سراج نقوی سے تعلق صرف اخباری نہیں ہے ، ’ ممبئی اردو نیوز ‘ میں کالم لکھنے کے سبب برادارانہ بھی ہے ۔ اُن کے کالم حالاتِ حاضرہ پر ، آج کی سیاست اور مسلم معاشرہ کے مسائل پر ، ان کی گرفت کا منھ بولتا ثبوت ہیں ۔ وہ تجزیے اور تبصرے کا حق ادا کر دیتے ہیں ۔ اُن کی زبان نتھری ہوئی ہے ، اور وہ محاروں اور ضرب الامثال کا اس طرح سے استعمال کرتے ہیں ، جیسے کہ یہ محاورے اور ضرب الامثالیں جس موقعے پر استعمال ہوئی ہیں ، بس اسی موقعے کے لیے تھیں ! اُن کے کالم جہاں بھی شائع ہوتے ہیں شوق سے پڑھے جاتے ہیں ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کے پڑھنے والوں کا ایک بہت بڑا حلقہ ہے ، تو غلط نہیں ہوگا ۔ سراج نقوی اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں ! اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ وہ ادب پڑھتے ہیں ، اور دوسرا جواب یہ ہے کہ وہ ادب لکھتے بھی ہیں ۔ ادب پڑھنا اور ادب لکھنا زبان کو نکھارتا بھی ہے ، اور لکھنے کے ڈھنگ کوبھی سنوارتا ہے ۔ موصوف کے ادبی مضامین کی ایک کتاب ’ اذکارِ ادب ‘ عرصہ ہوا مجھے موصول ہوئی تھی ، اب تک مجھے اس کا تعارف و تبصرہ لکھ دینا چاہیے تھا ، لیکن کچھ صحافتی مصروفیات نے اور کچھ اس سوچ نے کہ ’ اپنے سراج نقوی بھائی کی ہی تو کتاب ہے ، تاخیر بھی ہو جائے گی تو بُرا نہیں مانیں گے ‘ لکھنے میں تاخیر کروائی ۔ کتاب تیس ادبی مضامین پر مشتمل ہے ، ابتدا میں مصنف کے ’ خد و خالِ زندگی ‘ کے عنوان سے ایک تحریر کے علاوہ اردو دنیا کی دو بڑی شخصیات پروفیسر ڈاکٹر عبدالحق اور پروفیسر ڈاکٹر صادق کے دو مضامین ہیں ۔
سراج نقوی نے تقریباً سوا پانچ صفحے کی تحریر ’ خد و خالِ زندگی ‘ میں ، اپنی اور اپنے وطن امروہہ کی مختصر تاریخ بیان کر دی ہے ۔ انھوں نےمحلہ ’ دربار شاہ ولایت ‘ کی اُس گلی میں آنکھیں کھولیں ، جو کمال امروہی ، رئیس امروہی ، سیّد محمد تقی اور جون ایلیا کے توسط سے پہلے ہی مشہور عالم تھی ۔ والد علی مہدی نقوی نے کئی سرکاری ملازمتیں کیں ، ریٹائرمنٹ کے بعد وکالت کرنے لگے ، چونکہ وکیل کے صاحب زادے تھے ، اس لیے اردو میں ایم اے تو کیا ہی ایل ایل بی بھی کی ، اور میرٹھ میں فوجداری معاملات میں وکالت کرنے لگے ۔ علمی و ادبی گھرانہ تھا ، والد صاحب فارسی اور انگریزی میں دسترس رکھتے تھے ، خاندان میں کئی نامی گرامی شاعر اور ادیب تھے ، لہذا سراج نقوی کا ادب کی جانب جھکاؤ فطری تھا ، وکالت چھوڑ کر صحافت سے وابستہ ہوگئے ، اور آج تک وابستہ ہیں ۔ سراج نقوی لکھتے ہیں ، ’’ ملک کے کئی سرکردہ اردو روزناموں میں اپنے صحافتی کالم لکھنے کے علاوہ ادبی جریدوں میں ادبی مضامین لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہوں ۔ حالانکہ صحافتی مصروفیات نے مجھے ادبی موضوعات پر لکھنے کا موقع بہت کم دیا لیکن اس کے باوجود تاثراتی ، نیم تنقیدی مضامین یا تبصرے اس دوران لکھے گئے ان میں سے چند کا انتخاب پیش ہے ۔‘‘
یہ مضامین کیسے ہیں ؟ اس سوال سے میری مراد ان مضامین کی ادبی حیثیت سے ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالحق ’ تبریک ‘ کے تحت لکھتے ہیں ، ’’ ماضی کی طرح حال میں بھی چند اہلِ قلم صحافتی مصروفیات کے باوجود علم و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں ، اور بڑے انہماک و خلوص کے ساتھ تخلیق و تہذیب کو سنوارنے میں ہمہ تن کوشاں ہیں ۔ ان معتبر قلمکاروں میں سراج نقوی کی ان تحریروں سےاعراض نہیں کیا جا سکتا ۔‘‘ پروفیسر صادق نے ’ تقریظ ‘ میں سراج نقوی سے اپنی پہلی ملاقات کا تاثر اِن لفظوں میں بیان کیا ہے ، ’’ گفتگو کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ سراج نقوی نرے صحافی نہیں ہیں ، وہ اردو کے جدید اور کلاسیکی ادب سے بھی واقف ہیں اور مختلف ادبی موضوعات پر سنجیدگی کے ساتھ ذمے دارانہ گفتگو کرتے ہیں ۔‘‘ اس کتاب میں شامل مضامین کے بارے میں لکھتے ہیں ، ’’ سراج نقوی نے یہ مضامین کسی اکادمیشین کی طرح ہی لکھے ہیں ۔ ان مضامین میں دیے گئے حوالوں سے سراج نقوی کے مطالعے کی گہرائی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔‘‘
کتاب میں کُل تیس ادبی مضامین ہیں جِن میں مختلف شعراء یا الگ الگ حوالوں سے شاعری پر مضامین کی تعداد ۲۱ ہے ، باقی کے نضامین نثر پر ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سراج نقوی کی ذہنی مناسبت نثر کے مقابلے شاعری سے زیادہ ہے ، لیکن انھوں نے جس پیشے کو اپنایا ہے وہ نثر کی مناسبت سے ہے ۔ اس کا یہ مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے کہ انہیں شاعری اور نثر دونوں ہی سے مناسبت ہے ۔ جن شعراء پر ان کے مضامین اس کتاب میں شامل ہیں ، وہ ہیں علامہ اقبالؔ ، فراقؔ ، نسیم ؔامروہی ، جمیل الدین عالیؔ ، ساحرؔ ، مخمورؔ سعیدی ، حفیظ ؔ میرٹھی ، راحتؔ اندوری ، انور ؔ جلال پوری ، پروینؔ شاکر ، کیفیؔ اعظمی ، علی سردارؔ جعفری ، جون ؔایلیا ، ملک زادہ منظورؔ احمد ، معراج فیض آبادی ، سلیمؔ صدیقی اور عظیمؔ امروہی ۔ شاعری پر دو مضامین مزید ہیں ’ نئی شاعری : چند معروضات ‘ اور ’ اردو شاعری اور تحریک آزادی ‘ ۔ ان مضامین کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سراج نقوی ایک اعلیٰ پائے کے صحافی ہی نہیں ایک بہترین ادیب بھی ہیں ۔ اِن مضامین میں سے علامہ اقبالؔ پر لکھے مضمون ’ اقبالؔ بانگِ درا کی روشنی میں ‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ کریں ، ’’ ’ بانگِ درا ‘ میں اقبالؔ کی شاعری کا محور حرکت اور خودی ہے ۔ ان کی تمام شاعری کا مقصد بھی انسانی زندگی کو جوئے آب سے بحرِ بیکراں میں بدل دینا ہے اور ’ بانگِ درا ‘ بھی ان کے اسی مقصد کی ترجمانی کرتی ہے ۔‘‘ ایک مضمون ’ نئی شاعری : چند معروضات ‘ میں وہ نئی شاعری کی ایک ایسی ’ تعریف ‘ پیش کرتے ہیں جو پڑھنے والوں کو یہ سچنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ اب تک جسے نئی شاعری سمجھتے رہے ہیں ، وہ نئی شاعری ہے بھی یا نہیں ؟ وہ لکھتے ہیں ، ’’ کسی شاعری کے نیا قرار پانے کے لیے ان باتوں کا ہونا ضروری ہے ۔ ۱) کہ وہ اپنے شاعر سے تعلق رکھتے ہوئے روحِ عصر سے ہم آہنگ ہو ۔ ۲) جس زمانے کی تخلیق شدہ ہو وہ زمانہ بھی بہ اعتبار تغیر و تبدیلی نیا ہو ۔ ۳ ) نئے مزاج اورذہن سے مطابقت رکھتے ہوئے کہیں روایتوں سے انحراف کرتی ہو اور کہیں ان روایتوں کی خوبصورت توسیع کرتی ہو ۔ ۴) اسلوب ، ہیٔت اور زبان میں بھی نیا پن رکھتی ہو ۔ اور جو شاعری ان تقاضوں کو پورا نہیں کرتی چاہے وہ جدید شاعری ہو یاترقی پسند شاعری ، نئی کہلانے کی مستحق نہیں ہو سکتی ۔ ‘‘ جگہ کی تنگی کے سبب اِن تمام مضامین پر بات ممکن نہیں ہے ، ورنہ ساحرؔ کی شاعری میں ڈرامائی عناصر کا ، کیفی ؔ کی شاعری میں سوشلزم کا ، جعفری صاحب کی شاعری میں صبحِ فردا کا اور پروینؔ شاکر کی شاعری میں نسائی جذبوں کے اظہار کا ، انہوں نے جس خوبصورت انداز میں ذکر کیا ہے ، اس پر بھی بات کرتا ۔ نثر پر جو مضامین ہیں ، وہ بھی اعلیٰ پائے کے ہیں ، ان میں ایک مضمون محمد حسین آزاد کی انشاپردازی پر ہے ، یہ ایک وقیع مضمون ہے ، سراج نقوی کا ماننا ہے کہ آزاد کا اصلی میدان انشاپردازی ہی ہے ۔ ایک مضمون اپنے دور کی ایک خاتون افسانہ نگار پر ’ برہنہ اسلوب کی فکشن نگار : واجدہ تبسم ‘ کے عنوان سے ہے ، یہ مضمون اس لیے اہم ہے کہ واجدہ تبسم پر کم لکھا گیا ہے ، شاید اس لیے کہ واجدہ تبسم پر فحاشی کا لیبل لگ گیا تھا ۔ سراج نقوی لکھتے ہیں ، ’’ واجدہ کی کہانیاں درحقیقت اسی لیے کچھ لوگوں کو بے چین کرتی ہیں کہ ان کہانیوں میں ان ’ شریف اور عزت دار ‘ لوگوں کو اپنا مکروہ چہرہ نظر آجاتا ہےاور ہمارے حسن پرست سماج میں بدصورتی کو برداشت کرنے کا حوصلہ کم از کم شریف اور عزت دار لوگوں میں کم ہی ہوتا ہے ۔‘‘ ایک مضمون ’ خواجہ معین الدین ؒ چشتی کی ادبی خدمات ‘ کے عنوان سے ہے ، اس میں حضرت ؒ کی کتابوں اور رسائل کے حوالوں سے حضرتؒ کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے ، حالانکہ یہ ایک مختصر مضمون ہے لیکن ہے جامع ۔ باقی کے مضامین ہیں ، ’ مکتوبات اردو کا ادبی و تاریخی ارتقا‘ ایک جائزہ ‘ ، ’ ڈاکٹر امیر اللہ خان شاہین ، مقدمہ سیر المصنفین کی روشنی میں ‘ ، ’ اردو زبان کا تہذیبی ورثہ ‘ ، ’ اردو کے فروغ میں فلموں کا کردار ‘ اور ’ اردو میں طنز و مزاح ، ایک جائزہ ‘۔ یہ سارے ہی مضامین تحقیق کے بعد محنت سے لکھے گئے ہیں ، اور اس خوبصورتی سے لکھے گئے ہیں کہ قاری پڑھنا شروع کرتا ہے تو پڑھتا چلا جاتا ہے ۔ بہترین ادبی مضامین کا یہ مجموعہ 223 صفحات پر مشتمل ہے ، اور قیمت 300 روپیہ ہے ۔ کتاب ’ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی ‘ سے سفید مضبوط کاغذ پر شائع ہوئی ہے ۔ کتاب کا انتساب والدین کے نام ہے ؛ ’ مشفق و مہربان والدین علی مہدی نقوی اور صادقہ خاتون کے نام جن کی تربیت اور دعائیں زندگی کی راہوں کو آج بھی روشن کر رہی ہیں ۔‘