(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا ، اور جو کچھ ہو رہا ہے ، مثلاً ہندو اقلیت پر حملے ، اس کی جڑ میں کچھ اور نہیں شیخ حسینہ واجد کی پالیسیاں ہی ہیں ۔ شیخ حسینہ کے فرار کے بعد وہاں ہندو اقلیت پر قابلِ مذمت حملے شروع ہوئے ہیں ، لیکن ان حملوں کے پس منظر میں ، جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے شیخ حسینہ واجد کی پالیسیاں ہی ہیں ۔ انہوں نے اپنی حکمرانی کے دوران آئین کی اُن ترمیمات کو ختم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ، جن کے سبب بنگلہ دیش میں کٹر پسند عناصر کا سَر اٹھانا ممکن ہوا تھا ۔ بنگلہ دیش ، مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود کوئی اسلامی ملک نہیں ہے ۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے اس ملک کی بنیاد ایک ایسے آئین پر رکھی تھی جس میں ’ بنگلہ قوم پرستی ‘ مقدم تھی ، یعنی آئین میں اہمیت ’ بنگلہ زبان اور بنگلہ تہذیب ‘ کو دی گئی تھی ۔ بنگلہ دیش کا قیام لسانی بنیادوں پر ہی ممکن ہوا تھا ، اور بنگل دیش کی تحریک میں تمام بنگالی شامل تھے ، ہندو بھی ۔ جب بنگلہ زبان لکھنے ، پڑھنے اور بولنے والوں نے ، جن میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بنگالی بھی شامل تھے ، یہ محسوس کیا کہ ان پر اردو زبان تھوپی جا رہی ہے ، تو انہوں نے ایک تحریک شروع کی تھی ، جس کے قائد شیخ مجیب الرحمٰن تھے ، اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک ’ آزادی ‘ کی تحریک میں بدل گئی تھی ، اور ہندوستان کی مدد سے بنگلہ دیش پاکستان سے علاحدہ ہوگیا تھا ، اور اس کے آئین میں ایسی تمام شقیں شامل کر لی گئی تھیں جن کے ذریعے ہر بنگالی کو ، بلا لحاظ مذہب ، امن و چین کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے اور اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کے حقوق دیے گیے تھے ۔ لیکن بنگلہ دیش میں جنرلوں کی حکومتیں بنیں تو سارے آئین کو مذہبی رنگ دے دیا گیا ! ملک کا سرکاری مذہب اسلام قرار پایا اور نصابی کتابوں کو اسلامی رنگ دے دیا گیا ۔ آئین کی تمہید کا آغاز ’ بسم اللہ ‘ سے کیا جانے لگا ، لفظ سیکولر ہٹا دیا گیا ۔ شیخ حسینہ پندرہ سال سے زائد بنگلہ دیش کی حکمراں رہیں لیکن انہوں نے آئین میں کی گئی ترمیمات کو برقرار رکھا ، اور نصابی تبدیلیوں میں گرمجوشی سے حصہ لیا ، اور یہ سب ’ سیاست ‘ اور ’ گدی ‘ کی حفاظت کی غرض سے تھا ۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنگلہ دیش میں کٹر پسندوں کو تقویت ملی ، اور سماج میں فرقہ واریت کا زہر پھیلا ، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بنگلہ دیش میں ہندو ڈرا اور سہما ہوا ہے ، اس پر حملے ہو رہے ہیں ۔ لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ وہاں حکومت شرپسندوں پر قابو پانے کے لیے کوشاں ہے ، مندروں کی حفاظت کی جا رہی ہے ، اور کوشش کی جا رہی ہے کہ ہندو اور دیگر اقلیتوں کو نقصان نہ اٹھانا پڑے ۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے ، جو سمجھ لیں کہ اس وقت عبوری وزیراعظم کے عہدے پر ہیں ، حملوں کی مذمت بھی کی ہے ، شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائی کا انتباہ بھی دیا ہے اور ہندوؤں کے سب سے بڑے مذہبی مقام کا دورہ بھی کیا ہے ۔ ہندوستان میں اس کے برعکس ہو رہا ہے ۔ بنگلہ دیش کے ہندوؤں پر حملے کے نتیجہ میں یہاں مسلمانوں پر حملے شروع ہو گیے ہیں ، اور اس کا ایک سبب سوشل میڈیا پر فیک مواد کا ، ویڈیو وغیرہ کا اَپ لوڈ ہونا ہے ۔ ہندتوادی تنظیموں کے اندھ بھکت شرانگیز جعلی پوسٹیں وائرل کرکے نفرت پھیلانے کا کام کر رہے ہیں ، اور حکومت انہیں یہ کام کرنے دے رہی ہے ۔ اڈیشہ ، دہلی ، مظفرپور ، بریلی اور غازی آباد وغیرہ میں بنگلہ دیش کو بہانہ بنا کر مسلمانوں پر وحشیانہ حملے کیے گیے ہیں ، ان کی دکانوں اور مکانوں اور جھگی جھونپڑوں کو جلایا اور تباہ کیا گیا ہے ۔ یوپی حکومت نے غازی آباد معاملہ میں ایک شرپسند پنکی چودھری پر کارروائی کی تو ہے ، لیکن بڑی تعداد میں شرپسند آزاد ہیں ، اور مرکزی و ریاستی حکومتیں آنکھیں موندے ہوئے ہیں ۔ مرکزی حکومت کو جاگنا ہوگا ، اسے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس کے امن و امان کے لیے کی جانے والی سرگرمیوں سے سبق لینا ہوگا ، اور بنگلہ دیش کو بہانہ بنا کر جو لوگ تشدد کر رہے ہیں ، ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرنا ہوگی ۔ شیخ حسینہ نے جو کیا اس کا انجام سامنے ہے ، یہاں کی مرکزی حکومت بھی اسی راہ پر چل رہی ہے ، فرقہ پرستوں کو شہ دے رہی ہے ، اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکل سکتا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)