مدرسہ طیبہ منت نگر مادھوپور مظفرپور
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام کی امتیازی تعلیمات میں سے سب سے اہم تعلیم امانت داری اور دیانت داری کی تعلیم ہے،اور اس اسلامی تعلیمات کو عوام الناس تک پہنچانے میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اہم ترین کردار ادا کر کے امت مسلمہ کو یہ درس دیا کہ زندگی کے ہر موڑ پر امانت داری اور دیانت داری کا خاص خیال رکھیں ، اس سے بڑی نصیحت اس دور میں کوئی نہیں ہوسکتی،دور حاضر کا المیہ یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ کے رسمی سفرا میں امانت داری اور دیانت داری کا فقدان ہے،ان میں بددیانتی دن بدن بڑھتی جارہی ہے،لیکن نہ کسی ادارے اور نہ کسی تنظیم اور نہ ہی کسی عالم دین نے اس مسئلے پر اظہار خیال کی جرات کی ہے، رمضان المبارک کا مہینہ اپنی تمام تر رحمتوں،برکتوں کے ساتھ سایہ فگن ہے،اس مقدس مہینے میں مدارس اسلامیہ کے اساتذہ وذمے داران، مدارس کو استحکام بخشنے کے لئے بڑی تعداد میں چندہ کی غرض سے ملک و بیرون ملک کے سفرپر نکلتے ہیں،اس موقعے پر بعض اہلِ مدارس امانت و دیانت کو بالائے طاق رکھ کر شریعت کے تمام اصول و ضوابط کے حدود کو پار کرکے نہایت بے غیرتی اور بے حیائی کے ساتھ اپنی ذاتی منفعت کے لئے چندہ جیسا عظیم کام جو مدرسہ کے تحفظ کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے،،ایسے کام کے نام پر ایسے ایسے شرمناک حربے اور حیلے استعمال کئے جارہے ہیں جو پورے علما طبقہ کو بدنام کرنے کے لئے کافی ہیں،پورے ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مدارس کے سفرا کا تصدیق نامہ اور تعارفی کارڈ کا بنظر غائر مطالعہ کیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں کتنی صداقت ہے ،بعض اہل مدارس تو اتنی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں کہ جس کو سن اور پڑھ کر ایسی دلی تکلیف پہنچتی ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا،بعض سفرا حضرات تو دروغ گوئی میں اس درجہ بڑھے ہوئے ہیں کہ انہیں اپنی عاقبت کی بھی پروا نہیں،ماہ رمضان کے آتے ہی رسمی سفرا میں بددینی بڑھ جاتی ہے اور بعض میں تو اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ ان کو نہ نماز نہ تراویح اور نہ روزے سے کوئی تعلق ہوتا ہے،بس ان کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے روپے بٹورنا،ان کی بد احتیاطیوں کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ شہروں کے 5 اسٹار ہوٹلوں کی زینت بنتے ہیں اور اس مبارک مہینے کی قدردانی کے بجائے اس کی بے حرمتی کرتے ہیں،اور دن میں ہی خوب مزے سے کھاتے ہیں جو نہایت افسوس اور شرم کی بات ہے۔ کسی بیان کرنے والے نے راقم سے کہا کہ کیا بتاوں رمضان میں تو میں نے ممبئی جیسے شہروں کے ہوٹلوں میں پردہ لگا دیکھا اور اس میں سفراء کرام کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھا،بعض ذمے داران مدارس تو طلبہ کی تعداد اس قدر چڑھا بڑھا کر لکھتے ہیں جو واقعہ کے خلاف ہوتا ہے،طلبہ کی تعداد جہاں صفر ہوا کرتی ہے،وہاں ارباب مدارس سو لکھتے ہیں،اور جہاں طلبہ کی تعداد سو ہوتی ہے وہاں دوسو لکھتے ہیں جو محض جھوٹ ہے۔
اس ماہ میں متعدد مدارس کی طرف سے یہ دھاندلی بھی سامنے آتی ہے کہ وہ پرانی رسید پر گذشتہ سال کی دی گئی رقم کو بڑھا کر یعنی سو روپے کو ہزار روپے بناکر چندہ دینے والے کے سامنے پیش کرتے ہیں،اور اس طرح ان سے زیادہ رقمیں وصول کرتے ہیں،جو ادارہ کے لئے بدترین نقصان کا باعث ہے،سال گذشتہ راقم بہار شریف کے سلیم پور محلہ کی ٹاون مسجد میں قیام پذیر تھا،سفرا کی آمدو رفت اس مسجد میں رمضان کے موقع سے کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے،بہار شریف کے باشندگان بڑے ہی خوش نصیب ہیں کہ وصول الی اللہ اور رضائے الہی کے لئے آنے والے سفرا وارباب مدارس کی خدمت کو اپنے لئے سعادت سرمدی سمجھ کر خوب خاطر مدارات کرتے ہیں،افطار میں نہایت لذیذ اشیا، ٹھنڈی مشروبات کا اہتمام ہوتا ہے،سحری کے موقع پر بعض مخیر حضرات کے یہاں دسترخوان کی یہی وسعت ہوتی ہے،یہاں سحری میں چاول کھانے کا رواج نہیں ہے،اس لئے صرف روٹیاں اور خشک غذا ہی ہوتی ہیں،الغرض راقم کی ایک سفیر سے ملاقات ہوئی،تین دن کی ملاقات نے اجنبیت کو ختم کرکے دوستی کے ہاتھ کو کچھ زیادہ ہی دراز کردیا،ایک رات راقم اس وقت جب وہ سفیر اپنی پرانی رسید پر لکھی رقم میں رد و بدل کررہا تھا ، چپکے سے ان کے قریب پہنچا اور بہت دیر تک ان کے پیچھے سے اپنی کن انکھیوں سے دیکھتا رہا ، بالآخر رہا نہ گیا اور کوسنے لگا کہ بھائی بددیانتی نہ پھیلاو اسلام کو بدنام نہ کرو ،آپ جیسے لوگوں نے علما طبقہ کو بدنام کر رکھا ہے،اللہ حفاظت فرمائے ایسے سفیروں سے مدارس اسلامیہ کی،کتنے ایسے مخیر حضرات ہیں جو ہر سال لاکھوں روپے کی زکوہ نہایت ادب و احترام اور اکرام کے ساتھ سفرا کو تقسیم کرتے ہیں،ایسے ہی سفرا کی بے ایمانی و بددیانتی کی وجہ سے بڑے بڑے صاحب خیر حضرات نے یا تو بدظن ہوکر مدارس کو زکوۃ دینا بند کردیا ہے یا وہ اپنی ساری رقم کسی ٹرسٹ کے حوالہ کردیتے ہیں،انہی چند لوگوں کی شرمناک حرکتوں کی وجہ سے تمام مدارس اسلامیہ سے لوگوں کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے،یہی وہ نادان اور کم عقل سفیر ہیں جو چند ٹکوں کی خاطر ، اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لئے ، اپنا چولھا گرم کرنے کے لئے ،مدارس کی بنیاد کو کھوکھلا کر رہے ہیں،اگر بر وقت ان مدارس کو ایسے سفیروں سے بچایا نہ گیا ، تو مدرسوں کا سخت ترین نقصان ہوگا،سفرا ذرا سوچیں ،اگر اہل مدارس امانت داری اور دیانت داری کی رسی کو چھوڑ دیں گے تو آخر دنیا میں کونسی مخلوق ہے جو امانت دار اور دیانت دار کہلائے گی ،اس طرح کی دھاندلی، بددیانتی اور دروغ گوئی سے سفرا پرہیز کریں،جن مدارس اسلامیہ کے ذمے داران واساتذہ کرام اور سفرا بے ایمانی اور جھوٹ بول کر چندہ کریں گے،وہ کبھی بھی چین و سکون کی زندگی نہیں گزار سکتے،اور نہ ایسے ادارے سے ملت اسلامیہ کا کوئی فائدہ ہوگا،یقینا اس طرح کی حرکت کرنے والے دین اسلام کی بے عزتی کا ذریعہ بن رہے ہیں، ایسی ذلت و نکبت سے بچنے کے لئے ذمے داران مدارس اور سفراے کرام اپنے اندر دیانت اور تقوی پیدا کریں،اور اخلاص کے ساتھ کام کریں،اپنی مذموم حرکتوں سے دین اسلام کو بدنام نہ کریں،خدارا اپنی محدود دنیا کو بنانے کے لئے اپنی ابدی زندگی کو برباد نہ کریں،اور امت کے قیمتی سرمایہ کو جو امت کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ ہونا چاہیے اسے اپنے مفاد میں خرچ کرنے سے بے حد گریز کریں،اللہ تعالی ہم تمام علما، ارباب مدارس اور سفراے کرام کو للہیت کے ساتھ اپنے دین متین کی خدمت کے لئے قبول فرمائے۔ آمین