ینبع، مدینہ منورہ
12 محرم الحرام 1444 ھ مطابق 11 اگست 2022ء کے دن کے گیارہ ساڑھے گیارہ بجے کا وقت رہا ہوگا، جب اس حقیر کی حاضری شمالی بہار کی ایک بڑی دینی درس گاہ جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ، سیتامڑھی میں ہوئی۔ میرے ساتھ میرے ماموں زاد بھائی اور میری اہلیہ کے اپنے بھائی عزیزی مولانا رشید احمد عادل قاسمی سلمہ تھے۔
اس حاضری کے چار مقاصد تھے، جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ کی زیارت اور وہاں کے تعلیمی و تربیتی نظام کو جاننا۔ یہاں کے مہتمم مولانا قاری حفظ الرحمن صاحب سے اور ان کے علاوہ دوسرے اساتذہ جن سے ملنا ممکن ہو، ان سے ملاقات، یہاں کی لائبریری کو دیکھنا اور استاذ الاساتذہ حضرت مولانا عزیر اختر قاسمی صاحب زید مجدہ اور مخدومی حضرت قاضی محمد عمران قاسمی صاحب زید مجدہ سے ملاقات اور ان سے استفادہ کرنا۔
جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ کا نام اور اس کا ذکر خیر اپنے بچپن سے سنتا آیا ہوں، ادارے کے بانی اور سابق سرپرست و مہتمم حضرت مولانا عبد الحنان قاسمی صاحب رحمہ اللہ سے کئی بار ملاقات کا شرف بھی رہا ہے، میری سمجھ بوجھ کی عمر میں ایک بار حضرت رحمہ اللہ ہمارے گھر علیم آباد نمرولی، دربھنگہ تشریف بھی لائے تھے۔ یہاں عرصے سے مخدومی حضرت قاضی عمران صاحب تدریس اور کارقضاء کی خدمت سے منسلک ہیں، عزیز گرامی قدر مولانا نایاب حسن قاسمی جو صالح فکر اور خوبصورت زبان و بیان والے معروف مصنف و قلم کار ہیں، ان کی تعلیمی زندگی کا بھی ایک بڑا عرصہ یہیں گذرا ہے، مزید یہ کہ بالاساتھ ہمارے آبائی گاؤں سے تقریبا پینتیس کلومیٹر کی مسافت پر ہے اور ہمارے نانیہال تھروہٹ، سیتامڑھی ،جو اتفاق سے اب سسرال بھی ہوگیا ہے، سے دس کلومیٹر سے بھی کم مسافت پر واقع ہے؛ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ اس آوارہ گرد کو جسے ہندوستان کی تقریبا تمام ہی ریاستوں میں جانے کا اور وہاں کے سیکڑوں تعلیمی اداروں میں حاضری کا موقع ملا ہے، اس مرتبہ سے پہلے اوپر مذکور متعدد اسباب کشش کے باوجود جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ حاضری کا موقع نہیں ملا تھا۔ خیر ، لكل أجل كتاب ۔
جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ کا قیام اور اس کی تعمیر و ترقی درحقیقت انسانی عزم و حوصلہ اور اللہ پر توکل کے ثمرات کا ایک بہت ہی خوبصورت سا مظہر ہے، آج ریاستی شاہراہ سے بالاساتھ تک پہنچنے کے لئے بڑی حد تک مناسب سڑک بن گئی ہے، لیکن جس دور میں حضرت مولانا عبد الحنان قاسمی صاحب رحمہ اللہ نے اس کی بنیاد رکھی تھی، صورت حال یہ تھی کہ تعمیری کاموں کے لئے خام مواد ادارہ کے محل وقوع سے بہت دور دوسری بستی ہی میں ٹرکوں سے اتار لینا پڑتا تھا، وہاں سے ہزار جتن سے چیزیں ادارے کی جگہ تک پہنچتی تھیں، اس شخص پر کیسی دھن سوار تھی، اللہ پاک پر کیسا بھروسہ تھا، اپنے علاقے کو دینی علم کے نور سے منور کرنے کی کیسی تڑپ تھی کہ ظاہری طور پر ہونے والی اتنی ساری مشکلات کے باوجود وسیع و عریض رقبے پر علم دین کی نشرو اشاعت کے لئے ایک بڑا ادارہ کھڑا کردیا۔ اور میرے علم کے مطابق حضرت مولانا عبد الحنان قاسمی صاحب رحمہ اللہ نے دوسرے علوم نافعہ کے لئے بھی گاؤں اور اطراف میں کئی تعلیم گاہیں قائم کی ہیں۔ ان کے جواں ہمت فرزند مولانا قاری حفظ الرحمن صاحب مہتمم جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ سے توقع اور امید یہی ہے کہ حضرت مولانا عبد الحنان قاسمی صاحب رحمہ اللہ نے جو علمی و تعلیمی باغ اپنے خون جگر سے سینچ کر ان کے سپرد کیا ہے، اسے خوب تر و تازہ رکھیں گے، زیادہ سے زیادہ ثمرآور بنانے کے لئے کوشاں رہیں گے اور علاقے کا تعلیمی و تربیتی اعتبار سے نمایاں ادارہ بنا کر رکھنے کی کوشش کریں گے، اللہ عزوجل ان کو اور ان کی پوری ٹیم کو توفیق دے کہ اس ادارے کو تعلیم و تربیت کا ایک مثالی ادارہ بنانے اور بنا ئے رکھنے کے لئے سدا کوشاں رہیں۔
خیر، جب گیارہ ساڑھے گیارہ بجے دن میں جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ کے صدر دروازہ پر پہنچا، تو دیکھا کہ صدر دروازہ بند ہے، اس کے سامنے ایک گاڑی کھڑی ہے، بغلی دروازہ کھلا ہے۔ میں نے بھی جیسے ہی اس گاڑی سے متصل اپنی گاڑی کھڑی کروا کر بغلی دروازے کے پاس آکر گیٹ کیپر سے پوچھنا چاہا کہ کیا وہ گیٹ کھول دیں گے؛ تاکہ ہم گاڑی احاطہ کے اندر کسی مناسب جگہ پر پارک کر دیں؟ میرے سوال کرنے سے پہلے ہی اس بندہ خدا نے پر رعب آواز میں کہا کہ گاڑی گیٹ سے ہٹا کر لگائیں اور کس سے ملنا ہے ؟ یہ بتائیں۔ میں نے عزیزی مولانا رشید احمد عادل قاسمی سلمہ کو کہا کہ آس پاس کوئی مناسب جگہ دیکھ کر گاڑی پارک کر دیں اور گیٹ کیپر کی خدمت میں عرض کیا کہ مہتمم صاحب اور قاضی عمران صاحب سے ملنا ہے، ارشاد ہوا مہتمم صاحب تو نہیں ہیں؛ البتہ سامنے جو مختصر سی عمارت دکھائی دے رہی تھی، اس کے پہلے فلور کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ دار القضا ہے، قاضی صاحب سے یہیں ملاقات ہوگی۔ شکریہ ادا کر کے ہم اسی بغلی دروازے سے جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ کے وسیع احاطہ میں داخل ہوئے، پختہ، شاندار سلیقے سے بنی ہوئی صاف ستھری سڑک ہمارے قدموں تلے تھی۔
میں نے سوچا کہ قاضی عمران قاسمی صاحب سے پیشگی اجازت حاصل نہیں کی ہے؛ اس لئے فون سے رابطہ کر کے حاضری کی اجازت لے کر حاضر ہوتا ہوں، دار القضا کی عمارت کے نیچے کھڑے ہوکر ایک دو بار کال لگائی؛ لیکن ریسیو نہیں ہوا، خیال ہوا پہلے حضرت مولانا عزیر اختر قاسمی صاحب زید مجدہ سے ملاقات کر لیتا ہوں اور ادارہ کی تعمیرات کو بھی اک نگاہ دیکھ لیتا ہوں ، پھر قاضی عمران قاسمی صاحب کی خدمت میں حاضری دیتا ہوں۔ ہمارے سامنے مسجد تھی، اس کی دیوار قبلہ کی طرف سے ایک چھوٹا سا راستہ سامنے کی بلڈنگ کو جاتا دکھائی دیا، اسی پر ہم ہو لئے، جیسے ہی ہم اس راستہ سے پختہ صاف ستھرے راستے پر آئے ، جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ کے وسیع احاطہ کی چوطرفہ خوبصورت تعمیرات نگاہوں کے سامنے تھیں، چند پل کے ٹھہر سا گیا۔ دائیں ہاتھ پر سادی، مگر خوب کشادہ مسجد تھی ، مسجد سے متصل مغربی حصے میں ایک بلڈنگ تھی، بعد میں معلوم ہوا کہ ادارہ کی سب سے پہلی بلڈنگ ہے اور اب درسگاہ کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے، احاطہ کے بیچوں بیچ ہرا بھرا، سنگی نشستوں سے لیس نہایت ہی خوبصورت اور سلیقے سے بنا ہوا پارک دل و نگاہ کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا، تھوڑی دیر اس حسین منظر میں کھویا رہا، پھر سامنے گذر رہے ایک طالب علم سے کہا کہ مولانا عزیر اختر قاسمی صاحب تک ہماری رہنمائی کریں، اس نے کہا کہ ابھی کھانے کا وقت ہے اور وہ ابھی دار الطعام ہی میں ہوں گے، مغربی ہی جانب مسجد اور ایک بلڈنگ کے بعد دار الطعام کی عمارت ہے، جس سے متصل مطبخ کا اسٹور اور مطبخ ہے، اس طالب علم کی رہنمائی میں دار الطعام کے دروازے تک پہنچا ، وہاں چند اساتذہ کرام کو دار الطعام سے نکلتے دیکھا، ان سے علیک سلیک کیا، باہم تعارف ہوا، ان حضرات سے بات ہوتی رہی، انہوں نے دارالطعام کا منظر دکھایا، طلبہ فرشی نشست پر بیٹھے تھے، سامنے کھانا رکھ کر کھانے کا نظم تھا، ان حضرات نے بتایا کہ پلیٹیں لگائی جاتی ہیں، پھر چند بڑے طلبہ مطبخ کے عملہ کے ساتھ مطبخ کے ذمہ دار اساتذہ کی نگرانی میں اپنی نشستوں پر بیٹھے طلبہ کو کھانا سرو کرتے ہیں، دارالطعام صاف ستھرا دکھائی دے رہا تھا، اور کھانے پینے کا پورا نظم سلیقے سے چلتا محسوس ہو رہا تھا، دل پر بڑا اچھا تاثر ہوا۔واقعی ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام تعلیمی اداروں میں کھانے پینے کا معیار مناسب اور صحت افزا رکھا جائے اور طلبہ کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں سرو بھی کیا جائے۔
حضرت مولانا عزیر اختر قاسمی صاحب ابھی دارالطعام ہی میں تھے، چند منٹ ہم ان اساتذہ کے ساتھ دارالطعام کے باہر کھڑے رہے، گفتگو ہوتی رہی، پھر مولانا تشریف لائے، ہمیشہ کی طرح بڑی شفقت اور محبت سے ملے، میں نے عرض کیا کہ آپ حضرات سے ملاقات اور جامعہ کی زیارت کے لئے حاضری ہوئی ہے، خوش ہوئے دعائیں دی اور بات کرتے ہوئے فرمانے لگے : آئیے میرے ساتھ، میں چلنے لگا، کہنے لگے، میرے ساتھ ہی پورے ادارے میں گھوم لیجئے، دارالطعام سے متصل مطبخ تھا، وہاں لے گئے، مطبخ صاف ستھرا تھا، روٹی پکانے کی مشین، اس کے علاوہ اور بھی بعض نئی سہولت کی چیزوں سے لیس تھا، پھر شمالی جانب کی بلڈنگ دکھائی اور بتایا کہ یہ طلبہ کا ہاسٹل ہے، گراؤنڈ فلور اور فرسٹ فلور دونوں پر ایک ایک کمرے اساتذہ کے لئے ہیں؛ تاکہ طلبہ کی نگرانی ہو سکے، شمال اور مشرق دونوں طرف طلبہ کے کھیلنے کے لئے میدان ہے، دونوں میدانوں کے درمیان مشرقی سمت میں صاف ستھرا کشادہ مہمان خانہ ہے، مہمان خانہ سے متصل مشرقی ہی سمت میں ایک شاندار بلڈنگ بیاد گار حضرت مولانا عبد الحنان قاسمی صاحب رحمہ اللہ ہے، جو طلبہ کے ہاسٹل اور اساتذہ کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے، اس بلڈنگ سے تھوڑے سے فاصلہ پر متوسط درجہ کی ایک بلڈنگ ہے، یہ جامعہ کی پبلک لائبریری ہے، درسی کتابوں کی لائبریری درسگاہ والی عمارت میں ہے۔ پھر پارکنگ وغیرہ ہے اور جنوبی سمت اونچی دیوار نے جامعہ کے احاطہ کو گھیر رکھا ہے، مشرقی سمت میں مسجد کے باب الداخلہ سے کچھ ہٹ کر ایک گول سی مختصر سی تعمیر دکھائی دی، پتا چلا کہ یہ مولانا حفظ الرحمن صاحب مہتمم جامعہ کا دفتر ہے، تعمیری نقطہ نظر سے بھی یہ آفس دیدہ زیب محسوس ہوئی اور انتظامی نقطۂ نظر سے بھی بہت مناسب اور معقول محسوس ہوئی کہ وہ ایسے محل وقوع پر اور اتنی بلند ہے کہ وہاں سے بیٹھ کر سارے جامعہ پر نگاہ رکھی جا سکتی ہے، اور پارک سے اتنی لگی ہوئی ہے کہ انتظامی خشک امور کی انجام دہی کے وقت، باغ کے اندر ہونے کا احساس، یک گونہ تازگی بھی بخشتا ہوگا۔
مولانا عزیر اختر قاسمی صاحب زید مجدہ کے ساتھ جامعہ کو دیکھنا بڑا اچھا لگا، ہر چیز کو یک گونہ تفصیل سے بتایا، تقریبا آدھے گھنٹے کے اس دورانیہ میں مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوتا رہا، مولانا کی شفقتوں نے بہت متاثر کیا، باصرار درخواست کیا کہ وہ آرام کرنے جائیں، کیوں کہ انہوں نے بتایا تھا کہ یہ ان کے آرام کا وقت ہے اور بعد ظہر ان کا درس بھی ہے۔
ہم لوگ دار القضا کی عمارت کی طرف آگئے، بارہ سوا بارہ بجے دوپہر کا وقت تھا، حضرت قاضی محمد عمران قاسمی صاحب زید مجدہ کسی ضرورت سے چند منٹ کے لئے کہیں کیمپس ہی میں گئے ہوئے تھے، ہم منتظر تھے، چند منٹوں میں تشریف لائے، بے انتہا شفقت سے ملے، اپنی آفس میں بٹھایا، میں نے عرض کیا کہ قاضی صاحب! مجھے بہت گرانی ہوگی اور رنج ہوگا ، اگر میری وجہ سے آپ کے کسی کام میں خلل ہو، فرمانے لگے : میرا معمول یہ ہے کہ صبح سے گیارہ بجے تک تدریسی ذمہ داری میں رہتا ہوں، پھر اس کے بعد سے رات تک کار قضا اور دوسرے دینی، علمی اور سماجی کاموں میں لگا رہتا ہوں، اور یہ کہ آپ جیسے عزیزوں کی وجہ سے کام میں خلل نہیں ہوتا ہے، کام بھی ہوتا رہے گا، باتیں بھی ہوتی رہیں گی۔
دو بجے دوپہر تک ان کے ساتھ بیٹھا رہا، اس درمیان دار القضا کی دو تین کاروائی دیکھنے کا موقع ملا، تربیت قضا میں میں نے جو کچھ سیکھا تھا، اس نشست میں اس کی عملی تطبیق سے متعدد باتیں سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔
خوشی ہوئی کہ قاضی صاحب کی نگاہ سے میری تین کتابیں "فسخ و تفریق ، اولاد کی تربیت…، اور النسخ في القرآن…” گزری ہیں، میں نے اپنی چوتھی کتاب "بین المذاہب تعلقات اور اسلام ” کے بارے میں انہیں بتایا، میری ان تصنیفی کاوشوں پر جس اطمینان اور حوصلہ افزائی کا اظہار فرمایا، وہ میرے لئے باعث شرف ہے اور علمی و تحقیقی کام کرنے کے لئے مہمیز کا بھی سبب ہے، اس لئے کہ بڑوں کی حوصلہ افزائی خوردوں کے لئے ہمیشہ سرمایہ افتخار اور عمل کے جذبے کو مہمیز کرنے والی ہوتی ہے۔
قاضی عمران صاحب نے بعض تشنہ علمی کاموں کی طرف رہنمائی بھی فرمائی، اور ایک دو فقہی کام کے حوالے سے تاکید بھی کی کہ مجھے انہیں ضرور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ، اس کے علاوہ مختلف نجی، سماجی اور معاشرتی مسائل پر گفتگو ہوتی رہی، درمیان میں کئی لوگ چھوٹے چھوٹے کام لے کر آتے رہے، قاضی صاحب انہیں بھی حل کرتے رہے، میں نے جب کئی بار عرض کیا کہ تھوڑا آرام فرمالیں: تو کہنے لگے کہ لاک ڈاؤن کے زمانے میں تیرہ چودہ ماہ ایک شدید مرض میں گزارا ہے، اس مدت میں نہ تو سونے ہی میں چین تھا، نہ بیٹھنے میں اور نہ ہی کھڑے رہنے میں، اب الحمدللہ مکمل طور پر صحت یاب ہوں، اب کاموں کے سلسلے میں یہ عزم مصمم کر لیا ہے کہ "کرتے کرتے مرنا ہے اور مرتے مرتے کرناہے”۔
قاضی صاحب کی شخصیت بہت ہی تہ دار ہے، وہ ایک بہترین مدرس ہیں، طلبہ کے لئے نہایت ہی شفیق مربی ہیں، اپنے تجربہ کے اعتبار سے چند گنے چنے قاضیوں میں ہیں، کار قضا کی وجہ سے زمین سے جڑے ہیں، ارد گرد کے احوال اور مسائل سے خوب آگاہ ہیں، اور ان کے حل کے لئے نہ صرف فکرمند رہتے ہیں؛ بلکہ کوشاں بھی رہتے ہیں۔
علاقے میں جہاں بھی مسجد کی تعمیر کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لئے اپنی وسعت بھر کسی بھی طرح کے تعاون سے گریز نہیں کرتے ہیں، علاقے اور اطراف و جوانب کی دینی و اصلاحی نشستوں میں کثرت سے شرکت کرتے ہیں اور لوگوں کی مختلف معاملات میں رہنمائی فرماتے رہتے ہیں۔
قاضی صاحب نے فرمایا کہ وہ ہر دینی و اصلاحی مجلس میں حسب موقع اجمال یا تفصیل سے بیٹی کی وراثت میں ہونے والی کوتاہی پر ضرور تنبیہ کرتے ہیں، اسی طرح یتیم پوتے پوتیوں کے تئیں دادا اور چچا وغیرہ کی ذمہ داریوں کو اور ہمارے علاقے کے پس منظر میں اس مسئلہ کی بعض پیچیدگیوں کو سلجھا کر یتیم پوتے پوتیوں کے حقوق کی وضاحت کرتے ہیں ۔ بحمد اللہ اب تک بہت سے لوگوں نے ان دونوں مسائل میں ان کی نصیحتوں کی وجہ سے راہ حق اختیار کیا ہے اور صاحب حق تک ان کا حق پہنچایا ہے۔ قاضی صاحب نے فرمایا کہ تیسری بات جو عوامی سطح پر بہت تاکید سے میں کہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں مشترکہ خاندانی نظام زیادہ تر ، بہت ساری خرابیوں کا سبب اور خاندان کو توڑنے کا ذریعہ بنتا ہے، اسی لئے میں اپنی گفتگو میں لوگوں کو اس بات پر ابھارتا ہوں کہ بچوں کے نکاح کے بعد ان کو علیحدہ کردیا جائے اور ان کو اپنے طور پر زندگی گزارنے دیا جائے، اس سے خاندانی نظام مستحکم رہتا ہے، اور صالح اور پرامن معاشرہ تشکیل پاتا ہے، اور خاندان میں پائیدار محبت رہتی ہے۔
قاضی صاحب کے کار قضا کی انجام دہی کے دوران مختلف بیک گراؤنڈ کے لوگوں سے ملنے جلنے کی وجہ سے ، اور دینی و علمی نشستوں میں شرکت کے لئے علاقے و خطے کے دوروں میں یہ بات دیکھی اور جانی کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ہمارے ارد گرد ایسا ہے، جو دین کی مبادیات سے بھی بے بہرہ ہے اور بطور مبالغہ نہیں؛ بلکہ حقیقی معنوں میں صرف نام کا مسلمان ہے، اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے انہوں نے "دین سب کے لئے” کے عنوان سے تعلیمی و تربیتی پروگراموں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے، جس کے تحت ہر پندرہ دن کے بعد کسی گاؤں میں جمعرات کی دوپہر سے جمعہ کی عشاء کی نماز تک پروگرام چلتا ہے، اس میں گاؤں اور اس گاؤں کے اطراف کے پچیس لوگ پیشگی رجسٹریشن کرا کر شرکت کرتے ہیں، قاضی صاحب بنفس نفیس اس پروگرام کی نگرانی فرماتے ہیں اور پانچ پانچ لوگوں پر ایک معلم و مربی ہوتے ہیں، جو طے شدہ منہج کے مطابق دین کی بنیادی اعتقادی اور عملی باتیں سکھاتے ہیں، چند سورتیں حفظ کراتے ہیں۔
تمام شرکاء اور مربیوں کے جمعرات کے دوپہر سے جمعہ کے عشائیہ تک کے کھانے پینے کا نظم کیا جاتا ہے، مربیوں (جو اس پروگرام کی اصطلاح میں "مذکر ” -کاف کے تشدد اور زیر کے ساتھ- کہلاتے ہیں) کو ان کی محنت پر اکرامیہ پیش کیا جاتا ہے، پچیسوں شرکا سے ایک عہد لیا جاتا ہے کہ آئندہ وہ زیادہ سے زیادہ دین کو سیکھنے کی کوشش کریں گے اور دین پر ثابت قدم رہنے کی بھی کوشش کریں گے۔ شرکاء کو بھی دین کی بنیادی باتیں سیکھنے پر کچھ انعامات سے نوازا جاتا ہے۔
بہت تفصیل سے قاضی صاحب نے کام کے ماڈل اور عملی تجربات اور اس کے فوائد کا ذکر کیا، دعا ہے کہ اللہ پاک ان کے کام کو قبول کرے اور ان کی مدد و نصرت فرمائے۔ ہم اور آپ کئی طرح اس کار خیر میں ان کے معاون ہوسکتے ہیں:
1۔ اپنے گاؤں سماج میں اس کام کے ماڈل کو بہتر انداز میں بیان کریں، پھرایسے لوگوں کی شناخت کریں جن کی دینی معلومات نہ کہ برابر ہو، انہیں ترغیب دیں کہ وہ بغیر کسی حجاب کے اس پروگرام کے لئے رجسٹریشن کرائیں کہ یہاں دین سیکھ کر اس پر عمل کر کے میدان حشر میں سرخروئی اس سے ہزارہا ہزار درجہ بہتر ہے کہ یہاں دین سیکھنے میں شرمائیں اور میدان حشر میں ساری انسانیت، جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خود اللہ عزوجل کے سامنے رسوا ہوں۔
2۔ اگر آپ پختہ دینی علم رکھتے ہیں، تعلیم و تربیت کا تجربہ بھی ہے اور علاقے اور سماج میں وقت بھی دے سکتے ہیں، تو قاضی صاحب سے تربیت لے کر بطور مذکر خدمت انجام دے سکتے ہیں۔
3۔ اس سلسلے کے ایک پروگرام میں جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، تقریبا چالیس سے پچاس ہزار کے اخراجات آتے ہیں، جو کھانے پینے، شرکاء کو تحفے و انعامات اور مذکر کے اکرامیہ کو شامل ہیں، آپ اپنی استطاعت کے بقدر پورے پروگرام کو اسپانسر کر سکتے ہیں، یا اس کے کسے خاص اخراجات کو اٹھا سکتے ہیں یا اپنی مالی حیثیت کے اعتبار سے تھوڑی یا زیادہ رقم اس پروگرام کے مد میں دے سکتے ہیں۔
ظہر کی اذان ہوئی، قاضی صاحب کے ساتھ جامعہ کی مسجد میں نماز ادا کی، حکم ہوا کہ میرا کھانا گھر سے آرہا ہے، میرے ساتھ اس میں بھی شریک ہو جاؤ، عرض کیا: ضرور، قاضی صاحب کے فرزند کھانا لے کر آئے ، ساتھ کھانا کھایا، کھانے پر بھی کئی موضوعات پر بات ہوتی رہی، جن میں سب سے خاص یہ موضوع تھا کہ موجودہ عہد میں یہاں کے جلسوں میں نعت خوانی کے نام پر جو طوفان بدتمیزی بپا رہتی ہے، اس کے بارے میں بیداری لانے کی ضرورت ہے اور نعت خوانی اور اس کے صحیح طریقے اور منہج کی وسیع پیمانے پر وضاحت کی ضرورت ہے؛ تاکہ نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر طوفان بدتمیزی نہ کی جائے اور نہ نعوذ باللہ اس کی حوصلہ افزائی ہو۔
تین سوا تین بجے سہ پہر کے آس پاس جامعہ سے روانگی ہوئی، ان چند گھنٹوں میں جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ کو دیکھا، یہاں کے بعض اساتذہ سے ملاقات ہوئی، مولانا عزیر اختر قاسمی صاحب سے استفادہ کیا اور قاضی محمد عمران قاسمی صاحب کی بیش قیمت مجلس سے دامن بھر کر علم و تجربات لے کر اٹھا۔
میرے جامعہ میں حاضری کے چار مقاصد میں سے دو تشنہ رہ گئے، ایک یہ کہ مولانا قاری حفظ الرحمن صاحب مہتمم جامعہ کی غیر موجودگی کی وجہ سے ان سے ملاقات نہ ہو سکی، اللہ عزوجل نے چاہا تو جامعہ کی اگلی زیارت میں ملاقات ہوگی، دوسرے یہ کہ غالبا جمعرات کو چھٹی کے بعد میرے پہنچنے کی وجہ سے لائبریری بند تھی، اس لئے لائبریری سے استفادہ نہ کر سکا۔
جامعہ کا انفراسٹرکچر بہت ہی خوبصورت اور عمدہ ہے، پورا کیمپس صاف ستھرا اور ہرا بھرا ہے، سلیقے سے راستے بنے ہیں، سی سی کیمرے لگے ہیں، دعا ہے کہ اللہ عزوجل مولانا قاری حفظ الرحمن صاحب اور ان کی پوری ٹیم کو یہ توفیق دے کہ جامعہ کو معنوی یعنی تعلیمی و تربیتی اعتبار سے خوب بلندیوں پر لے جائیں اور پورے علاقے اور خطے کے لئے ایک مثالی ادارہ بنا کر رکھیں۔ اور کیا ہی بہتر ہو اگر دار القضا کی عمارت کو بھی مزید کشادہ کردیا جائے، اور دار القضا کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے، جدید سہولیات سے لیس دو تین کمروں اور ایک چھوٹے ہال پر مشتمل بلڈنگ بنائی جائے؛ تاکہ جامعہ کے عمومی معیاری انفراسٹرکچر کے ہم آہنگ ہو جائے۔اللہ عزوجل جامعہ کو ظاہری و معنوی ترقیات سے نوازے، اور یہاں کے اساتذہ و طلبہ اور انتظامیہ کو دنیا و آخرت میں سعید و نیک بخت بنائے اور انہیں دین اور علم دین کی خدمت سے وابستہ رکھے۔