Home خاص کالم بَلی ماراں یا بِلی ماراں؟-علی اکبر ناطق

بَلی ماراں یا بِلی ماراں؟-علی اکبر ناطق

by قندیل

کچھ دن سے ایک عجیب تماشا لگا ہوا ہے ۔ ولیم ڈیلرمپل نے کہیں لکھ دیا اِسے بِلی ماروں کا محلہ کہتے ہیں یعنی بِلیاں مارنے والوں کا محلہ ۔ اب چونکہ ہم انگریز کی ہر لکھی ہوئی بات کو سند ماننے کی ہر حالت میں کوشش کرتے ہیں چاہے وہ کتنی ہی واہیات اور اصلیت سے دُور ہو اِس لیے اُس کو ثابت بھی کرنے لگ جاتے ہیں ۔ اور اب کچھ عجوبہ پسند محققین جو اپنی بزرگی کا فائدہ اُٹھانے کے سخت حق میں ہیں ، اِسے بِلی ماراں ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور اُس میں غالب کے خطوط کے ایسے حوالے لائے ہیں جو محض رعایتِ لفظی کے سوا کچھ نہیں ۔ اگر کوئی شاعر محقق بھی اِس طرح کے حوالے کو بنیاد بنا کر سند پیش کرتا ہے تو اِس کا مطلب ہے وہ شاعری میں دو ہم ہِجے مگر الگ تلفظ کے الفاظ کی رعایت سے واقف نہیں ۔
ایک صاحب جنھیں مظفر علی سید کہا جاتا ہے ، وہ بھی لمبی لمبی چھوڑنے والے تھے ، اُنھوں نے بھی سُنا ہے ایک دفعہ کہا کہ یہاں چونکہ ساہنسی یعنی کتے بلیاں کھانے والے رہتے تھے اِس لیے اِسے بِلی ماراں کہا جاتا ہے ۔ اور اُس کے پاس سند کوئی نہیں ۔ کچھ نے لکھا یہ جگہ دریائے جمنا کے کنارے پر تھی اور یہاں ملاح رہتے تھے ۔ چونکہ بانس کو بَلی کہتے ہیں اور یہ ملاحوں کا علاقہ تھا ، جو کشتیوں کے چپو استعمال کرتے تھے۔ وہ چپو بانس کے ہوتے تھے اور اُن بانسوں کو بَلی کہا جاتا تھا ، اِس لیے اُس محلے کو بَلی ماراں کا محلہ کہا جانے لگا ۔ اصل میں اِن باتوں کا ثبوت کوئی پیش نہیں کرتا ، جو جیسے کسی نے کہہ دیا ویسے بیان کر دیا ، اگر کسی نے اپنی کتاب میں لکھ بھی دیا کہ یہ ملاحوں کا علاقہ تھا اور بانس کو بَلی کہتے ہیں تو بھی بِلی کہیں سے ثابت نہیں ہوتا ۔ اور بِلی ماراں کہنے والے صرف ہانکنے کے علاوہ کچھ نہیں ہیں ۔
اب آتے ہیں ملاحوں کی طرف ، پہلی بات تو یہ ہے کہ جمنا کا اصل پاٹ سفیدوں گاوں تھا اور وہاں ملاحوں کا علاقہ تھا ، بَلی ماراں کو کبھی ملاحوں کی آبادی نہیں کہا گیا ، وجہ یہ تھی کہ آپ جدید قدیم جمنا کی تاریخ پڑھ جائیے ۔ دریا اِس جگہ سے کبھی گزرا ہی نہیں ۔ پھر ملاحوں کا یہاں ہونا کیا معنی ؟
دوسری بات ، بَلی بانس کو اِس لیے نہیں کہہ سکتے کہ بَلی ہمیشہ مضبوط اور بھاری لکڑی کو کہا گیا ہے ۔ مَیں نے خود بچپن میں صادق ترکھان سے ، جو میرٹھ سے یہاں آئے تھے، ہمیشہ بھاری لکڑی کو بَلی کہتے تھے ۔ اور وہ دروازے کی چوگاٹھیں بناتے تھے ۔ اور چوگاٹھ یعنی دروازے کی اوپر والی لکڑی اور دائیں بائیں والی دونوں لکڑیوں کو بَلی کہتے تھے ۔ اب ایک ہزاروی گیت کا بول سُن لیں ۔
طوطیا جنگل دئیا، میری بَلی اُتُوں ہٹ کے بول
تِیاں مزمان چنّا، نہیں رہندیاں ماواں کول
طوطیا جنگل دئیا
ترجمہ
یعنی میرے دروازے پر بیٹھے ہوئے اے جنگل کے طوطے
ہمارے دروازے کی چوگاٹھ سے اُڑ جا اور کہیں اور جا کر ٹیں ٹیں کر اور میری بیٹی کو دروازے سے نکلنے دے
کیونکہ بیٹیاں مہمان ہوتی ہیں وہ ماؤں کے گھر میں سدا نہیں رہ سکتیں ۔
آپ اِس گیت کے بول ویڈیو میں بھی سُن سکتے ہیں ۔
اب آج ہی میری والد صاحب سے اِس معاملے میں تفصیلی بات ہوئی ہے ۔ وہ چونکہ خود بھی لکڑی کے کام میں دخیل رہے ہیں اِس لیے اُن کی بات بھی مَیں مستند سمجھتا ہوں ۔ اُنھوں نے مجھے بتایا کہ بَلی اُسے کہتے ہیں جو شہتیر سے چھوٹی اور آنکڑے یعنی لکڑی کے بالے سے بڑی ہو ۔ ہم فیروز پور میں مکانوں پر پہلے شہتیر ڈالتے تھے، اُس کے بعد اُن پر چھوٹی بَلیاں رکھتے تھے پھر اُن پر آنکڑے بٹھا کر چھت ڈالتے تھے ۔ چنانچہ بَلی عام لفظ تھا جو بولا جاتا تھا ۔ اور جو بَلیاں بنا کر اور کاٹ کر بیچتا تھا اُسے بَلی مال یا بَلی مار جس کی جمع بَلی ماران ہے اور بَلی مالان بھی ہے ،کہا جاتا تھا ۔ اور بَلیوں کے دروازے بھی بنتے تھے
اور یہ کام اکثر ترکھان کرتے تھے کیونکہ وہ لکڑی سے بہت واقف ہوتےتھے ۔اور یہ بَلی عموماً اس لکڑی کی بناتے تھے جو سوکھ جانے کے بعد تین چار سال پانی کے حوض میں پڑی رہتی تھی ۔ ایسی لکڑی لوہے کی طرح پکی ہوجاتی تھی اور بعد میں ٹیڑھی نہیں ہوتی تھی۔ اِسی لیے اِس کے دروازے اور چوگاٹھیں اچھی بنتی تھیں ۔ اور اُن پر مینا کاری بھی ٹھیک ہوتی تھی ۔ بادشاہی دروازوں کی چوگاٹھیں اِنھی لکڑیوں کی بنتی تھیں اور بہت مہنگی ہوتی تھیں اور اِن پر مینا کاری بھی کی جاتی تھی ۔
تو جناب اِس لحاظ سے ترکھانوں کے محلے کو ہی بَلی ماران کہاجاتا تھا اورشاہ جہان کا شہر آباد کرتے وقت چونکہ لکڑی بہت کآم آئی اور اِسی محلے میں یہ کام ہوتا تھا اِس لیے بَلی ماران ہوا ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment