خالد انور پورنوی المظاہری
بابری مسجداور رام مندرہندوستان کااصل مسئلہ نہیں ہے،مگر اہلِ سیاست ایک زمانہ تک اسی کے سہارے سیاسی روٹی سیکتے رہے ہیں،اور یہ سلسلہ ابھی بھی باقی ہے،اور یہ چلتارہے گا،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جولوگ رام مندرکی تعمیر کیلئے تاریخ پر تاریخ کا اعلان کرتے ہیں ،نہ وہ رام کے ہیں ،اور نہ وہ رام مندرکی تعمیر چاہتے ہیں،وہ صرف اس کے سہارے اس ملک پر حکومت کرناچاہتے ہیں،رام مندرکے نام پر یکطرفہ ووٹ انہیں مل جائے، اسی کی کوشسوں میں مصروف ہیں،ہندوستانی قوانین اور آئین کی وہ ہردن دھجیاں اڑاتے ہیں اور اس کی پاسداری کا دم بھی بھرتے ہیں ،بابری مسجدکا معاملہ عدالت میں زیرِسماعت ہے ،اورجولوگ حاکمِ وقت بنے بیٹھے ہیں وہی خود سے فیصلہ بھی کررہے ہیں،یقینایہ افسوس کامقام ہے۔
2019آنے والاہے ؛اس لئے پھر سے بابری مسجداوررام مندرکے نام پر ماحول کو گرمانے کی پوری کوشس ہورہی ہے،فرقہ پرستوں کے ٹکروں پر پلنے والے کچھ بھکتوں کا کام ہی یہی ہے،وہ بھکتی کا پاٹھ پڑھاتے رہیں،اور رام مندرکا ایشواچھالتے رہے ہیں،ہندوستانی عوام کویہی سچائی سمجھنے کی ضرورت ہے؛مگر افسوس یہ ہے کہ وہ لوگ رام مندرکے نام پر بہت جلدی بہکاوے میں آجاتے ہیں جنہیں مندرمیں جگہ نہیں ملتی ہے۔
بابری مسجد کامسئلہ عدالت میں زیرسماعت ہے،اور وہیں سے ہم سب انصاف کے بھی منتظر بھی ہیں ، ہاں مگر وہ لوگ جو اقتدار کی اونچائی پر بیٹھے ہیں ،انہیں یہ فیصلہ منظورنہیں ہے،اس لئے وہ باربارمطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ عدالت سے باہر ہندؤں اور مسلمانوں کو بابری مسجد اور رام مندرکے بارے میں فیصلہ کرلینا چاہئے،ان کا یہ مطالبہ نہ صرف انتہائی مضحکہ خیزہے ؛بلکہ یہ ثابت کرتاہے کہ بابری مسجدکی اراضی کے بارے میں ان کا دعویٰ انتہائی کمزوراور بلاکسی کے ثبوت وشواہدکے ہیں۔
6؍ دسمبر 1992 ء یقیناہندوستان کی تاریخ کاسیاہ دن ہے، جس دن ایک مقدس عبادت گاہ یعنی بابری مسجد شہیدکردی گئی،ہندوستان کی جمہوریت اور سیکولرازم کا گلاگھونٹ دیاگیا،اور حکومت تماشہ دیکھتی رہی، 17؍ سال کے لمبا وقفہ کے بعد30؍جون 2009کو جسٹس لبراہن نے عدالت میں اپنی رپورٹ پیش کی، اور مکمل ایک سال تین مہینہ کے بعد 30؍ستمبر 2010کو الہ آباد ہائی کورٹ کافیصلہ سامنے آیا،جو حقیقت میں فیصلہ تھاہی نہیں،بلکہ دوبھائیوں کے بیچ میں زمین کا جو بٹوارہ ہوتاہے اسی کی ایک شکل تھی، ایک حصہ رام مندرکیلئے ،ایک حصہ نرموہی اکھاڑا کیلئے ، اورایک حصہ مسجدکیلئے ۔
تین گنبدوں والی قدیم اور تاریخی مسجد’ جنہیں ہم ’’بابری مسجد ‘‘کے نام سے سے جانتے ہیں ،اودھ کے حاکم وگورنر میر محمدباقی اصفہانی نے 1528ء میں تعمیر کرائی تھی، مسجد کے مقف حصہ میں تین صفیں تھیں ،اور ہر صف میں ایک سو بیس نمازی کھڑے ہوسکتے تھے،صحن مسجد چار صفوں کی وسعت تھی،بیک وقت ساڑھے آٹھ سو مصلی نماز ادا کر سکتے تھے، ابتدائے تعمیر کے بعد سے ہی نماز پنج گانہ اور جمعہ کی نماز ہواکرتی تھی،1850ء تک مندرومسجد اور رام جنم استھان کانہ کوئی معاملہ اٹھااور نہ ہی کوئی تنازعہ پیداہوا،مسلمان بھی اجودھیامیں رہتے تھے ،اور ہندوبھی اپنی عبادتیں اداکرتے تھے ؛لیکن جب ملک ہندوستان میں انگریزکا عمل دخل شروع ہوا تواس نے اپنی پالیسی ’’لڑاؤاور حکومت کرو‘‘کے تحت دونوں فرقوں کے مابین نفرت کی دیوارکھڑی کرنے کیلئے مندرومسجداور رام جنم استھان کا قضیہ چھڑدیا،اور ایک بدھشٹ نجومی سے زائچہ تیارکروایا، نجومی نے بابری مسجدکے باہر؛لیکن احاطہ میں رام جنم استھان اور سیتارسوئی گھرمتعین کیا،پھرانگریزنے جذباتی قسم کے ہندوؤں کو اکسایا کہ وہ ان دوپوتر استھان کو حاصل کرنے کی جدوجہدکریں، نقی علی خان جوگرچہ نواب واجدعلی (نواب اودھ )کا وزیرتھا؛مگردرپردہ اس کی وفاداریاں انگریزکے ساتھ تھیں،اس نے انجام سے غافل نواب واجدعلی کو راضی کرلیا کہ مسجدسے باہر مگر احاطۂ مسجد کے اندرجنم استھان اورسیتارسوئی گھرکیلئے جگہ دے دیں؛ چنانچہ صحن مسجدسے باہر بائیں ، پورب طرف جنم ا ستھان کے طوپر21؍فٹ لمبی اور17؍فٹ چوڑی جگہ دے دی گئی، جہاں ایک چبوترہ بنادیاگیا،اس موقع پر لوہے کی سلاخوں سے صحن مسجدکو گھیر دیا گیا ،جواب تک کھلا ہوا تھا ، گویا مسجداور اس فرضی جنم استھان کے درمیان حدفاصل قائم کرکے مسجدکی حفاظت کی طرف سے اطمینان کرلیا گیا۔
اوریہ صرف ہم نہیں کہتے ،وہ لوگ جوسیکولرازم پر یقین رکھتے ہیں اور عصبیت کادبیزپردہ بھی ان کے دماغوں پر چڑھاہوانہیں ہے ، وہ یہی بولتے ہیں کہ اجودھیاکورام کی نگری کہنا، اسے رام جنم استھان بتانا،اور بابری مسجدکے بارے میں یہ کہناکہ شاہ بابرنے مندرتوڑکر بابری مسجدبنائی تھی انتہائی مضحکہ خیز ہے ، چنانچہ1984ء میں ڈاکٹرآر،ایل شکلااستاذدہلی یورنیورسیٹی نے ایک مقالہ بعنوان ’’رام کی نگری اور اجودھیا جھوٹ یاسچ‘‘ لکھا تھا،اس مقالہ میں لکھتے ہیں: ’’بعض مورخین مہابھارت میں بیان کئے گئے رام کو حقیقی کردارمانتے ہیں،یہ مورخین رام کا زمانہ ڈھائی ہزارسال قبل مسیح مانتے ہیں ،اور مہابھارت کا زمانہ حضرت عیسیٰ ں سے ایک ہزارسال پہلے کا بتایا جاتا ہے ۔ اگر ہم اس تحقیق کو صحیح مان لیں تو رامائن میں جن مقامات کا تعلق رام جی سے بیان کیاگیاہے ان جگہوں میں حضرت عیسیٰ ں سے ڈھائی ہزار سال پہلے انسانی زندگی کے آثارملنے چاہئیں،اسی مقصدکے پیش نظر تین مقامات کی کھدائی ہوئی، فیض آباد ضلع میں ’’اجودھیا‘‘ کی، الہٰ آبادسے35؍کیلومیٹر شمال کی سمت موضع ’’شرنگوپریور‘‘کی۔الہ ٰآبادمیں واقع’’ھاردواج‘‘آشرم کی ، اجودھیا میں کھدائی آج سے تقریباً 25؍ سال پہلے بھی ہوئی تھی۔اس وقت بھی وہاں آبادی کے نشان حضرت عیسیٰ ں سے600؍سال پہلے کے نہیں ملے تھے،اور اب سے تقریباًدس سال پہلے دوبارہ بڑے پیمانے پر وہاں (اجودھیا)میں کھدائی ہوئی تھی، اس کھدائی سے بھی آبادی کے متعلق وہی نتیجہ نکلا، کہ حضرت عیسیٰ ں سے زیادہ سے زیادہ 700؍سال قبل کی آبادی کے نشان پائے گئے۔ اب اگر یہ مان لیاجائے کہ یہی موجودہ اجودھیارام جی کی نگری تھی جو انکی جنم بھومی مانی جاتی ہے تو (سوال پیداہوتاہے )کہ رام جی کے زمانہ سے اجودھیاکے زمانہ کا جوڑکیوں نہیں قائم ہوتا؟ اجودھیاکی آبادی حضرت عیسیٰ ں کے زمانہ سے 600؍سال یا700؍سال پہلے کی ہے، جبکہ رام کا زمانہ عیسیٰں سے2500؍سال قبل یابعض مورخین کی تحقیق کے اعتبارسے اس سے پہلے کاہے، توپھراجودھیارام کی جنم بھومی کیسے ہوسکتی ہے اور اس کا کیاثبوت ہے؟‘‘
1948ء میں ملک کے اندربالخصوص یوپی ، دہلی، میوات، ہریانہ، پنجاب ،وغیرہ صوبوں میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑک اٹھی، افراتفری کاماحول ہوگیا، اسی اتھل پتھل میں22۔23؍دسمبر1949ء کی درمیانی شب جب کہ پوری دنیامحوخواب تھی، ہنومان گڑھی کے مہنت ابھے رام داس اپنے چیلوں کے ساتھ دیوارپھاندکرمسجدمیں گھس گئے اور عین محراب کے اندرایک مورتی رکھدی ، اس کے بعددفعہ145کے تحت مسجدکوقرق کرکے اس پر سرکاری تالا لگادیا گیا، پھر 16؍جنوری 1950ء سے مقدمات کاسلسلہ شروع ہوا۔ یکم فروری 1986ء کوبابری مسجدپرلگے تالے کو کھولے جانے کا فیصلہ فیض آباد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے سنادیا،اور پوجاپاٹ کیلئے مسجد ہندؤں کے حوالہ کردی گئی ،1989ء کے پارلیمانی انتخاب کے بعد بابری مسجد کا مسئلہ نیارخ اختیار کرلیا گیا ۔ وی ۔ پی سنگھ بھارتیہ جتناپارٹیB J P کے تعاون سے وزیراعظم بنے تھے ، اس لئے وشوہند وپریشدنے وی،پی سنگھ سرکارکو مندرکی تعمیرکیلئے دباؤڈالناشروع کردیا، 2؍دسمبر1990ء کو اڈوانی نے اعلان کیا کہ اپنی رتھ یاتراکے ذریعہ آٹھ ریاستوں سے گذرکر اجودھیامیں 30؍اکتوبر1990ء کو مندرکی تعمیر کیلئے کارسیواکریں گے ،رتھ یاتراشروع ہوتے ہی گجرات ،راجستھان ،اور یوپی کے کئی علاقوں میں فسادات کاسلسلہ شروع ہوگیا۔23؍اکتوبر1990ء کوبہارمیں سمستی پور کے علاقہ میں لالوپرشاد کی سرکارنے لال کرشن اڈوانی کوگرفتارکرلیا،1990ء میں اترپردیش میں ،اترپردیش بابری مسجدایکشن کمیٹی نے ملائم سنگھ کی مددکی ،عبداللہ بخاری نے وی ،پی سنگھ کیلئے اپیل کی ،مسلمانوں کے ووٹ بکھرگئے ، اور اترپردیش میں بے جے پی کی سرکاربن گئی،اور گدی پہ بیٹھے کلیان سنگھ ، حلف لینے کے دوسرے دن بعدہی اپنی کابینہ کے ساتھ اجودھیاتشریف لے گئے،اس پر کافی نکتہ چینی بھی ہوئی ، اپوزیشن نے اس اقدام کو عدالت کی توہین اور آئین کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا ،تو کلیان سنگھ کا جواب تھا ’’مندر تعمیر کرنے کے عہد کو دہرانے ہم اجودھیا گئے تھے ،یہ کوئی غیر قانونی کام نہیں تھا یہ تو عقیدے اور جذبے کی بات تھی ‘‘اور جب مندر بنانے سے متعلق1991 ء میں ان سے انٹریو لیا گیا کہ کیا آپ عدالت کا فیصلہ تسلیم کریں گے؟ تو بڑی بے باکی سے انہوں نے جواب دیا ’’ یہ معاملہ عدالت کے دائرہ کار سے باہر ہے ‘‘بالآخر 6 دسمبر 1992ء11 بجکر 45؍ منٹ پر بابری مسجد پر حملہ شروع ہوا،وشوہند پریشد کے پٹھو ،کلیان سنگھ کے چہیتے ، مرکزی حکومت کے اشارے پہ ناچنے والی پولیس نے میدان چھوڑدیا ،اور ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب لکھا گیا ،سیکولرزم کا دعوی ٰ کر نے والی پارٹیوں کا چہرہ بے نقاب ہوگیا،اور5؍ گھنٹے میں عظیم تاریخی بابری مسجد464؍ سال کے بعد شہید کردی گئی ۔ انا للہ واناالیہ راجعون ۔ رات بھر کارسیوکوں نے ملبہ صاف کیا ،عارضی مندر تعمیر کی ،پوجا بھی شروع کردی گئی ، 40؍ گھنٹہ کا انہیں موقع دیا گیا ،تب جاکر سنٹرل فورس کو داخلہ کی اجازت ملی ۔
ہندوستان ہماراملک کے اور اس کے قانون وآئین پر ہمارامکمل اعتماد ہے ،اور جب جب بھی اس طرح کے موڑآئے ہیں مسلمانوں نے جذبات سے نہیں ؛بلکہ صبروتحمل سے کام لیاہے،یہی ہماری پہچان ہے اور یہی مذہب اسلام اور اس کی تعلیمات نے ہمیں سکھایاہے،کہ وہ جس ملک میں رہتے ہیں اس سے محبت اور اس کے آئین پر بھروسہ کرناہی انہیں سکھایاگیاہے۔ہاں مگر انہیں عدالت سے شکایت تو ضرورہے کہ جب بابری مسجد ؛ایک متنازع زمین تھی،ہندومسلم دونوں ہی اس کے فریق تھے،مگر عدالت کے فیصلہ سے قبل کسی ایک فریق نے اس پرقبضہ کیسے جمالیااورکس کے اشارہ پر بابری مسجد کو شہید کیا؟ ، شہید کرنے والوں کو سزاکیوں نہیں ملی؟سب سے پہلے فیصلہ تو اسی پرآناچاہئے،اور یہاں فیصلہ ہورہاہے کہ وہ زمین مسجد کی ہے یامندرکی،یہ توبعدکی بات ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے بابری مسجدگرانے میں اہم رول اداکیا تھا ، وہ آج ہندوستان کے اعلیٰ مناسب پر فائزہیں،اور دن بہ دن ان کی ترقی ہورہی ہے۔
*یہ بات یقیناسمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ25سال سے زائدکا عرصہ گذرگیا؛مگر عدالت نہ تو مجرموں اور آئین کی دھجیاں اڑانے والوں کو پکڑ پائی ہے ،اور نہ یہ فیصلہ کرپائی ہے کہ وہ زمین کس کی ہے ؟مسجد کی یا مندرکی،اور مالکانہ حق کس کا ہے؟حالانکہ جو لوگ بھی مندریامسجد کی وکالت کرتے ہیں ،انہیں تو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ دونوں کے بارے میں یہ اصول مسلم ہے کہ جس جگہ بھی مسجد یامندربنائی جائے وہ صاف وشفاف ہو،کسی کی زمین کو چھین کر،ناجائزوقبضہ کرکے نہ تو مسجدبناناجائز ہے اور نہ مندربنانے کی اجازت ہے،یہی دنیاکا قانون ہے اور یہی آسمانی قانون بھی کہتاہے،اگر وہ زمین واقعۃ مسجد کی ہے تو مندربنانے کی اجازت نہیں ہے اور نہ مندرکی وکالت کرنے والوں کو ا س کی وکالت کرنی چاہئے،ہاں اگر مسجد کی نہیں ہے توکسی کے لئے اس کی بھی اجازت نہیں ہے کہ مسجدکی وکالت کریں؛لیکن اگر وہ زمین مسجد کی ہے،جیساکہ ثبوت وشواہد یہ بتلاتے ہیں توپھر تو اس کا مالک اللہ تبارک وتعالیٰ ہیں،دنیاکے کسی بھی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مسجد کی زمین کسی کے حوالہ کردیں یا اس کے بدل میں دوسری زمین وصول کرلیں،جس روئے زمین پر ایک بار مسجد بن گئی،وہ ہمیشہ کے مسجد ہوگئی، اور قیامت تک وہ زمین مسجد ہی کی کہلائے گی،یہی وجہ تو ہے کہ ہندوستان کے مسلمان عدالتی فیصلہ کے تو منتظر ہیں،لیکن خودسے کوئی فیصلہ کرلیں؛اس کیلئے راضی نہیں ہیں، چونکہ نہ تووہ اس زمین کے مالک ہیں اوراس نہ زمین کی تقسیم یاتبدیل کے مجازہیں۔*
حکومت کی طرف سے سواسوکروڑلوگوں کے مسائل کو نظر انداکیاجارہاہے،اہم مسائل اور بنیادی ضرورتوں سے بھٹکانے کیلئے مسجداور مندرکے مسائل کو اٹھایاجاتاہے،ہندوہویامسلمان وہ اس بات کو سمجھیں اور سرکارکی غلط پالیسی کے نفاذکیلئے کسی بھی طرح معاون نہ بنیں،یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے اور اس ملک کے حق میں بہتر اور مفید بھی،ہاں جولوگ بھکت ہیں وہ مسلمانوں کو اکساکراور طرح کے مسائل کو چھیڑ کر ہمیں الجھا نا چا ہتے ہیں ، ہمیں امیدہے کہ ان شاء اللہ ہندوستان کے مسلمان ان کی کوشسوں کوکامیاب نہیں ہونے دیں گے!
حالات یقینابہت زیادہ اچھے نہیں ہیں،اور یہ ہمارے اعمال کے کرتوت بھی تو ہوسکتے ہیں،ایک مسلمان کی ایسے موڑ پر ذمہ داری ہے ہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں،توبہ واستغفار کریں،سڑکوں،چوراہوں پرشورغل کرنے اور بابری مسجد کی شہادت پر صرف ماتم کرنے کے بجائے مسجدوں سے اپنارشہ مضبوط کریں، غیرآباد مساجدکونمازیوں سے آبادکریں،جولوگ مسجدوں سے دورہیں انہیں مسجدوں تک لانے کی کوشس کریں،اورمکمل طورپراسلام پرعمل کرنے والے بن جائیں!شایدکہ اترجائے تیرے دل میں میری بات!