد مظاہرین کے جی ہلی پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہوکر شاتم رسول ؐ کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے لگے تو پولیس نے کارروائی کیوں نہیں کی اور وہ کیوں حالات کے بگڑنے کا انتظار کرتی رہی۔پولیس نے اس تشدد کے خوفناک شکل اختیار کرنے کے بعد شاتم رسولؐ کو گرفتا ر تو کیا، لیکن یہ اس وقت ہوا جب شہر دھواں دھواں ہوچکا تھا۔پولیس کی مہارت اسی میں سمجھی جاتی ہے کہ وہ حالات کے بگڑنے کا پہلے سے اندازہ لگائے اور شر پھیلانے والوں پر گہری نگاہ رکھے۔ یوں بھی بنگلور کی پولیس اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے لئے مشہور ہے، لیکن اس معاملے میں اس کی کوتاہی اورلاپروائی کا نتیجہ جان ومال کے نقصان کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ لہٰذا کچھ تاوان اس سے بھی وصول کیا جانا چاہیے۔
یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے سوشل میڈیا کے اس سیلاب سے سماجی ہم آہنگی اورامن وامان کو جو خطرات لاحق ہورہے ہیں، ان پر آخر کیسے قابو پایا جائے۔ سوشل میڈیا کا دائرہ دن بہ دن پھیلتا چلا جارہا ہے لیکن اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ اب معاشرے کے لئے مضر ثابت ہونے لگا ہے۔اگر آپ اعداد وشمار کی رو سے دیکھیں تو حیران کن صورتحال سامنے آتی ہے۔اس وقت پوری دنیا میں روزانہ ایک ارب فیس بک، انسٹا گرام اور ٹوئیٹ کے ساتھ 65ارب واٹس ایپ میسج اور 239 ارب ای۔ میل کی آمدورفت ہوتی ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ ان میں اوسطاً ایک تہائی غلط، اسپیم اور فرضی ہوتے ہیں۔اسمارٹ فون اور انسٹا گرام سے لیس کروڑوں عوام کی وجہ سے سوشل میڈیاکمپنیوں کو ہندوستان سے تقریباً بیس فیصد بازار مل رہا ہے۔یعنی ہندوستان میں سوشل میڈیا کے ذریعہ روزانہ اوسطاً 20 ارب قابل اعتراض اور مجرمانہ معاملے ہورہے ہیں۔ لیکن نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکے اعداد وشمار کے مطابق2017 کے سائبر کرائم سے وابستہ21 ہزار 796 معاملے ہی پولیس نے درج کئے۔ یعنی باقی اربوں معاملوں میں نہ تو پولیس اور نہ ہی ڈیجیٹل کمپنیاں کوئی کارروائی کررہی ہیں۔ فیس بک اور واٹس ایپ پر منافرت پھیلانے والی بی جے پی لیڈران کی تقریروں کو نہ ہٹانے کی ضد نے صورتحال کو مزید سنگین بنادیا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)