Home نقدوتبصرہ عظیم آباد کے فارسی اساتذہ-مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 

عظیم آباد کے فارسی اساتذہ-مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 

by قندیل
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
عظیم آباد کو لوگ عموماً دبستان اردو کے ایک مرکز کی حیثیت سے جانتے اور پہچانتے ہیں، لیکن کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ یہ فارسی زبان و ادب میں ’’سبک ہندی‘‘ کا بھی مضبوط مرکز رہا ہے، یہاں کے فارسی شعرا و ادبا نے فارسی زبان و ادب کی جو مشاطگی کی ہے، اس سے دنیا واقف ہے، تاریخ ادبیات ایران پر لکھی گئی معتبر کتابوں میں عظیم آباد کی فارسی خدمات کا بڑے وقیع الفاظ میں تذکرہ کیا گیاہے۔
آزاد ہندوستان میں فارسی کا چلن کم ہوا تو اس کے پڑھنے والے بھی کم ہوتے چلے گئے، کم کا مطلب ختم ہونا نہیں ہوتا ہے۔ اب بھی یونیورسیٹیوں میں فارسی پڑھائی جاتی ہے، لڑکوں کی تعداد اس شعبے میں کم ہوتی ہے، لیکن شعبہ جاری ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ فارسی پڑھانے والے اساتذہ بھی موجود ہیں  ماضی میں عظیم آباد کے فارسی اساتذہ کی بڑی آن بان شان تھی اور ان میں سے بہت ساروں کی حیثیت آفتاب و ماہتاب کی رہی ہے۔
فارسی زبان و ادب سے عدم دلچسپی اور معاشی میدان میں کساد بازاری کے باوجود بعض اہل علم، فارسی زبان و ادب کی شمع تدریسی اور تحریری طور پر روشن کیے ہوئے ہیں، ان میں ایک نام ڈاکٹر محمد رضوان اللہ آروی (ولادت ۱۲؍مئی ۱۹۵۹) بن حافظ بشیر احمد مرحوم پروفیسر و صدر شعبہ اردو فارسی جین کالج آرہ بہار کاہے، جن کی تحقیق اور نثرنگاری میں امتیاز کے اہل علم و ادب قائل ہیں، ان کی آٹھ کتابیں ناول امراؤ جان ادا از مرزا ہادی رسوا کا تنقیدی مطالعہ مقدمہ و متن، ختم سفر کے بعد (سفرنامہ) بازیافت (مجموعہ ٔ مضامین)بہار کی فارسی شاعری کے فروغ میں شعراے پھلواری کا حصہ (تذکرۂ شعرا) متاع قلیل (مجموعۃ مضامین) چند کتابیں چندخیال و تاثرات و تبصرے، چراغوں کا دھواں (رپور تاثر) لفظ و معانی(مقالات ادبیات فارسی) خاص طور سے قابل ذکر ہیں، انہوں نے حجۃ العارفین سلسلہ ابو العلائیہ کے قدیم ترین تذکرہ اور  مکتوبات حسنیہ و ملفوظات حضرت مخدوم شاہ حسن علی قدس سرہ کا فارسی سے اردو میں ترجمہ بھی شامل ہے، آخر الذکر پر میں نے پی ایچ ڈی کے لیے ایڈیشن ورک کیا تھا اور اس کا اردو ترجمہ بھی مکمل ہو گیا تھا، میرے گائیڈ پروفیسر متین احمد صبا بہار یونیورسٹی مظفرپور تھے۔ ان کے مرنے کے بعد میرا سارا کام ان کے یہاں ہی رہ گیا، بلکہ کہنا چاہیے کہ ضائع ہوگیا۔ میں ساری محنت کے باوجود پی ایچ ڈی کی ڈگری سے محروم رہا، اس کا غم اس قدر نہیں ہے، جتنا اس علمی سرمایے کے ضائع ہونے کا ہے، بات نکل آئی تو درد چھلک آیا۔
ڈاکٹر رضوان اللہ صاحب ان دنوں روضۂ رضوان(مجموعہ مقالات در نقد پثروہش متون ادب فارسی) اور مکتوبات حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد منیری کا فارسی سے اردو ترجمہ کرنے میں مشغول ہیں اور اس کو انہوں نے اشارات کا نام دیا ہے۔
عظیم آباد کے فارسی اساتذہ نامی کتاب کے صفحات دو سو ساٹھ ہیں، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے چھپی اس معیاری کتاب کی قیمت تین سو پچاس روپے رکھی گئی ہے، جو اس خوبصورت دیدہ زیب، طباعت سیٹنگ وغیرہ کے اعتبار سے ممتاز کتاب کے لئے زیادہ نہیں معلوم ہوتی۔ ٹائٹل پر اساتذہ فارسی کی تصاویر دیکھ کر کتاب کا قاری ان اساتذہ کے حوالے سے بھولی بسری یادوں میں کھوجاتا ہے۔ کتاب کا انتساب ہم سر غم گسار نکہت آرا کے نام ہے، جو ان کی نصف اول ہی ہوں گی، زمانہ بھر کے دکھوں کو دل سے لگالینے کا حوصلہ اسی آسرے پر ملتا ہے کہ کوئی غم گسار ہے اور وہ ماں کے بعد اہلیہ ہی ہوتی ہے۔
کتاب کا آغاز ’’انہی کے دم سے فروزاں تھے ملتوں کے چراغ ‘‘سے ہوتا ہے، جو مصنف کے قلم سے ہے، عنوان اس قدر پیارا ہے کہ طبیعت پڑھنے کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔ اس میں مصنف نے کتاب کے وجود میں آنے کے اسباب اور مندرجات کے دروبست پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، یہ تفصیل بھی ساڑھے تین صفحات میں سمٹ گئی ہے، دریا کو کوزے میں بند کرنا شاید اسی کو کہتے ہیں۔
کتاب میں فارسی کے دس نام ور اساتذہ کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے، یہ دس اساتذہ پروفیسر سید شاہ عطاء الرحمن عطا کاکوی، پروفیسر اقبال حسین، پروفیسر سید حسن ، پروفیسر فیاض الدین حیدر، پروفیسر خواجہ افضل امام، پروفیسر سید علی حیدر نیر، پروفیسر محمد صدیق، ڈاکٹر سید اطہر شیر، پروفیسر انوار احمد، پروفیسر غلام مجتبیٰ انصاری ہیں جن کی خدمات فارسی زبان و ادب کے حوالے سے اس کتاب میں مرقوم ہیں۔ ان میں بعض وہ ہیں جن سے میری ملاقات تھی اور بعض سے استفادہ کا بھی موقع ملاتھا۔ پروفیسر غلام مجتبیٰ انصاری میرے ضلع کے تھے اور میں نے ان کے تحقیقی مقالے سید قاسم حاجی پوری سے تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی کی ترتیب کے وقت بہت فائدہ اٹھایا تھا، بہار مدرسہ بورڈ تاریخ و تجزیہ کی تصنیف کے وقت ان میں سے کئی اساتذہ سے انٹرویو بھی لیا تھا اور ان سے حاصل معلومات کو اپنی کتاب کا جز بنایا تھا، پروفیسر اقبال حسین کو خود نوشت’’داستاں میری‘‘ بھی بڑے ذوق و شوق سے میرے مطالعے میں رہی تھی، ڈاکٹر رضوان اللہ آروی کی اس کتاب کو پڑھتے وقت میں ماضی میں ڈوبتا چلاگیا، کیسے کیسے لوگ تھے، جن کو زمین کھاگئی، زبان و ادب اور تحقیق و تنقید کا کیسا جذبہ ان اساتذہ میں تھے۔ مس خام کو کندن بنانے کا فن کس قدر ان کے پاس تھا، اپنے شاگردوں سے کس قدر وہ لوگ محبت کرتے تھے ماضی سے حال اور پھر مستقبل میں جھانکنے کی کوشش کرتاہوں تو تاریکی کا ایک جالا سا نظر آتا ہے۔ تاریکی اور صرف تاریکی، ڈاکٹر رضوان اللہ آروی نے لکھا ہے اور بجالکھا ہے’’یہ احساس بھی ستم زا ہے کہ الماس و گہر کی مانند، اساتذہ کے ان فرمودات و ارشادات کو مادہ پرستی کے اس دور میں ہم کہاں لے کر آئے ہیں، جب دوائے دل بیچنے والے اپنی دکان بڑھا چکے ہیں اور جوہری بازار سخن بند کر چکے ہیں‘‘ یقینا حال مایوس کن ہے، لیکن ہم ایمان والے دور افق میں روشنی کی ہلکی سی لکیر دیکھتے ہیں، یہ لکیریں پھیلیں گی تو علم و فن کی دنیا پھر سے روشن ہوگی۔
میں اس اہم کتاب کو علمی دنیا میں ایک اضافہ سمجھتا ہوں اور مصنف کو مبارکباد دیتاہوں کہ قینچی اور پیسٹنگ کے اس دورمیں آپ نے پتہ پانی کرکے تحقیق کے معیار و وقار کو بچالیا ہے اور نئی نسل کو روشنی دکھانے کا کام کیا ہے کہ تذکرہ و تحقیق کو کس طرح شیر و شکر کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی نثر اس قدر شستہ اور اسلوب اس قدر پاکیزہ ہے کہ کتاب اٹھانے کے بعد مطالعہ مکمل ہوئے بغیر رکھنے کو جی نہیں چاہتا، اگر آپ دوسرے تقاضے سے اٹھ گئے تو بھی دل کتاب کی طرف لگا رہتا ہے اور موقع ملتے ہی آپ اس کے مطالعے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اس تبصرہ کو پڑھ کر کتاب پڑھنے کی خواہش جاگ گئی ہو تو بک امپوریم اردو بازار، سبزی باغ، پٹنہ-۴ سے اسے حاصل کرسکتے ہیں۔

You may also like

Leave a Comment