Home ستاروں کےدرمیاں بلدیو راج جی کی یاد میں – محمد علم اللہ

بلدیو راج جی کی یاد میں – محمد علم اللہ

by قندیل

ہائے وہ لوگ جو دیکھے بھی نہیں
یاد آئیں تو رلا دیتے ہیں
(محمد علوی)
ڈاکٹر بلدیو راج صاحب گزر گئے۔ میں ان سے کبھی مل نہیں پایا۔ مگر پھر بھی ان سے بہت گہرا رشتہ تھا ۔ یوں تو میری ان سے فیس بک پر بس عليک سليک ہوئی تھی مگر وقت کے ساتھ ان کی انسان دوستی نے مجھے ان کا گرویدہ بنا لیا۔ 85 سالہ بلدیو راج جی سے جب بھی بات ہوتی تو ایسا لگتا جیسے کہ وہ میرے خاندان کے ہی بزرگ ہیں، ان کی ہر بات میں اپنائیت ہوتی، مہینے دو مہینے میں ایک آدھ مرتبہ ضرور فون کر لیتے اور بے پناہ محبت کے ڈونگرے برساتے۔ ساتھ ہی نصیحتیں بھی کرتے کہ میری منزل دوسروں سے بہت جدا ہونی چاہیے۔ کبھی کبھار تو میں خود بھی ان سے نصیحت کا کہہ دیتا، تو وہ زور سے ہنستے اور پھر کہانیاں سنانا شروع ہو جاتے۔

ہم بھی تمہارے ہی طرح نوجوان تھے، دلی میں خاک چھانی، در درکی ٹھوکریں کھائیں، ٹوٹنے ، بکھرنے سے ہی انسان انسان بنتا ہے۔ اصل زندگی وہی لوگ گزارتے ہیں جو اسکی آزمائشوں سے ڈر کے منہ نہیں چھپاتے بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرتےہیں۔ جس طرح سونا آگ میں تپ کر کندن بنتا ہے، اسی طرح زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے والا ان ہی کامیابی کی منازل طے کر تاہے۔ زندگی کی مسافتیں چاہے کتنی ہی طویل اور کٹھن کیوں نہ ہوں یہ عارضی اور مختصر ہوتی ہیں، تو میرے بیٹے حالات سے کبھی مت گھبرانا۔

ان کی کچھ باتیں مجھے ہمیشہ یاد رہیں گی۔ جب میں نے انہیں پی ایچ ڈی اور ساتھ نوکری کرنے کا بتایا تو وہ بہت خوش ہوئے، انہوں نے سراہا مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر روشنی کی تلاش میں ہو تو ایک پرائیویٹ آدمی بن کر کام کرو۔ دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے لوگ آئے وہ سب روشنی کی تلاش میں تھے، انھوں نے اِدھر اُدھر دیکھے بغیر اپنا کام کیا۔ غیر جانبداری سے علم حاصل کرتے رہو، اس کو کبھی بھی بند مت کرنا۔ جو پڑھائی کر رہے ہو اس کو پایۂتکمیل تک پہنچاؤ ۔ تمہیں خود پتہ چل جائے گا، کون سمجھدار ہے اور کون بے وقوف ۔ اچھے اور پڑھے لکھے لوگوں کو اپنا دوست بناؤ ،تم اوپر جاؤگے، جاہل سے ملوگے تو کبھی تمہارے کام سے خوش نہیں ہوگا اور وہ جلد اپنی حسد سے تمہیں مایوس کرے گا۔

سرحد پار پشاور سے تعلق رکھنے والے میرے عزیز دوست صفی سرحدی کا بھی اکثر ذکر کرتے اور کہتے تم لوگ دونوں میرے بیٹے کی طرح سے ہو اور مجھے بہت عزیز ہو۔ تم دونوں کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے بس پڑھنا اور لکھنا کبھی مت چھوڑنا۔ کسی کی روک ٹوک میں آکر ٹھہراؤ کا شکار نہ ہونا ،بس اپنا کام کرتے رہنا۔ کئی مرتبہ کہتے یہ ہندو مسلم کچھ نہیں ہوتا، بدقسمتی سے ان دنوں ہندوستان میں یہ سب بہت چل رہا ہے۔ مگر تم کبھی اس بہکاوے میں نہ آنا۔ ردعمل میں بھی بس صرف جوڑنے کی بات کیا کرو۔ تم جو روشنی جلا رہے ہو، اسے بس جلاتے رہنا اور ہاں میں تمہارے لئے کبھی کچھ کرسکوں تو ضرور بتانا۔ اپنے امی اور ابو کو میرا آداب کہنا۔

بلدیو راج 1935 میں شمال مغربی سرحدی صوبہ، موجودہ خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے تھے، چونکہ وہ ہندوستان کی تقسیم کے دوران بڑے ہوئے تھے، تو کئی مرتبہ فون پر ہی اس زمانے کے قصے سنانا شروع کر دیتے۔ جب وہ 12 سال کے تھے، تو اپنا گھر چھوڑ کر ہماچل پردیش، ہندوستان منتقل ہو گئے۔ وہ بتاتے تھے اگرچہ ان کے والدین کی رسمی تعلیم بہت کم تھی، لیکن وہ اپنے اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے اسکول کے پرنسپل کے ہندی میں پوچھے گئے سوالات کے انگریزی میں جواب دے کر مقامی اسکول میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ سیکھنے کی ان کی چاہت اور زبانوں کے لیے قابلیت نے انھیں سائنس میں مطالعہ کرنے پر مجبور کیا۔

انہوں نے مشہور دانش گاہ دہلی یونیورسٹی سے نباتیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور پھر ہنس راج کالج ، دہلی میں بطور حیاتیات کے پروفیسر پڑھانے لگے۔ پانچ سال ہندوستان میں درس و تدریس کے پیشہ سے منسلک رہنے کے بعد امریکہ چلے گئے۔ 1968 میں یونیورسٹی آف ساؤتھ کیرولینا میں ڈاکٹریٹ فیلوشپ حاصل کی۔ 1969 میں جیکسن اسٹیٹ یونیورسٹی میں بطور استاد جہاں تقریبا 27 سال پڑھانے کے بعد 1996 میں ریٹائرڈ ہوئے تو خود کو انہوں نے مکمل انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کر دیا۔ امریکہ کے جیکسن میسسپی میں 29 جنوری 2021 کو انھوں نے آخری سانس لی۔

وہ ہندوستانی نژاد امریکیوں کے درمیان علم دوستی کے علمبردار تھے، انہوں نے انڈین ایسوسی ایشن آف مسیسیپی کے پہلے صدر اور ہندو مندر اور گردوارہ کے لیے ایک عطیہ دہندہ اور رہنما کے طور پر خدمات انجام دیں۔ حالانکہ وہ خود اگناسٹک تھے مگر مذہبی رواداری کو فروغ دینے میں وہ ہمیشہ آگے رہتے۔ انہوں نے تعلیم اور کاروبار کے شعبوں میں جیکسن کے بہت سے رہائشیوں کے لیے ایک رول ماڈل اور سرپرست کے طور پر کام کیا، لیکن ان کا خاندان ان کی ترجیح تھی۔

انھوں نے، اپنی بیوی کے ساتھ، اپنے خاندان کو لامحدود اور غیر مشروط محبت سے بھر دیا اور اپنے کیریئر اور زندگی میں ان کی کامیابی کے لیے ایک غیر متزلزل عزم، نیز ان میں دیانتداری، مہربانی اور عزت کی اقدار کو جنم دیا۔ 2015 میں، وہ اور ان کی بیوی شوگرلینڈ، ٹکساس چلے گئے، تاکہ وہ دونوں بیٹے کی دیکھ بھال میں رہیں۔ تاہم انھوں نے ریٹائرمنٹ کی عمر میں بھی ہمیں فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعے سکھانا جاری رکھا۔

ہندوستان اور پاکستان کے موجودہ حالات کے بارے میں ہمیشہ تشویش کا اظہار کرتے۔ پرانے زمانے کی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے، وہ زمانہ بڑا اچھا تھا، لوگوں کے دلوں میں خلوص تھا، آج کل خبروں میں جب ان دونوں ممالک کی اوچھی خبریں پڑھتا ہوں تو دل کڑھتا ہے۔ ہمارے زمانے میں سیاست کا بھی ایک معیار تھا، لوگ ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے۔ صفی سرحدی کو تو یہ تک کہتے کہ میں بھی پٹھان ہوں۔ بس جلدی سے تم کوئی پٹھان لڑکی سے شادی کرلو تاکہ میں اسے آشیرباد دے سکوں۔ کئی مرتبہ ہم دونوں کو مخاطب کرکے ایک ہی خط لکھا کرتے تھے۔

اردو سے انھیں شدید عشق تھا شاید اسی وجہ سے اردو میں لکھنے والے نوجوانوں کی ہمت افزائی کرنا اپنا شیوہ سمجھتے ۔ سینما سے بھی انہیں خاص لگاؤ تھا کئی بڑے ستاروں کو انہوں نے اپنی نوجوانی میں دیکھا۔ دلیپ کمار انہیں بہت پسند تھے ان کی فلمیں وہ ماں کے ساتھ سینما جاکر دیکھا کرتے تھے، کئی مرتبہ ایسے قصے سناتےبلدیو آبدیدہ ہو جاتے۔

ہندوستان کو سیکولر بنانے والے بانی سیاستدانوں سے بھی وہ نوجوانی میں ملتے رہے۔ جن میں جواہر لال نہرو کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے۔ موجودہ ہندوستان کے سیاسی ماحول سے وہ شدید مایوس تھے۔ کئی مرتبہ کہتے ان لوگوں نے ہندوستان کو تباہ کر دیا، لیکن جو پاگل پن ہندوستان میں اس وقت جاری ہے وہ ہمیشہ نہیں رہے گا ایک دن ختم ہوگا۔ اس میں ہمیں وہی طریقہ اپنانا ہوگا جو دوسری قومیں کرتی ہیں۔ اس میں تعلیم کو اہمیت دینی ہوگی، تکنالوجی کو سیکھنا ہوگا اور امن کو بحال کرنے کے لیے سب کو ساتھ لیکر چلنے کی پالیسی اپنانی ہوگی۔

کتنی ہی باتیں ہیں، کیا کیا لکھوں اور کیا چھوڑوں۔ بلدیو راج جی! آپ جیسے لوگوں کو اتنی جلدی نہیں جانا تھا، آپ جیسے بزرگوں کی خطہ کو ابھی ضرورت تھی، ابھی تو ہمیں آپ جیسے بزرگوں کی سرپرستی کی ضرورت تھی۔ ابھی آپ کو نہیں جانا چاہئے تھا۔ بلدیو راج جی آپ کو بھولنا آسان نہیں ہے، آپ کی شفقت و محبت اور نصیحتیں بہت یاد آئیں گی۔

You may also like

Leave a Comment