Home ستاروں کےدرمیاں عزیز انور ندوی کی یاد میں-محمد اویس سنبھلی

عزیز انور ندوی کی یاد میں-محمد اویس سنبھلی

by قندیل

سنبھل کے قریبی اعزہ میں بچپن کے ساتھیوں میں میرے علاوہ تین اورتھے۔ ہم تینوں کی پیدائش دوچار ماہ کے آگے پیچھے کی تھی ۔ ایک میرے ہم نام اُویس ، دوسرے یوسف اور تیسرے عزیز انور ،کہ آج کی اس تحریر کی وجہ عزیز انور ہے،بڑا پیارا،ہنس مکھ اور بے حد کھرا،سچا ۔درمیانہ قد،گٹھا ہوا جسم ،مسکراتی آنکھیں ، نورانی پیشانی،حافظ قرآن، عالم باعمل عزیز انور ندوی کا ہنستا ہوا چہرہ آج مجھے رُلا گیا۔وہ گذشتہ اتوار کو حادثاتی طور پر آگ کی زد میں آگیا، جسم کا زیادہ حصہ جل چکا تھا۔ دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا ، علاج چلا ،لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا تھا، زندگی ہارتی جارہی تھی۔ بالآخر وہ گھڑی آگئی جس کا خدشہ پہلے وقت سے لگا ہوا تھا کہ 16؍اکتوبر2024ء کی شب عزیز انور نے رخت سفر باندھ لیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ وہ واقعی مرد مومن تھا ، جب تک ہوش میں رہا، اپنے تیمارداروں کو دلاسہ دیتا رہا،ان کا حوصلہ بڑھاتا رہا، کلمہ پڑھتا رہا ۔اللہ تعالیٰ آگے کی منزل آسان فرمائے اور قرب کا اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

عزیز انور کی ولادت 1980ء میں سنبھل میں ہوئی تھی۔انہوں نے سنبھل کے مدرسہ مدینۃ العلوم میں حفظ قرآن کیا اوروہیں فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی، چند سال گذرے تھے کہ کسی وجہ سے تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔کئی سال بعد تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا اور دار العلوم ندوۃ العلماء سے 2009ء میں عالمیت اور 2011ء میں فضیلت کرنے کے بعددار العلوم ندوۃ العلماء سے ہی بہ حیثیت مبلغ وابستہ ہوگیا،کچھ دنوں بعد اس خدمت سے دست بردار ہوکر دہلی چلا گیا اور وہاں کئی اداروں سے وابستہ اور دست کش ہوا۔ سنگم بہار،دہلی میں ندوۃ العلماء لکھنؤ کی ایک شاخ سے وابستہ رہا لیکن اپنی تند مزاجی کے سبب اس سے بھی الگ ہوگیا۔اس کے بعدغفار منزل میں’ القرآن انسٹی ٹیوٹ‘ سے وابستہ ہوکراشاعت دین کا کام کیا لیکن کچھ عرصہ بعداس کوبھی الوداع کہہ دہا۔ وہ غفار منزل، جوہری فارم ،شاہین باغ وغیرہ کی مساجد میں امام و خطیب بھی رہا ۔در اصل بھائی عزیز انور کے مزاج میں اعتدال سے بڑی حرارت تھی، جو ناروا باتوں پر بھڑک اُٹھتی تھی،اس وجہ سے وہ کسی بھی ادارے میں ٹھہر کر کام نہ کرسکا۔

وہ اردو، عربی زبان میں مہارت رکھتا تھا، انگریزی زبان میں بھی ثروت مند تھا۔قرآن پر گہری نظر تھی، اس کادرس قرآن بہت مشہور تھا ،جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے طلباء اور اساتذہ بھی اس کے درس میں شریک ہوتے تھے۔ پھر اس نے اپنا علمی مستقر جامعہ ہمدرد کا شعبۂ اسلامک اسٹڈیز کو بنایا اور چھ سات ماہ ملازمت کرنے کے بعد دعوت و تبلیغ کے لیے چلا گیا ،ابھی چنددن پہلے ہی وطن (سنبھل) واپس ہوا تھا کہ ایک حادثہ کے سبب آگ کی زد میں آگیا اور اسی فیصد سے زیادہ جسم جل گیا،بہت سے وائٹل آرگن شدید طور پر متاثر ہوگئے تھے۔

میرے بچپن کے ان ساتھیوں میں اُویس کا دل پڑھائی میں کم لگتا تھا، سیر و تفریح اور شکار اس کے پسندیدہ شوق تھے۔ یوسف اور ہم بھی صرف ضرورت بھر پڑھائی کرتے تھے لیکن عزیز انور تو بچپن سے ہی تعلیم کے سلسلہ میں سنجیدہ رہا تھا۔ایک وقت تھا کہ ہم لوگوں کی روزانہ ہی بیٹھک ہوتی ،جوبہت لمبی ہوتی اور وہ تمام باتیں ہوتیں جو اُس عمر کے خاندانی دوستوں میں ہواکرتی ہیں۔ ہنسی مذاق، سیر و تفریح اور کبھی کبھی فجر بعدایرگن سے چڑیا کاشکارکے علاوہ زیادہ وقت کرکٹ کھیلنے میں گزرتا تھا۔ شدید گرمی کے موسم میں تپتی زمین پر کرکٹ کھیلنا اور کبھی کبھی ایک ساتھ ٹیوب ویل پر جاکر نہانا، یہ سب ہم لوگوں کے معمولات میں شامل تھا۔

ہم لوگوں کی عمر کوئی 13؍14برس رہی ہوگی کہ ایک مرتبہ ہم لوگ(یوسف کو چھوڑکر) 3؍دن کی جماعت میں گئے۔اس کی دعوت بھی عزیز انوراور ہماری مسلمہ پھوپھو یعنی عزیز کی والدہ نے ہی کی تھی۔ جماعت کے امیر عزیز انور کے والد تھے۔ سنبھل سے قریب 15؍کلومیٹر کے فاصلے پر جماعت محمود پور نام کے ایک گاؤں میں پہنچی۔ ظہر کا وقت ہونے کو تھا ہم لوگ وضوسے فارغ ہوئے کہ عزیز نے اپنے بیگ سے پوسٹ کارڈ وقلم نکالا اور اپنی والدہ کو خیریت سے پہنچنے کا خط لکھا۔ مقامی لوگوں میں سے کسی سے لیٹرباکس کی جگہ دریافت کی اور خط پوسٹ کرنے چلے گیا۔ ہم لوگوں نے اس پراس کا خوب مذاق بھی بنایالیکن یہ اس کا معمول تھا، جس کا اندازہ ہمیں بہت بعد میں ہوا۔یہ اور اس طرح کے بے شمار واقعات اس کی حادثاتی موت کی خبر سن کرذہن میں تازہ ہوگئے۔

میرے لکھنؤ آجانے کے بعد عزیز انورسے ملاقاتوں کا سلسلہ بہت کم ہوگیا تھا، لیکن جب کبھی ملاقات ہوتی تو وہ بڑے پُرتپاک انداز میں ملتا۔ ایک واقعہ یادآیا! عزیز نے مجھے اپنی شادی میں نہیں بلایا تھا، غالباً سنبھل میں گھر پر دعوت دینے کو ہی کافی سمجھا ہوگا۔ میری والدہ نے جب اس کی اطلاع دی تو میں ازخود سنبھل پہنچ گیا اور اس کے ولیمہ میں شرکت کی۔مجھے دیکھ کر اس نے اپنے عمل پرمعذرت کی، پچھتاوے اور شرمندگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’اویس تم نے آج شرکت کرکے بے پناہ محبت کا ثبوت پیش کیا ہے، میں ہمیشہ اسے یاد رکھوں گا‘۔

یہاں ایک اور دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتا ہوں۔عزیز کی اہلیہ کانام کوثر ہے، وہ اس سے نہ صرف محبت کرتا تھا بلکہ دوستوں کے درمیان اس کے اظہار میں بھی اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ایک مرتبہ میں دہلی سے بذریعہ بس سنبھل آرہا تھا۔ بس میں سوار ہوتے ہی دیکھا کہ عزیز انورپہلے سے موجود ہے، میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور اس کے قریب جاکربیٹھ گیا۔ سوچا کہ اس کے ساتھ سفر بہت خوشگوار گزر جائے گالیکن یہ سفر میرے لیے مشکل ترین سفر ثابت ہوا کہ عزیزانور اب پہلے والا عزیزانور نہیں رہا تھا۔ پہلے وہ ہنسی مذاق کرتا تھا، اللہ رسول کی باتیں کرتا تھا اور کبھی کبھی اپنی عملی زندگی کے بارے میں بھی کچھ باتیں کرلیا کرتا تھا ۔ ہم سب میں وہ سب سے زیادہ قابل تھا لیکن اس ملاقات میں احساس ہوا کہ اب اس کی گفتگو کا موضوع کا بدل گیا ہے۔ پہلے اس نے اپنی ازدواجی زندگی کی خوبیوں اوراسے لے کر اپنی خوشیوں کا ذکر کیا ۔ پھر کچھ ہم سے معلوم کیا ، لیکن اس کے بعد اس کی زبان پر ایک ہی قصیدہ تھا اور اس قصیدہ کا نام ’’موج کوثر‘‘ تھا۔راستہ طویل اور گرمی کی شدت سے برا حال ہورہا تھا، ایسے میں ضرورت’ جامِ کوثر‘ کی تھی لیکن زبان تو خشک ہی رہی البتہ’ذکر کوثر‘اتنی مرتبہ سماعت سے ٹکرایا کہ اگلی کسی ملاقات میں عزیزانور کو ’کوثر‘ کہہ کر ہی پکارا۔وہ ناراض ہوا، خوب غصہ کیا ،بلکہ اُویس اور مجھے یہ تک کہہ ڈالا کہ بہت خبیث ہو گئے ہوتم لوگ۔ لیکن اس کے اندر محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ، اس لیے زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہ سکتا تھا۔ زندگی میں بہت سی مشکلات کا عزیز کو سامنا کرنا پڑا لیکن ؎

چلاجاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے

اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہوجائے

کے مصداق اس نے زندگی کو ہنس کر گزارا ، محبت کے ساتھ جیا ۔ایک حادثے کے نتیجہ میں عزیزانور وہاں پہنچ گیا ،جہاں دیر سویرہم سب کو جانا ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا۔

عزیز حافظ قرآن تھا، کثرت سے تلاوت کرتا تھا اورہرسال بڑے اہتمام سے رمضان المبارک میں قرآن کا دور مکمل کرتا۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء سے مستند تھا ہی،لہٰذا دین کی تبلیغ میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ، جو کچھ اس نے اپنے اساتذہ سے حاصل کیا تھا، اسے دوسروں تک پہنچاتا رہا۔ نہایت خوش گفتار اور بے حدخوش اخلاق تھا۔ سنبھل میں رہنے کے باوجود انتہائی نستعلیق زبان بولتا تھا۔اس کے ساتھ گفتگو میں لطف آتا تھا۔اس کی بہت سی باتوں سے اختلاف ہوتا، ہم اس کا اظہار کرتے، وہ ناراض ہوتا اور اپنی ہی بات منوانے کی کوشش میں لگا رہتا۔ اپنے بھائیوں اور بہنوں سے بہت محبت کرتا، دوڑ دوڑ کر ان کے کام کرتا ،سب سے چھوٹی بہن پر تو گویاجان چھڑکتا تھا ۔ جس کا جو حق ہے وہ ادا کرنے کی کوشش کرتا ۔ میرے نزدیک جنت میں جانے کے لیے جن خوبیوں کی ضرورت ہوگی، ایسی اکثرخوبیاں اس میں موجود تھیں ۔ ہاں! بشری کمزوریاں کس میں نہیں ہوتیں، عزیز انورمیں بھی تھیں۔اس نے دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں 16؍ اکتوبر2024ء کی دس بجے شب میں آخری سانس لی، جسد خاکی وطن سنبھل لایا گیا۔ بڑے بھائی مولانا ایاز انور نے نماز جنازہ پڑھائی اورجس میدان میں کرکٹ کھیل کر ہم بڑے ہوئے، اسی میدان میں آج منوں مٹی تلے عزیز انور کو دفن کردیا گیا۔ایک ایسا دوست جو سچ بولتا تھا، مصلحت اور مصلحت آمیز مصالحت سے کوسوں دور تھا،ہم سے بچھڑ گیا، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کی لغزشوں کو درگزر فرمائے اور سیات کو حسنات میں مبدل فرمائے۔ آمین۔ احباب سے دعائے مغفرت کی درخواست ہے۔

عزیز انور کے انتقال سے ہمیں یہ سبق بھی لینا چاہیے کہ ایک دوسرے سے پیار کریں،کیوں کہ جدائی کبھی وارننگ دے کر نہیں آتی۔ایک دوسرے سے اس کا حال احوال دریافت کرتے رہیں، کوئی نہیں جانتا کہ آخری کال، یا ملاقات کب ہوگی ۔ ایک دوسرے کا ساتھ برداشت کریں کیوں، کہ لفظ’’کاش‘‘ جانے والوں کو واپس نہیں لاسکتا ، یاد رکھیں! زندگی میں ایک’ مہربان،دل خوش کن لفظ‘، مُردے کی پیشانی پر بوسہ دینے سے کہیں بہتر ہے۔

You may also like