بچوں کی زبان اور زمین میں ایک عمدہ کتاب – حقانی القاسمی

مہاراشٹر کو اگر ادب اطفال کا گہوارہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ وہاں کے بیشتر اساتذہ اور ادبا کا بچوں کے ذہن اور زمین سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ وہاں کے قلمکار ننھے منے بچوں کی ذہنی اور فکری بنیادوں کو مضبوط کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان کے جذبات اور ذہن کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے نظمیں، افسانے اور ڈرامے وغیرہ لکھتے ہیں۔

محمد اسداللہ بھی انہی ادیبوں میں شامل ہیں جنھوں نے اپنی ذہنی اور فکری توانائی کا ایک بڑا حصہ بچوں کے لیے و قف کیا ہوا ہے۔ وہ بچوں کے لیے نظمیں، کہانیاں، مضامین، ڈرامے وغیرہ تحریر کرتے رہے ہیں۔ بچوں کے لیے ان کے تازہ شعری مجموعے کا نام ہے ’بچوں کی زمین سے‘، جس میں انھوں نے مختلف موضوعات پر نظمیں لکھی ہیں۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں زمین بھی بچوں کی ہے اور زبان بھی بچوں کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان نظموں میں بچوں کے لیے کشش بھی ہے اور ان کے لیے بہترین ذہنی غذا بھی۔ محمداسداللہ نے اس کتاب میں اُن موضوعات کا انتخاب کیا ہے جو آج کے زمانے سے ہم آہنگ ہیں اور بچوں کی ضروریات میں شامل ہیں یا جن سے بچوں کا سابقہ پڑتا رہتا ہے۔ ان کی ایک نظم ہے ’اَکا بکا تین تڑکا‘۔ یہ ایسی نظم ہے جو بچوں کے کانوں کو بھلی لگتی ہے۔ اس نظم کا ایک ٹکڑا دیکھیے ؎

اکا بکا تین تڑکا

اکا بکا تین تڑکا

 

پڑھا نہیں توپھر کیا لکھا

تیر نہیں تھا چلا ہے تکا

آخر میں سب ہکا بکا

رک گئی گاڑی پنکچر چکا

اکا بکا تین تڑکا

اس نظم میں جو موسیقیت اور غنائیت ہے وہ بچوں کو بہت پسند آتی ہے۔ اسی طرح انھوں نے ’جان پہچان‘ کے عنوان سے ایک ڈرامائی نظم تحریر کی ہے جس میں جہاز، کشتی، موبائل، کار، کلکولیٹر، کتاب، سیب، مچھر اور شیر کردار ہیں۔یہ اس اعتبار سے بھی ایک اچھی نظم ہے کہ اس کے ذریعے بچوں کو ان تمام چیزوں کے کردار اور کیفیات کا علم ہوتا ہے۔ موبائل کہتا ہے:

جس سے بھی جی چاہے مِل

کھول رکھ دے اپنا دل

میٹھی میٹھی باتیں کر

چاہے کر دانتا کِل کِل

بات کرے تو آئے بل

میں ہوں مسٹر، موبائیل

تو کلکولیٹر اپنا تعارف یوں کراتا ہے:

جتنا گننا چاہو تم

میں بتلاؤں فر فر فر

گاگر جیسا چھوٹا ہوں

میں ہوں گنتی کاساگر

میتھس بھرا میرے اندر

میں ہوں جی کیلکولیٹر

اسی طرح اس میں جہاز، کشتی، موٹرکار، کتاب، سیب، مچھر، شیر، فٹ بال وغیرہ اپنا شعری تعارف کرتے ہیں۔

کتاب میں شامل نظموں کے ذریعے محمد اسداللہ نے بچوں کو پرندوں اور موسموں وغیرہ سے بھی متعارف کرایا ہے۔ اس میں کنگارو بھی ہے، کتے بھی ہیں اور پرندے بھی۔ گرمی بھی ہے، بارش بھی ہے اور نیا سال بھی۔ بچوں کے ذہن اور جذبے سے جڑے ہوئے بہت سارے موضوعات کو انھوں نے نظمیہ پیکر عطا کیا ہے۔ مدرسہ، سورج، چاند ستارے، موبائیل، کتاب، اسکول، اسکول بس، کرسی یہ وہ چیزیں ہیں جن سے بچوں کو بڑی دلچسپی ہوتی ہے اور ان میں سے بیشتر چیزوں سے بچوں کا شب و روز کا رشتہ بھی ہوتا ہے، تو ان چیزوں کے حوالے سے جو نظمیں محمد اسداللہ نے لکھی ہیں ان سے بچوں کی معلومات میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ ان کے حصے میں بہت سے نئے الفاظ بھی آتے ہیں اور انہی لفظوں کے ذریعے بچے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار بھی کرپاتے ہیں۔

محمد اسداللہ کی نظموں میں انداز ناصحانہ اور واعظانہ تو نہیں ہاں ان کی نظموں میں تحریک، ترغیب اور تشویق کے عناصر ضرور ہیں۔ ’چلیے جی اسکول‘ ایک ایسی ہی نظم ہے جس میں انھوں نے علم کی اہمیت، افادیت اور معنویت بتاتے ہوئے بچوں کو اسکول جانے کے لیے یوں راغب کرتے ہیں ؎

چلیے جی اسکول کو چلیے، چلیے جی اسکول

اس دنیا میں جاہل رہنا سب سے بڑی ہے بھول

 

دنیا کا ہر راز سمجھ میں اسی فضا میں آئے

علم کے موتی انسانوں نے اسی جگہ سے پائے

جو کچھ یہاں سے بن کر نکلے دنیا پر چھا جائے

علم و ادب کے اسی چمن میں کھلے ہوئے ہیں پھول

چلیے جی اسکول کو چلیے، چلیے جی اسکول

محمد اسداللہ نے اس کتاب کا نام ’بچوں کی زمین سے‘ رکھا ہے۔ اس عنوان میں بڑی معنویت ہے کیونکہ بچوں کی زمین اتنی خوبصورت اور پیاری ہوتی ہے کہ جیسے جنت ہو، جہاں حسین وادیاں ہوں، جہاں امن و امان ہو، جہاں محبت ہی محبت ہو، نفرت کا کوئی گزر نہ ہو۔ دراصل یہی وہ زمین ہے جو سب سے حسین ہے، جو سب کی تمنا اور سب کا خواب ہے۔ دیکھیے کتنی خوبصورتی کے ساتھ محمداسداللہ نے بچوں کی زمین کی خوبصورت تعبیر پیش کی ہے:

شفاف دل ہمارے

بہتی ندی کے دھارے

جھرنے یہ پیارے پیارے

نفرت کہیں نہیں ہے

بچوں کی یہ زمین ہے

دراصل یہ صرف بچوں کی زمین نہیں، بلکہ اس میں بچوں کا معصوم ذہن بھی ہے۔ وہی ننھا پیارا ذہن جس میں دنیا کی ساری خوبصورتیاں بھری ہوئی ہیں۔ ہمارے ادب اطفال سے جڑے ہوئے لوگ بھی ایسے ہی ذہن اور زمین کو تیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بچوں کی کائنات ان کے ذہن ہی کی طرح خوبصورت اور حسین نظر آئے۔