( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
تین اہم باتیں ہوئی ہیں ، ایک تو وزیراعظم نریندر مودی نے برکس سربراہی اجلاس میں زور دیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف سب کو ، یعنی تمام ممالک کو ، متحد ہوکر کھڑا ہونا ہوگا اور اس معاملہ میں دوہرا رویہ اپنانے سے بچنا ہوگا ۔ اور دوسرا یہ کہ فساد زدہ بہرائچ میں پی ڈبلیو ڈی نے بدھ ۲۳ ، اکتوبر کے روز پھر سے لوگوں کو ’ ڈیمولیشن نوٹس ‘ جاری کیا ہے ۔ اور تیسرا یہ کہ بہرائچ فساد میں جن دو ہندو نوجوانوں پریم کمار اور سبوری مشرا کو پولیس نے گرفتار کیا ہے ، اُن کے بارے میں ذرائع کا یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ دونوں کا کہنا ہے کہ پولیس والے دو گھنٹہ کے لیے ہٹ گیے تھے ، لوگوں نے غداری کی ورنہ گوپال گنج ختم ہوجاتا ۔ مذکورہ تینوں باتوں میں کیا کوئی ربط ہے ؟ ہاں ، فرقہ پرستی ، دہشت گردی اور تشدد کا ربط ۔ وزیراعظم نریندر مودی بیرون ممالک جاکر اور عالمی سربراہی اجلاسوں میں دہشت گردی کے خلاف پوری شدت سے آواز اٹھاتے ہیں اور ساری دنیا پر زور دیتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے سب کو یکجٹ ہوکر کام کرنا ہوگا ، لیکن اپنے ہی دیش بھارت میں دہشت پھیلانے والے گروہوں کے خلاف ان کی زبان نہیں کھلتی ! یہ بات بہت واضح ہوکر سامنے آ گئی ہے کہ بہرائچ کا فساد منصوبہ بند تھا ، اور یہ بات بھی لوگ کہہ رہے ہیں کہ یو پی میں بی جے پی کے اندر جو آپسی رنجش ہے ، اور جس طرح یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی اور مرکز کے بیچ ٹھنی ہوئی ہے ، اس سب کے نتیجہ میں بہرائچ کو جلایا گیا ۔ یعنی بہرائچ کا جلایا جانا سیاسی مقصد سے تھا ۔ انگریزی کے ایک نیوز پورٹل ’ دی وائر ‘ نے تفصیلی رپورٹ دی ہے کہ کیسے ہندتوادی عناصر نے مسلمانوں کے گھروں کو اور دکانوں کو لوٹا اور انہیں آگ کے حوالے کر دیا ۔ پریم کمار اور سبوری مشرا کا جو مبینہ بیان سامنے آیا ہے کہ پولیس دو گھنٹہ کے لیے ہٹ گئی تھی ، اگر اس میں سچائی ہے ، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک بار پھر یو پی کی پولیس کا متعصبانہ چہرہ سامنے آ گیا ہے ۔ لیکن اگر پولیس دو گھنٹہ کے لیے ہٹ گئی تھی تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں نکلتا کہ اس کے لیے اسے اوپر سے اشارہ تھا ! یوگی کی سرکار پر اب کسی بھی طرح کا بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ، وہ فرقہ وارانہ تشدد کے بَل پر اپنی سیاست چمکانے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ ان کا بس چلے تو وہ یو پی کے ہر اُس شخص کے گھر پر بلڈوزر چڑھا دیں ، جن سے انہیں انہیں ازلی بیر ہے ، یعنی مسلمان ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے صریح حکم کے باوجود ان کی حکومت نے رہائشیوں کو ’ ڈیمولیشن نوٹس ‘ تھما دیے ہیں ، اور جنہیں نوٹس تھمایا گیا ہے اُن میں وہ متاثرین شامل ہیں جن کے گھروں کو لوٹا اور جلایا گیا ہے ۔ جنہیں نوٹس دیا گیا ہے اُن میں ۶۲ سالہ سُنار عبدالحمید بھی شامل ہیں جنہیں ان کے تین بیٹوں اور ایک پڑوسی سمیت ، مشرا نامی اس نوجوان کو ، جس نے گھر کی چھت پر چڑھ کر سبز پرچم نکالا اور اس کی جگہ بھگوا جھنڈا لہرایا تھا ، گولی مار کر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے ۔ بہرائچ ایک پسماندہ ضلع ہے ، فرقہ وارانہ تشدد کے ذریعہ وہاں کی معیشت کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے ، اور لوگوں میں ، بالخصوص مسلم اقلیت میں خوف و ہراس کی لہر دوڑائی گئی ہے ۔ یوں تو بہت سے لوگ پہلے ہی محفوظ ٹھکانوں میں پناہ لے چکے ہیں ، اب ’ ڈیمولیشن نوٹس ‘ کے بعد لوگوں میں مزید ڈر پیدا ہو گیا ہے ، اور بہت سے لوگ گھروں اور دکانوں سے اپنے سامان نکال کر پناہ تلاش کرتے گھوم رہے ہیں ۔ منصوبہ بندی سے اپنے ہی شہریوں کو تباہی اور بربادی کی بھینٹ چڑھانے والے یو پی کے سیاست دانوں کے خلاف کیا کوئی کارروائی ہوگی ؟ اس سوال کا جواب یوگی حکومت کے عمل میں تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ سِول سوسائٹی کو حرکت میں آنا چاہیے ، اور یہ جو جمہوریت ، سیکولرزم اور انسانی اقدار کو ملیا میٹ کرنے پر اتارو ہیں ان کے خلاف زوردار آواز اٹھانی چاہیے ، کیونکہ اگر یہ عناصر مسند پر جمے رہے تو بھارت ترقی نہیں کر سکے گا ، تباہی اور بربادی ہی اس کا مقدر ہوگی ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)