Home تجزیہ اعظم خان پھر یوگی کا نشانہ !-شکیل رشید

اعظم خان پھر یوگی کا نشانہ !-شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

بات اعظم خان کی ہوگی ، اور جب بات اعظم خان کی ہوگی تو یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا ذِکر ہوگا ہی ۔ اعظم خان کے نام کے ساتھ یوگی کا نام لینا اِن دنوں ناگزیر ہو چکا ہے ۔ اعظم خان کے ساتھ جو ہوا ، اور ہو رہا ہے ، اس کی بنیادی وجہ اُن سے یوگی کی شدید ترین نفرت ہے ۔ اسے شدید ترین مسلم دشمنی بھی کہا جا سکتا ہے ۔ بدھ کے روز سے اعظم خان کے ٹھکانوں پر محکمہ انکم ٹیکس کے چھاپے شروع ہوئے جو اب تک جاری ہیں ۔ یوپی سے لے کر ایم پی تک مجموعی طور پر تیس ٹھکانوں پر چھاپہ ماری جاری ہے ، رام پور میں اعظم خان کی رہائش گاہ پر بھی چھاپے مارے گئے ہیں ۔ اعظم خان پر کوئی اسّی کیس درج ہیں ، جن میں سے اکثر زمینوں پر قبضہ کے ہیں ۔ الزام ہے کہ رام پور میں جوہر یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے ان زمینوں کا استعمال کیا گیا ہے ، حالانکہ اب تک کچھ ثابت نہیں ہو سکا ہے ۔ دراصل یوگی خود کو ’ ہندوتوا کا مشعلچی‘ سمجھتے ہیں اور اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خود کو دوسروں کے مقابلے سب سے بڑا ’ ہندوتوادی ‘ ثابت کریں ، اور یہ ثابت کرنے کے لیے اس سے بہتر اور کیا ہوگا کہ اعظم خان کو نشانہ بنا کر ، ساری مسلم اقلیت کو متنبہ کر دیں کہ ’ جب سماج وادی پارٹی کا اتنا بڑا لیڈر میرے سامنے نہیں ٹھہر سکا تو تم سب کیا ٹھہر سکو گے ‘۔ ویسے اس چھاپہ ماری کا ایک سبب گھوسی میں بی جے پی کی ہار بھی ہے ۔ دارا سنگھ چوہان کی ہار نے یوگی ، اور امیت شاہ ہی کا ہی نہیں پی ایم مودی کا چہرہ بھی دھواں دھواں کر دیا ہے ، اسی لیے اعظم خان پر چھاپے ماری کرکے ایس پی کے تمام لیڈروں کو بالخصوص اکھلیش یادو کو یہ اشارہ دیا جا رہا ہے کہ اگر انہوں نے بی جے پی کے سامنے سرنڈر نہیں کیا تو جو کچھ اعظم خان کے ساتھ ہو رہا ہے ، وہی تم سب کے ساتھ کیا جائے گا ۔ لیکن اب اپوزیشن دھمکیوں سے خائف ہونے والا نہیں ہے ، اس کا اتحاد ’ انڈیا ‘ آرپار کی لڑائی کے لیے تیار نظر آ رہا ہے ۔ ویسے بھی اعظم خان پر ان چھاپوں سے اپوزیشن کو کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے ، کانگریسی رہنما دگ وجئے سنگھ پہلے ہی پیشن گوئی کر چکے ہیں کہ جلد ہی اپوزیشن پر چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوگا ۔ جہاں تک اعظم خان کی بات ہے تو اُن پر ایک الزام ہیٹ اسپیچ کا بھی تھا ۔ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے ۲۰۱۹ء میں لوک سبھا کے لیے الیکشن مہم کے دوران رام پور میں نفرت انگیز تقریر کی تھی ، اور اپنی تقریر میں یوگی و مودی اور رام پور کے ڈی ایم کے خلاف ’ نفرت کی بولی ‘ بولی تھی ۔ باالفاظ دیگر اعظم خان کا خاص نشانہ یوگی اور مودی تھے ۔ عدالت نے اعظم خان کو مجرم قرار دیا تھا ، سزا دی تھی ، لیکن اس معاملہ میں اب انہیں بری کر دیا گیا ہے ، یعنی ثابت ہوگیا ہے کہ انہیں پھنسایا گیا تھا ۔ لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اعظم خان ہیٹ اسپیچ کے مجرم تھے ، تب بھی حکام سے یہ سوال تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ یہ جو یوگی اور مودی اور اُن کے گرگے بولتے ہیں کیا وہ ’ نفرت کی بولی ‘ نہیں ہے ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ جب یوگی قبروں کو کھود کر مُردہ خواتین کو نکال کر اُن کی عصمت دری کی بات کرتے ہیں تو اُسے ’ ہیٹ اسپیچ ‘ نہیں مانا جاتا ، جب امیت شاہ کہتے ہیں کہ ’ کرنٹ شاہین باغ تک جائے ‘ تو اسے ہیٹ اسپیچ نہیں مانا جاتا ، جب پرویش ورما مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا نعرہ لگاتے ہیں تب وہ نعرہ ’ ہیٹ اسپیچ ‘ نہیں کہلاتا ، جب اس ملک میں ’ دیش کے غداروں کو ، گولی مارو … کو ‘ کے نعرے لگتے ہیں اور دہلی جل اٹھتی ہے ، تب بھی وہ نعرہ ’ ہیٹ اسپیچ ‘ نہیں مانا جاتا ، لیکن جب کسی اعظم خان کی زبان سے کسی بی جے پی لیڈر کے لیے ’ کُتّے کے بچے کے بڑے بھائی ۔۔۔ ‘ کا جملہ نکل جاتا ہے ، تو فوراً اسے ’ ہیٹ اسپیچ ‘ مان لیا جاتا ہے ! کیا کسی کو یاد نہیں ہے کہ ملک بھر کے وزیراعظم نے ایک مخصوص فرقے کو ’ کتّے کا پلّا ‘ سے تشبیہ دی تھی ؟ لفظ ’ کتّا ‘ اعظم خان نے استعمال کیا تو اسے ’ ہیٹ اسپیچ ‘ مان لیا گیا ، لیکن جب پی ایم نے استعمال کیا تھا تو وہ جائز تھا ! یوگی آج فرقہ پرستوں کی آنکھ کا تارا ہیں ، اس کی وجوہ ہیں ، انہوں نے یوپی میں مسجدیں شہید کروائی ہیں ، بارہ بنکی کی شہید ’ مسجد غریب نواز ‘ کی زمین پر ایک پارک کا سنگ بنیاد رکھوایا ہے ۔ یوپی میں کوئی اسپتال و اسکول اور کالج نہیں بنوایا گیا مگر مسجدوں کی زمین پر ، ایودھیا میں رام مندر اور بارہ بنکی میں پارک بن رہا ہے ۔ یہ یوگی کا ’ ہندوتوا ‘ ہے ۔ بات صرف مسجدوں کی شہادت کی ہی نہیں ہے ، اب تو وہ مسلمانوں کے اُن گھروں کو جو سو سو سال سے بھی زیادہ قدیم ہیں اجاڑنے پر کمربستہ ہوگئے ہیں ۔ سی اے اے مخالف تحریک کے دوران وہ مسلمانوں کی املاک کو ہتھیا ہی چکے ہیں ۔ بہت سارے مسلم سیاست دانوں کو غنڈہ ایکٹ کے تحت سلاخوں کے پیچھے کروا کر ان کے مکانوں پر بل ڈوزر چلوا چکے ہیں ، عتیق احمد اور اشرف کے قتل میں اُن پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں ۔ اور یہ ان کی ہی سرکار ہے جو یوپی کے ان اضلاع اور مقامات کو ، جن کے ناموں سے تھوڑا بھی ’ مسلمانیت‘ جھلکتی تھی خالص ’ سنسکرت نام‘ دے چکی ہے ۔ ان کی حکومت میں ہی وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ و مسجد کی جگہ منادر بنانے کی تحریک تیز ہوئی ہے ۔ ماب لنچنگ کے واقعات ہورہے ہیں ۔ تو یوگی کی ’ زہریلی نیّا ‘ پوری رفتار سے رواں دواں ہے ۔ حالات بہت اچھے نہیں ہیں ، پوری کوشش ہے کہ مسلمانوں کو اقتدار کے گلیاروں سے ڈھکیل کر باہر کر دیا جائے تاکہ یہ جمہوریت ، سیکولرزم اور آئین کے نام پر کوئی جائز مطالبہ بھی نہ کر سکیں ۔ اس کے لیے کیا یہ جا رہا ہے کہ قانون ساز اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی گھٹائی جا رہی ہے ، نام کے مسلمان ، جیسے کہ مختار عباس نقوی اور سید شاہنواز حسین بھی کھٹکتے رہے ہیں اسی لیے اقتدار سے دور ہیں ۔ یوگی نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کیا کہ منتخب نمائندے کو ہی اسمبلی کی رکنیت سے محروم کرا دیا ۔ اعظم خان اسی لیے نشانے پر ہیں کہ ہراسانی سے خائف ہوکر وہ بی جے پی کے سامنے گٹھنے ٹیک دیں ، اور سیاست سے کنارہ کش ہوکر بیٹے اور بیوی کو بھی سیاست سے علحیدہ کر لیں ۔ لیکن اعظم خان ڈٹے ہوئے ہیں ۔ اب واحد حل جبر کے سامنے ڈٹنا ہی ہے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like