نئی دہلی: اقبال اکیڈمی انڈیا نئی دہلی کی جانب سے ’بانگ درا کے سو سال‘پرتسمیہ آڈیٹوریم ، جامعہ نگر اوکھلا میں مذاکرہ کا انعقاد کیاگیاجس کا آغاز قرآن کریم کی تلاوت سے کیاگیا۔مذاکرے کی صدارت ڈاکٹر سید فاروق صاحب نے کی۔انھوں نے اپنے صدارتی خطبہ میں کلام اقبال کی معنویت پر اظہارکیاکہ شاعر لفط کے استعمال میں کتنا محتاط ہوتا ہے۔اقبال نے ’خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھرجائیں‘کے مصرعے میں سادہ دل کی جگہ معصوم نہیں استعمال کیا،کیونکہ معصوم کا لفظ صرف تین بندوں پر،یعنی نبی ،مجذوب اوربچہ کے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔ پروفیسر عبدالحق صاحب نے جلسہ کی کارروائی کی ذمہ داری اداکی ۔انھوں نے کلام اقبال کے فکروپیام پر تفصیلی گفتگو کی۔اقبال کے پہلے مجموعہ اردوکلام ’بانگ درا کے سو سال‘ہونے پر اس کی اہمیت اور مقبولیت کے بارے میں بتایا۔اقبال کا کلام سو سال گزرنے کے بعد بھی زندہ وتابندہ ہے۔معاصر دور میں اس کی ضرورت وافادیت مزید بڑھ گئی ہے۔اقبال کا کلام قارئین و سامعین میں بیداری پیداکرتا ہے۔اقبال عوام وخواص میں یکساں مقبول ہیں۔ اقبال اکاڈمی کے صدرڈاکٹر سید ظفرمحمود نے اقبال کی بانگ درا کی چند مقبول نظموں کے فکروپیام کی اہمیت کوبتایا۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اقبال اکیڈمی ،انڈیا کافی عرصہ سے اقبال کے کسی ایک شعر کے سیاق میں،ان کے فکر وپیام کی اہمیت پر مذاکرہ کرتی رہی ہے۔پروفیسر توقیراحمد خان نے اقبال کے بانگ درا کی اشاعت کے حوالہ سے بڑی معلوماتی گفتگو کی۔یہ بھی بتایا کہ میں نے مکاتیب اقبال کے مرتب مظفر برنی کے ساتھ کام کیا، جس کی چار جلدیں دہلی اردو اکیڈمی نے شائع کیں،پانچویں جلد شائع ہونے سے رہ گئی تھی۔اس کا غیر مطبوعہ مسودہ میرے پاس ہے۔
دہلی اردو اکیڈمی کے سکریٹری محمد عابد احسن نے کلام اقبال پر فکرانگیز گفتگو کی اور پروفیسرتوقیرصاحب سے استدعا کی ،کہ وہ مکاتیب اقبال کی پانچویں جلد کے مسودہ کو شائع کرنے کے لیے دہلی اردو اکاڈمی کو عنایت کریں۔پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے اپنی گفتگو میںاس بات پر توجہ دلائی،کہ ہمیں اپنے علمی وتہذیبی اثاثہ کی قدراور تحفظ کرنا چاہیے ۔قومی کونسل کے سابق ڈائرکٹر پروفیسرشیخ عقیل احمد نے اقبال کے فلسفہ کو انسانیت کی فلاسفی بتایا،جو ہمیشہ زندہ رہے گی۔پروفیسر اختر حسین نے اپنی گفتگو میں معروف اسکالر خوشونت سنگھ کا حوالہ دیتے ہوئے ،اقبال کو دانشورانہ فکر کا شاعر بتایا۔جو دنیائے ادب میں منفرد اہمیت کا حامل ہے۔مشہورناقد حقانی القاسمی نے اقبال کے فکروشعر کے حوالہ سے اپنی تنقیدی رائے کااظہار کیا۔ ڈاکٹر سلمہ شاہین نے اپنی خوشنما اور منفردآواز میں اقبال کی دو غزلیں پیش کیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ماس کمیونیکیشن ریسرچ سینٹر میں پرڈیوسر ریڈیو ،اردو نشریات کے حوالہ سے کئی کتابوں کے مرتب ومصنف ڈ اکٹر شکیل اختر نے بانگ درا کی صدی کیوںکے موضع پرمعلوماتی مقالہ پڑھا۔پروفیسرابوبکر عباد نے اقبال اورسرسید کی نسبت سے پرچہ پیش کیا۔ڈاکٹر عبدالحئی نے اپنی معلوماتی گفتگو کے دوران اقبال سے متعلق دانشوروں کی رائے کے بارے میں اظہارکیا۔ ڈاکٹر سرفراز جاوید نے ’اقبال کانظریۂ طاقت پر مقالہ کی تمہید پیش کی۔جس میں انھوں نے اقبال کے کلام میں فکر و عمل تحریک اور اخلاقی تربیت کے پہلوپر اپنی آرا پیش کیں۔ ڈاکٹرشاہد نے بانگ درا کے ادوار اور اس کی اشاعت کی تعداد کے تعلق انتہائی معلوماتی پرچہ پیش کیا۔نوجوان طالب علم انیس نے اپنے مضمون پیش کیا۔مذاکرہ میں ڈاکٹرندیم احمد،ڈاکٹرمحسن کروڑی مل کالج کے اساتذہ اور سامعین میں مظفر غزالی ،زبیر احمد خاں سعیدی، فکر و تحقیق اور اردو دنیا کے مدیر ڈاکٹر عبدالباری ،عذرا بک ٹریڈرس کے مالک شعیب اور دیگر محب اردو نے شرکت کی۔