اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے
—بشیر بدر
بچپن کی دہلیز پار کرتے ہی بچپن کی یادیں، معصوم شرارتیں، نادانیاں، اٹکھیلیاں، پکڑن پکڑائی، جگنو تتلی سب یاد آتی ہیں اور دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش بچپن کے زمانے پھر لوٹ آتے، مگر وہ جنت گمشدہ کبھی واپس نہیں آتی۔ بس ایک حسرت سی رہ جاتی ہے۔ آپ نے سدرشن فاکر کا لکھا اور جگجیت سنگھ کا گایا ہوا یہ گانا ضرور سنا ہوگا:
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
محلے کی سب سے نشانی پرانی
وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی
وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈھیرا
وہ چہرے کی جھریوں میں صدیوں کا پھیرا
بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی
وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
ڈاکٹر عائشہ سمن کی کتاب ’بچپن: دھنک رنگ سا‘ جب دیکھی تو بچپن سے جڑی بہت سی باتیں ذہن کے پردے پر ابھرنے لگیں۔ انھوں نے اس کتاب کے عنوان کے ذریعے ہی بچپن کی بہت سی باتوں کا آموختہ یاد کرادیا ہے۔ اس کتاب میں بچپن کے وہ سارے کردار ہیں جن سے بچوں کو بڑی دلچسپی ہوتی ہے۔ تتلی، گڑیا رانی، راجہ بیٹا، بارش، سردی، سرکس، سبزی والی بائی، پیڑ پودے، روٹی، ٹیچر، کوا، غبارے یہ ایسی چیزیں ہیں جنھیں بچے کبھی بھول نہیں پاتے۔ اس کے علاوہ بچپن کی زندگی کا سب سے اہم ایک کردار ہے اور وہ ہے’ماں‘ جسے آخری سانس تک فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ عائشہ سمن کی اس کتاب میں بچپن کی وہ ساری فضا ہے، وہ سارا ماحول ہے جو بڑے ہونے کے بعد بھی ذہن سے محو نہیں ہوتے، بڑی خوبصورت سی نظم ہے ’دھنک رنگ سا بچپن میرا‘۔ یہ بچپن کی ایک خوبصورت تعبیر اور تصویر ہے:
تتلی یا کاغذ کی ناؤ/دھوپ ہو یا پیڑوں کی چھاؤں/ کھیلنا چاہیں کھیلیں کودیں/ دوڑیں بھاگیں اچھلیں کودیں/ شور مچائیں رنگ جمائیں/ بارش کے پانی میں نہائیں/ جب جو چاہے پاتا بچپن/ پیار بھرا مسکاتا بچپن/ امی ابا دادا دادی/ بھیا چاچا، نانا نانی/ سب کی آنکھ کا تارا بچپن/ ان سب کا ہی سہارا بچپن
بچپن کی کردار سازی میں جس کا سب سے کلیدی رول ہوتا ہے وہ کوئی اور نہیں وہ صرف اور صرف ماں ہے۔ دنیا کی سب سے خوبصورت نظم ماں کو عائشہ سمن نے اپنی ایک نظم ’بہت یاد آتی ہو ماں‘ میں یوں جذباتی خراجِ محبت پیش کیا ہے:
جو بیمار ہوں ہم/تڑپ جاتی تھیں تم/ مسیحائی کرتیں/ دوائیں پلاتیں/ گلے سے لگاتیں/ تھپکتیں… سلاتیں/ وہ پیار و محبت/ وہ شفقت، وہ چاہت/ حمایت مروت/ تمہاری سخاوت
پڑھا کر، لکھا کر کہ انساں بنانا…/ میں جب جب بھی سوچوں تو ہاں…/ بہت یادآتی ہو ماں…/ بہت یاد آتی ہو ماں…
ذہن میں بچپن کو زندہ کرنے والی اور بھی بہت سی نظمیں اس کتاب میں ہیں اور ساری نظمیں بہت خوبصورت اور پیاری ہیں۔ ان میں بچوں کی نفسیات، ذوق، جذبہ اور ذہنی سطح کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔
ساری نظمیں بہت ہی آسان اور سلیس زبان میں ہیں۔ ایسی زبان جس میں بہت روانی ہے۔ عائشہ سمن نے ہر نظم بچوں کی پسند کے مطابق ہی تحریر کی ہے تاکہ بچے نہ صرف ان نظموں سے محظوظ ہوں بلکہ ان سے انھیں کچھ سبق بھی ملے۔
نظموں کے علاوہ اس کتاب میں بچوں کے لیے کچھ کہانیاں بھی ہیں۔ خاص طور پر کورونا شہزادی، لاک ڈاؤن، گلک، عیدی وغیرہ، اور اس طرح کی اور بھی کہانیاں جن سے بچو ںکے ذہن پر اچھے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ کورونا شہزادی کے عنوان سے ایک اچھی کہانی ہے، جس میں سب لوگ ’گو کورونا گو کورونا ‘کی آواز لگاتے ہیں۔ مگر ایک ماں کہتی ہے کہ ’’خدا را! کورونا کو مت بھگائیے، وہ میرے گھر کی شہزادی ہے، اس کے آنے سے 21 سال بعد میرا بیٹا میرے پاس آیا ہے۔‘‘ بہت خوبصورت انداز میں عائشہ سمن نے لاک ڈاؤن کے زمانے میں رشتوں کی اہمیت اور معنویت کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ’گلک‘ بھی ایک اچھی کہانی ہے، جو کورونا سے جڑی ہوئی ہے کہ جب سارے راستے بند ہوجاتے ہیں تبھی گلک سے آسائش و عافیت کا ایک دروازہ کھلتا ہے۔ عائشہ سمن نے اپنی کہانیوں اور نظموں کے ذریعے بہت ہی خوبصورت پیغام دیا ہے۔ عائشہ سمن تدریس سے جڑی رہی ہیں، اس لیے بچوں کی نفسیات اور ان کے ذوق کا اندازہ ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے شعرستان (برائے بیت بازی)، اور حرف حرف آئینہ جیسی کتاب بھی مرتب کی ہے۔ یہ دونوں کتابیں بچوں کے لیے بہت مفید ہیں۔ ’بچپن: دھنک رنگ سا‘ ادب اطفال میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔ عائشہ سمن نے پھول سے بچوں کو خوبصورت گلدستہ پیش کیا ہے۔