اِس وقت حکومت خود عذاب میں ہے۔ احتجاج کے ذمہ داران پلٹ کر محض ایک ہی سوال کئے جارہے ہیں کہ این پی آر کا کیا ہوگا۔ وہ احتجاج ملتوی کرنے کی گزارشات کرنے والوں کو لعن طعن بھی کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے ایسا کیوں نہیں کیا’ ویسا کیوں نہیں کیا۔
حکمران وقت مضبوط اقتدار رکھنے کے باوجود شرپسندی اور غنڈہ گردی پر اُترے ہوئے ہیں۔ ان سے کسی خیر یا اچھے فیصلے کی توقع نہیں رکھی جانی چاہئے۔ لیکن خود ہمیں ایسی صورت میں اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرنے سے کون روک رہا ہے؟ وقت کے تقاضوں کے مطابق مصلحت کوشی عین اسلام ہے۔وقتی طور پر پیچھے ہٹ جانا مستقل پسپائی نہیں ہے۔۔۔ بلکہ مستقبل کی لڑائی کے لئے تازہ دم ہوکر پلٹ آنے کا سنہرا اصول ہے۔
اِن حالات میں این پی آر نہیں ہوسکتا۔این آر سی اور سی اے اے کا مقدمہ عدالت میں ہے۔ حکومت کو احتجاج گاہوں میں اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھنے والے جانبازوں کی کلفت کی کوئی فکر کیوں ہوگی۔۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اُسے جتنا پیچھے ہٹنا تھا وہ ہٹ چکی ہے۔۔ اس سے زائد وہ کچھ نہیں کرے گی۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے بیانات اس کا مظہر ہیں ۔
لکھنؤ اور دیوبند جیسے مقامات پر پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی جانباز خواتین نے اپنے احتجاج وقتی طور پر اٹھا لئے ہیں۔سپریم کورٹ ہم سے ایک سے زیادہ مرتبہ اپیل کرچکی ہے۔۔۔ یوگیندر یادو’ پرشانت بھوشن اور ابھینو سنہا جیسے لوگ بھی اپیلیں کرچکے ہیں۔ ایسے میں بعض مقامات پر ضد پر اڑے رہنا سخت سیاسی نقصان کا باعث ہوگا۔ ہم اپنے بہت سے ہمدردوں کو نہ صرف رسوا کریں گے بلکہ انہیں کھو بھی دیں گےـ
(مضمون میں پیش کردہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات کی بنیاد پر قندیل کاان سے اتفاق ضروری نہیں)