عبدالعزیز
گزشتہ روز (یکم مارچ) ہندستان کے سب سے ناکام و ناکارہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے شہید مینار میدان کلکتہ میں ایک جلسہ عام کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ممتا بنرجی اور بایاں محاذ کی حکومتوں نے مغربی بنگال کو کنگال بنا دیا ہے۔ اگر مودی کو یہاں کے عوام نے حکومت سونپا تو نریندر مودی بنگال کو سونار بنگلہ (سونے کا بنگلہ) میں تبدیل کردیں گے۔ مسٹر نریندر مودی کے اچھے دن کا وعدہ کچھ ایسا ہی تھا جیسے آج امیت شاہ سونے کے بنگلہ کا یا سنہرے بنگال کا وعدہ کر رہے ہیں۔ پورے ہندستان والوں نے دیکھ لیا ہے کہ جھوٹے کا اچھے دن کا وعدہ کیسا ہوتا ہے۔ ہندستان میں ایسا خراب اور تباہ کن دن کبھی نہیں آیا تھا۔ ہر خرابی، ہر برائی، ہر تباہی عروج پر ہے۔ ہر اچھائی اور ترقی روبہ زوال ہے۔ انسانیت اور آمیت کراہ رہی ہے، دم توڑ رہی ہے۔ حیوانیت کا دور دورہ ہے۔ اگر یہی اچھا دن یا سنہرا دن ہے،جسے یہ جوڑی لوگوں سے ووٹ لینے یا دھوکہ دینے کیلئے پیش کر رہی ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں اپنی سازش میں جس طرح گجرات اور پھر پورے ہندستان میں کامیاب ہوگئے، اسی طرح مغربی بنگال میں بھی کامیاب ہوجائیں گے؟
آج (2 مارچ)کے انگریزی روزنامہ ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں مشہور محقق و مصنف آسوتوش ورشنی کا جو امریکہ کی ایک یونیورسٹی (براؤن یونیورسٹی) میں پڑھاتے ہیں ایک مضمون "Delhi and after – How we define and categorise the Delhi violence matters for the future of the city, and a pluralist India.” (دہلی اور اس کے بعد-دہلی کے فساد کو مستقبل میں ہندستان کے تکثیری معاشرے کیلئے کیسے واضح کیا جاسکتا ہے) میں کئی حقائق پیش کئے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ”حالیہ فساد کے اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ 1950ء کے بعد یہ دہلی کا سب سے بڑا ہندو/مسلم فساد ہے۔ جب 1947ء میں تقسیم ہند کے فوراً بعد دہلی میں فساد پھوٹ پڑا تھا تو نہرو فسادیوں کی بھیڑ میں چلے جاتے تھے اور اسے روکنے کی کوشش کرتے تھے“۔ دوسری بات انھوں نے یہ لکھی ہے کہ ”پچاسوں رپورٹس پڑھنے اور دیکھنے کے بعد میں اس کا قائل ہوگیاہوں کہ پہلے دن دہلی میں قتل عام کے منصوبے کا آغاز نہیں ہوا لیکن دوسرے اور تیسرے دن قتل عام (Pogrom)کے تحت فساد برپا ہوا۔ انھوں نے اس فساد کو 1984ء کے فساد جیسا بتایا ہے۔ 2002ء کے گجرات فساد سے تمثیل دی ہے۔ آخر میں ایک سوال کیا ہے کہ اتنا بڑا فساد بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے ایسے وقت کا کیوں انتخاب کیا جبکہ دنیا کی سب سے بڑے طاقتور ملک کا صدر ڈونالڈ ٹرمپ میں دہلی میں موجود تھا۔ پوری دنیا کی میڈیا میں ٹرمپ اور مودی کی ملاقات کا زبردست چرچا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ بیجنگ میں بھی اس کا چرچا ہوا،لیکن دوسرے ہی دن پوری دنیا کی میڈیا میں دہلی کا فساد سرخیوں میں نمایاں طور پر آگیا اور دنیا کو معلوم ہوگیا کہ ہندستانی حکومت اپنے شہریوں کے ساتھ کس قدر برا سلوک کرتی ہے“؟ ”ہم نے دنیا کو بتایا کہ ہندستان کی تصویر کتنی بھیانک ہے۔ حکومت کے متعصب لیڈروں کو پارلیمنٹ میں تقریر کراکے ان کی عزت افزائی کی گئی۔ جن کی عزت افزائی کی گئی وہ نائب وزیر خزانہ ہوتے ہوئے پیادہ سپاہی کی طرح انتخابی مہم میں ’دیش کے غداروں کو- گولی مارو سالوں کو‘ کا نعرہ لگایا۔ صاحب بہادر نے اپنی پارٹی کی تصویر پیش کی کہ ان کی پارٹی کس درجے کی ہے۔ جو لوگ عوامی سطح پر اپنے تعصب اور نفرت کا اظہار کرتے ہیں، اپنے مخالفین کو غدارِ وطن بتاتے ہیں ایسے ہی لوگوں کو حکمراں پارٹی انعام و اکرام سے نوازتی ہے۔ تین دنوں تک دہلی میں اس نعرے کو حقیقت کی شکل دی گئی“۔
گزشتہ روز امیت شاہ نے کلکتے میں انوراگ ٹھاکر کی طرح کوئی نعرہ تو نہیں لگایا لیکن پیادہ سپاہی کی طرح وہ بھی چیختے چلاتے رہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ان کے جلسے کے بعد کئی انوراگ پیدا ہوگئے جو انوراگ کی طرح ہی گولی مارو غداروں کو گولی ماروسالوں کو جیسا نعرہ لگانے لگے۔ مودی اور شاہ کے ہاتھ میں بنگال ابھی نہیں آیا لیکن گولی مارنے کی بات جو دہلی میں کہی گئی تھی اس کی نہ صرف یہاں گونج سنائی دینے لگی، بلکہ انوراگ ٹھاکروں کی بہتات ہوگئی۔ مودی اور شاہ کتنا سنہرا بنگال بنائیں گے اس کی ایک جھلک کل دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ بنگال کے عوام و خواص بھی گولی مارو والی پارٹی سے پہلے سے آشنا تھے، اب مزید آشنا ہوگئے۔
مغربی بنگال میں 34 سال تک بایاں محاذ کی حکومت تھی۔ یہاں بایاں محاذ کے زمانے میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوتے تھے۔ اگر کہیں جھڑپ ہوتی تھی تو فوراً قابو میں کرلیا جاتا تھا۔ 2008ء میں کلکتہ میں راستوں پر پتھراؤ اور سڑک جام کرنے کا مظاہرہ ہوا، آتشزنی بھی کی گئی۔ ٹائر بھی جلائے گئے۔کوئی مرا نہیں،کوئی زخمی نہیں ہوا لیکن 7گھنٹے کے اندر فوج بلالی گئی اور حالات پر قابو پالیا گیا۔ کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ دہلی میں تین روز تک قتل عام ہوتا رہا، فوج نہیں بلائی گئی۔ احمد آباد اور گجرات سات دنوں تک جلتا رہا اور قتل عام ہوتا رہا۔ آٹھویں دن جب قتل عام مکمل ہوگیا تو فوج بلائی گئی۔ یہ ہے امیت شاہ اور نریندر مودی کا دہلی اور گجرات۔ کیا مغربی بنگال کو بھی نریندر مودی اور امیت شاہ گجرات بنانے کا پروگرام اور منصوبہ رکھتے ہیں؟ پہلے بی جے پی کا پاؤں مغربی بنگال میں محترمہ ممتا بنرجی کی غلط سیاسی پالیسی کی وجہ سے مضبوط ہوا۔ ممتا بنرجی این ڈی اے میں رہیں۔ بی جے پی کے ساتھ ایک بار الیکشن میں کانگریس اور بایاں محاذ کا مقابلہ کیا۔ واجپئی کی حکومت میں وزیر تھیں۔ ان کی اس سیاست کی وجہ سے بی جے پی کو مغربی بنگال میں پیر جمانے کا پورا موقع ملا۔ ممتا بنرجی کو جب اقتدار ملا تو دو بڑی وجوہات سے بی جے پی کو پھیلنے اور طاقت کو مضبوط کرنے کا موقع ملا۔ ممتا بنرجی کی غلط اور نمائشی اقلیت نوازی یا مسلم نوازی تھی اور دوسری وجہ نرم ہندوتو اکی پالیسی۔ ان دو اسباب سے آر ایس ایس اور بی جے پی کی شاخیں یا یونٹیں سیکڑوں کی جگہ ہزاروں کی تعداد میں بڑھ گئیں۔ فرقہ پرستی، تعصب اور نفرت پھیلانے کا بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کو موقع ملتا گیا۔ جس کی وجہ سے بی جے پی کے ووٹوں کی شرح میں اضافہ ہوتا رہا۔ آہستہ آہستہ بی جے پی مغربی بنگال میں دوسرے نمبر پر آگئی۔ سی پی ایم اور کانگریس کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ لوک سبھا کے گزشتہ الیکشن میں ترنمول کانگریس اور بی جے پی کی لڑائی قریب قریب برابر کی ہوگئی۔ سیٹوں میں بھی بہت زیادہ فرق نہیں رہا۔ لوک سبھا کی 22سیٹوں پر ترنمول کانگریس کو کامیابی ملی،جبکہ بی جے پی 18 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
گزشتہ 8،10 ماہ سے جب سے پرشانت کشور ممتا بنرجی کے سیاسی صلاح کار ہوئے ترنمول کانگریس کی پالیسی میں خاصی تبدیلی آئی۔ کئی ایسے کام کئے گئے یا کام ہوئے کہ ترنمول کانگریس کی نیک نامی ہوئی۔ ماضی کی غلط پالیسیوں کو بھی ممتا نے دہرایا نہیں۔ عوام کے مسائل کو حل کرنے کی منصوبہ بند کوشش کی۔ ایک وجہ تو یہ ہوئی جس کی وجہ سے مغربی بنگال کی سیاسی صورت حال میں تبدیلی آئی۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہوئی کہ مرکزی حکومت ہر سطح پر ناکام و نامراد ہوئی۔ بی جے پی کے دو بڑے لیڈر مودی اور امیت شاہ کی بدنامی میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔ ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی پرانی روش کو چھوڑ کر اس وقت جس روش پر آگے بڑھ رہی ہے اگر یہ روش قائم و دائم رہی تو بی جے پی کو مغربی بنگال میں ”سنہرا خواب دیکھنے یا سنہرا بنگال بنانے“ کا موقع نہیں ملے گا۔ محترمہ ممتا بنرجی کو سی پی ایم اور کانگریس کے ساتھ غیر ذمہ دارانہ اور غیر جمہوری سلوک سے بھی باز آنا ہوگا۔ اگر سی پی ایم اور کانگریس کے محاذ کو پہلے کی طرح کچلنے کی کوشش کی گئی تو بی جے پی کو پہلے کی طرح فائدہ ہوگا۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے ترنمول کانگریس کو اپنی پالیسی یا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہئے۔ امید یہی ہے کہ جس طرح بی جے پی کا گراف نیچے کی طرف گر رہا ہے۔ یہاں نریندر مودی اور امیت شاہ کا خواب شرمندہئ تعبیر نہیں ہوگا۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)