Home قومی خبریں بانگ درا‘کے سوسال مکمل ہونے پر اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام سہ روزہ قومی سمینار اختتام پذیر

بانگ درا‘کے سوسال مکمل ہونے پر اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام سہ روزہ قومی سمینار اختتام پذیر

by قندیل

نئی دہلی :اردو اکادمی، دہلی کے زیر اہتمام ’بانگِ درا ‘ کے سوسال مکمل ہونے پر سہ روزہ قومی سمینار میں ملک بھر کے دانشوران و ادیب شریک ہوکر ان کی شاعری اور خصوصاً بانگِ درا کے حوالے سے اقبال کی شاعری کا سماج،تاریخ اور خصوصی طور پر ادب میں کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں بھرپور گفتگو سننے کو ملی۔

پہلے اجلاس میں بطور مقالہ نگار پروفیسر توقیر احمد خاں(بانگِ درا کی اشاعت : ایک تعارف) ڈاکٹر الطاف انجم (کلامِ اقبال اور نوتاریخیت)، ڈاکٹر عرفان اللہ فاروقی (علاقائی قومیت کا تصور اور اقبال کی اسلامی اردو شعریات)، ڈاکٹر معیدالرحمن (اقبال کی نظموں کا نوآبادیاتی مطالعہ) ۔دوسرے اجلاس میں پروفیسر اسلم اصلاحی (آیاتِ بینات)، ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی ( شکوہ و جواب شکوہ: فنی جائزہ)، ڈاکٹر عبدالسمیع (نظم فلسفۂ غم کا فنی و فکری مطالعہ)، ڈاکٹر امیر حمزہ (بانگِ درا میں بچوں کی نظمیں اور تشبیہاتی نظام) نے مقالات پیش کیے۔ان دونوں اجلاس کی صدارت بالترتیب پروفیسر شریف حسین قاسمی اور پروفیسر خالدعلوی نے کی۔

اتوار کی صبح ساڑھے دس بجے قمر رئیس سلور جبلی ہال میںتیسرا اجلاس پروفیسر خالد محمود کی صدرات اور ڈاکٹر محمد شاداب شمیم کی نظامت میں شروع ہوا ۔ اس اجلاس میں پروفیسر رحمت یوسف زئی نے ’غلام قادر روہیلہ ‘ پر فنی و فکری جائزہ پیش کرتے ہوئے اس وقت کے تاریخی پس منظراور اس نظم کے تحت کلام اقبال کی خصوصیات اوراس کے امتیازات پر بھی گفتگو کی۔پروفیسراحمدمحفوظ نے ’تصویر درد‘ کے آہنگ کا مطالعہ پیش کرتے ہوئے اس نظم کے آہنگ اورعروض پرسیرحاصل گفتگوکی۔ڈاکٹر معیدرشیدی نے ’غالب،داغ اوراقبال کی تثلیث میں بانگ درا کی غزلوں کی شناخت‘کے عنوان سے پرمغز مقالہ پیش کیا،اس میں انھوں نے کلام اقبال پر غالب اورداغ کے اثرات پر گفتگو کی اور خصوصی طور پر اقبال کے متروک کلام کو مو ضوع بناتے ہوئے نئے زاویوں پر بات کرنے کی کوشش کی ۔ڈاکٹر محمد شاہد خاں نے ’نظم والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘کا فکری وفنی جائزہ بہت ہی جامع انداز میں پیش کرتے ہوئے انگر یزی متون سے تقابل بھی پیش کیا ۔ ڈاکٹر محمد احسان حسن نے ’بانگِ درا کے سوسال: ایک اجمالی جائزہ‘ پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے بانگِ درا کے تحریکات و رجحانات پر کیا اثرات مرتب ہوئے ، اس پر بھی گفتگو کی۔

صدرا تی تقریر میں پروفیسر خالد محمود نے سبھی مقالات پر گفتگو کرتے ہوئے اقبال کے اختصاص پر خصوصی گفتگو کی ۔ انھوں نے کہا کہ اقبال کو ہی یہ اختصاص ہے کہ مکتب سے لے کر تازندگی سب سے زیادہ قاری آپ کو اقبال کے ہی ملیںگے ۔اقبال کے کلام کا ہی یہ آہنگ ہے کہ سب سے زیادہ وہ اپنی جانب راغب کرتا ہے ، اگر آ پ سروے کریں گے تو معلوم ہوگا کہ لوگوں کو سب سے زیادہ اقبال کے ہی اشعار یاد ہوںگے ، عوام و خواص میں اقبال ہی سب سے زیادہ مقبول ہیں اور انہیں کے اشعار سب سے زیادہ لوگوں کو یاد بھی ہیں ۔

ظہرانے کے بعد سمینار کا چوتھا اور آخری اجلاس پروفیسر معین الدین جینا بڑے اورپر وفیسر مظہر احمد کی صدارت و ڈاکٹر عالیہ کی نظامت میں منعقد ہوا ۔ اس اجلاس میں پروفیسر سید محمد عزیز الدین حسین نے ’بانگ درا کا تاریخی تجزیہ ‘ پر مقالہ پیش کرتے ہوئے تاریخی نظموں کے حوالے سے اقبال کے یہاں تاریخ کو شاعری میں پیش کرنے کا جو شعور پایا جاتا ہے اس پر بھر پور روشنی ڈالی ۔پروفیسر محمد معظم الدین نے ’اقبال اور درسی نصاب : بانگ درا کے حوالے سے ‘ پراپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اب تک بانگ درا کو نصاب تعلیم میں جو اہمیت حاصل ہوئی ہے وہ شاید کسی دوسرے شعری مجموعے یا شاعر کو ملی ہو ۔

صدراتی تقریر میں پر وفیسر مظہر احمد نے اقبال کے حوالے سے اپنے تجر بات کا اظہار کیا اور مزید کہا کہ اب نصاب تعلیم میں اقبال جس طریقے سے نشانے پر آئے ہیں اس کے تدارک کے لیے بھی غور کرنا ہوگا ۔ پر وفیسر معین الدین جینا بڑے نے سمینا ر کے کنوینر کے طور پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ گورننگ کونسل کے قیام سے پہلے ہی اس سمینار کا خاکہ تیار ہوچکا تھا اس کے لیے اکادمی کے سکریٹر ی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اس نامساعد دور میں اقبال کے صرف ایک مجموعہ پر سہ روزہ قومی سمینار منعقد کیاگیا ۔ مزید انھوں نے کہا کہ ایسے میں نوجوان نسلوں پر کم توجہ دی جاتی ہے تو میں نے اس سمینار میں نوجوان قلمکاروں کو برابر کا شریک رکھا،9 بزرگ قلمکار تھے تو9 بالکل نوجوان قلمکار تھے اور مجھے خوشی ہے کہ سبھی نے عمدہ مقالے پیش کیے ۔ سمینا رمیں مقالہ نگارا ن کی فہرست میں شمولیت کے حوالے سے سخت لہجہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتفاق سے چار روز قبل کسی صاحب کا ایک نوجوان کے حوالے سے فون آیا کہ آپ انھیں مقالہ نگاران میں شریک کرلیں ، میں نے ان سے فون پر ہی خفگی کا اظہار کیا کہ آپ نے اس حوالے سے فون کیسے کردیا ، پھر اتفاق سے اسی نوجوان کا فون آیا تو میں نے اسے بھی سختی سے منع کردیا لیکن یہ معاملہ جاری رہا ، پھراتفاق سے اس نوجوان نے ایک وزیر سے فون کروایا پھر میں نے وائس چیئر مین سے اس متعلق بات کی تو انھوں نے کہاکہ وزیر کے فون پر تو قبول نہیں کیا جاسکتا۔لیکن یہ رویہ بہت ہی تکلیف دہ ہے،سارے اداروں اور یونیورسٹیز کو بھی اس جانب غور کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی ۔

سمینار میں گورننگ کونسل کے ممبران میںپروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین ، جناب خورشیداکرم، شیخ علیم الدین اسعدی اور محمد فیروز صدیقی کے علاوہ پروفیسر شہزاد انجم ،ڈاکٹر نگار عظیم ، جناب سہیل انجم ،جناب حبیب سیفی،ڈاکٹرعادل حیات ، ، ڈاکٹر محمد مستمر، ڈاکٹر محمد ارشد ، ڈاکٹر افسانہ حیات ، ڈاکٹر خان محمد رضوان ، ڈاکٹر ابراہیم افسر، عرفان راہی اور یونیورسٹیز کے طلبا و طالبات موجود تھے۔

You may also like