خان بہادر مولوی خدا بخش مرحوم نے پٹنے میں، ” خدا بخش اورنٹیل لائبریری ” جیسے عظیم الشان کتب خانے کی بنا ڈالی جس کا شمار برصغیر پاک و ہند کے تین اہم ترین کتب خانوں میں ہوتا ہے۔انہوں نے اپنی تمام زندگی ایک متقی اور راست باز انسان کی حیثیت سے گزاری، وکالت بھی کی اور جج بھی رہے، ہمیشہ دیانت امانت اور صداقت کو اپنا شعار بنائے رکھا، لیکن جہاں تک کتابیں حاصل کرنے کا تعلق ہے انہوں نے ہر طریقہ خواہ وہ اخلاقاً کتنا ہی معیوب کیوں نہ تھا اپنے لئے روا رکھا۔چنانچہ یہ مشہور قصہ ہے کہ انہی مولوی خدا بخش کو ایک نایاب قلمی کتاب کی شدید ضرورت لاحق تھی۔ان کے ملنے والوں میں ایک صاحب کے پاس مطلوبہ کتاب موجود تھی، لیکن وہ اس کی قدر و منزلت سے واقف نہ تھے۔ صرف اس لئے کہ یہ ایک بہت پرانا خاندانی قلمی نسخہ ہے اور اس کی جلد خوبصورت ہے، وہ کسی قیمت پر بھی اسے فروخت کرنے کے لئے تیار نہ ہوتے تھے۔ مولوی صاحب بھی اس کتاب کے خریداروں میں تھے، لیکن ناکام رہے۔ کوئی چارہ کار نہ پاکر آخر کار انہوں نے ان صاحب سے کتاب مستعار دینے پر اصرار کیا اور کتاب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔اب انہوں نے یہ کیا کہ اس نسخے کو جلد سے علیحدہ کر کے اپنے پاس رکھ لیا اور کچھ دنوں بعد اسی تقطیع اور ضخامت کا ایک معمولی مخطوطہ اس کی جلد میں بندھوا کر ان صاحب کے حوالے کر دیا۔ان صاحب کو مولوی صاحب کی اس حرکت کی بالکل خبر نہ ہوئی اور ان کی کتاب بڑے مزے سے مولوی خدا بخش کے کتب خانے میں داخل ہوگئی۔
خدا بخش اورینٹل لائبریری پٹنہ کے متعلق انگریزی کتاب An Eastern Library کے مصنف مسٹر اسکاٹ اوکنز اپنی اس کتاب میں مولوی خدا بخش مرحوم سے اپنی ملاقات کا حال یوں تحریر فرماتے ہیں :
” ایک بار جب میں نے ہچکچاتے ہوئے ان ذرائع کے متعلق ان سے دریافت کیا جن سے انہوں نے یہ کتابیں حاصل کی تھیں تو وہ مسکرا کر میرے طرف دیکھنے لگے۔ اس وقت ان کی آنکھوں میں ایک دل فریب چمک پیدا ہوگئی۔ انہوں نے فرمایا کہ نادر و نایاب چیزوں کو جمع کرنے کا فن ہر پابندی سے مستثنیٰ اور فوج داری قانون سے بالا ہے۔انہوں نے اپنی گفتگو کو یہ کہہ کر ختم کیا کہ :
” اندھے تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کی بصارت زائل ہو جاتی ہے۔ دوسرے وہ جو آنکھیں رکھنے کے باجود اپنی کوئی بیش قیمت کتاب کسی دوست یا واقف کار کو مطالعے کے لئے مستعار دئے دیتے ہیں اور تیسرے اندھے وہ لوگ ہیں جو ایک بار ایسی کتابوں پر قبضہ پا لینے کے بعد انہیں واپس بھی کر دیتے ہیں۔ ”
مولوی خدا بخش کو اپنی کتابوں سے بڑی گہری محبت تھی۔ایک بار برٹش میوزیم نے ان کتابوں کو خریدنے کے لئے ایک بیش بہا رقم مولوی خدا بخش کو پیش کی ، لیکن انہوں نے بہ کمال استغنا اس پیش کش کو ٹھکرا دیا اور فرمایا کہ :
” اس میں کوئی شک نہیں کہ میں ایک غریب آدمی ہوں، لیکن کیا میں صرف دولت کی خاطر اپنے اس علمی سرمائے سے دست بردار ہو جاؤں جب وہ یہ باتیں کر رہے تھے تو ان کا چہرہ طمانیت و مسرت کے وفور سے تمتما رہا تھا۔ ”
مولوی خدا بخش نے ایک رات خواب دیکھا کہ ان کے کتب خانے کے برابر والی گلی میں لوگوں کا ہجوم ہے، لوگوں نے انہیں دیکھا تو چلانے لگے کہ:
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے کتب خانے کی سیر کے لئے تشریف لائے ہیں، تم کہاں ہو ؟ یہ سن کر وہ اس کمرے کی طرف دوڑے جہاں قلمی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ اس وقت تک رسول اللہ تشریف لے جا چکے تھے، لیکن یہاں حدیث کی دو کتابیں میز پر کھلی رکھی تھیں، لوگوں نے بتایا کہ ان دو قلمی نسخوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرما رہے تھے "ـ
بابائے کتب خانہ مولوی خدا بخش۔ عبدالمجید قریشی
previous post