Home تجزیہ آزادی کے یہ نعرے کیوں؟  فتح محمد ندوی

آزادی کے یہ نعرے کیوں؟  فتح محمد ندوی

by قندیل

 

ملک کی تقسیم کا الزام اگرچہ اس لابی پر ہے جس میں سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو شامل ہیں۔ اس سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہو گا اور بہت سوں کو اتفاق۔۔۔لیکن مجھے اس سے اختلاف ہے،کیوں ان ہی کو نامزد کر کے مورد الزام ٹھہرایا جائے؟بہرحال اس سے قطع نظر ہم آگے بڑھ تے ہیں اور موجودہ صورتحال کا اس بات کے لیے جائزہ لے لیتے ہیں کہ ملک کی تقسیم کا بیچ سماج میں اب کون بورہا ہےاور کون مادر گیتی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے؟اس پس منظر میں جب ہم ملک کے تئیں مسلمانوں کے جذبات جائزہ لیتے اور ان کی نیتوں کو ٹٹولتے ہیں تو ایک مسلمان بحیثیت مسلمان کے وہ اپنے ملک کے تحفظ کواپنا فرض منصبی اور ملک کے تئیں اپنی محبت کو وہ نہ صرف اپنی ذمہ داری سمجھتا ہےبلکہ اپنے نبی کے فرمان کے مطابق وطن کی محبت کو وہ اپنی جان سےزیادہ عزیز سمجھتا ہے۔

‌دراصل کچھ تجربات اور تاریخی حقائق یہ بات کہنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کل جب ملک کے دو ٹکڑے ہوۓ تھے تو اس وقت بھی ہماری سیاست اور گندی سوچ رکھنے والے سیاست داں زمین کے اس جگر پر سرحد کی لکیر یں کھینچنے میں شامل تھے، آج کی صورتحال کیا ہے ؟کیا ملک میں پھر سے وہی ٹولا سرگرم ہو گیا ہے جس کی نیت میں کھوٹ ہے؟جسے وطن سے محبت نہیں جو یہ نہیں چاہتا کہ ملک میں بھائی چارگی اور اتحاد بنا رہے۔مذہب کے نام پر سیاست،سماج کے نام پر سیاست ،نفرت کی باتیں بلکہ سماج کو بانٹنے کی گندی سوچ، یہ سب کچھ لگتا ہے ایک پلاننگ کے تحت ہو رہا ہے۔ اورہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ ہمارے لیے ہی ہو رہا ہے۔ کیوں؟کیا یہ پلاننگ نہیں کہ پہلے گجرات میں نسل کشی، پھر دہشت گردی کے الزامات، انکا ؤنٹر ناجائز مقدمات، بابری مسجد، طلاق بل، دفعہ ۳۷۰، اب این آر سی اور سی اے اے ۔ کیا کیا نہیں ہوا؟ کیا کیا گنوائیں؟ غرض دوہرے معیار کی تمام داستانوں کے کردار ہمیشہ ہمارے ہی وجود بنے۔پھر بھی ہم نے صبر سےکام لیا، کوئی چوں چرا ہم نے نہیں کیا، کوئی دنگا فساد ہم نے نہیں کیا۔ کتنے زخم ہمارے سینوں پر لگے۔ مذہب اور سماج سے لیکر سیاست تک ہر میدان میں ہمیں آگ کے کتنے دریا عبور کرنے پڑے؟ یہ ماضی کے مر ثیے نہیں جنہیں سنا کر میں آپ کو رلاؤں بلکہ یہ تو ہماری وہ داستان غم ہے جس سے ہمارے دل اور جگرچھلنی ہیں اور لب ہیں کہ خاموشی توڑنے پر مجبور ہیں ۔

‌ اب اہم سوال یہ کہ کیوں ہم احتجاج کر رہیں ہیں، کیوں ہماری مائیں بہنیں اپنے گھروں سے باہر ہیں، کس نے ان کو اس بات کے لیے ابھارا کہ وہ سڑکوں پر احتجاج کریں،ان کے سامنے آ خر اب ایسی کیا مجبور یاں پیش آئیں ؟ ستر سال سے تو وہ سڑکوں پر نہیں آئیں ۔ دراصل یہ اسی ستر سال کا نتیجہ ہے اور اسی ستر سالہ نفرت پر مبنی ہماری کاشت کی وہ فصل ہے جو اب اقلیتی طبقے کے ذہن و دماغ میں اپنی جڑیں تہ تک اتار چکی ہے،اس نفرت اور دوغلی پالیسی کے بیج بونے میں کوئی کسر کسی موقع پر باقی نہیں چھوڑی گئی۔‌یہیں قوموں کے سامنے وہ حساس اور سنگین صورتحال ہوتی ہے جس کی بنیاد پر ملک اور قوموں میں سرحدوں کے نام پر پتھر کی دیواریں اپنے ہی ہم جنس انسانوں کے بیچ میں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔

‌ غریب اور امیر ہونا یہ فطرت کی تکوینی حکمت عملی پر مبنی ہے اس میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے اور نہ ہو گا۔ لیکن بہ حیثیت انسانی اقدار اور سماج کے تئیں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن پر انسان اور سماج کسی بھی اعتبار سے اور کسی بھی حالت میں کمپرومائز نہیں کرسکتا۔مثال کے طور پر عدل وانصاف، شخصی آزادی، مذہبی آزادی، سماجی آزادی، اور تہذیبی آزادی وغیرہ انسانی ضروریات کے یہ تمام وہ عناصر ہیں جن کے بغیر نہ وہ زندہ رہ سکتا ہےاور نہ وہ زندگی کو مکمل سمجھتا ہے بلکہ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی انسان جب یہ سمجھتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ میرے ساتھ یہاں دھوکا ہورہا ہے ناانصافی ہورہی ہے تو وہ نہ صرف آپے سے باہر ہو جاتا ہے بلکہ اپنی جان کو بھی جوکھم میں ڈالنے سےگریز نہیں کرتا ہے۔

‌ اکثریتی فرقے کےلوگ کچھ بھی بول دیں اور کہدیں ان پر کوئی اعتراض نہیں نہ ان پر بغاوت کا مقدمہ دائر ہوتا ہے نہ وہ سلاخوں کے پیچھے جاتے ہیں۔ بلکہ ان کی ڈھٹائی میں مزید اضافہ ہی دیکھ نے کو ملتا ہے۔ ‌اکثریتی فرقے کے لوگوں کو یہ بات ذہن سے نکال دینی چاہیے بلکہ لامحالہ نکال دینی پڑے گی کہ یہ ملک صرف ہمارا ہے۔ اگر وہ اس خوش فہمی پر مبنی اپنے مذموم خیالات کو اپنے ذہنوں سے کھرچ نہیں پھینکتے ہیں تو ہو سکتا ہےان کاتو کوئی نقصان شاید نہ ہو لیکن ملک بہرحال کسی بڑے خطرے سے گزر سکتا ہے۔کیونکہ ملک کی موجودہ صورتحال اور عام لوگوں کی زبان ہمیں اچھا شگون نہیں دے رہی ہے۔ کل تک لوگوں کی یہ ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ آزادی کا لفظ زبان پر لائیں۔ لیکن آج بغیر کسی خوف کے لوگ یہ نعرہ لگا رہیں کہ: ہمیں آزادی دو ہمیں آزادی چاہیے؛یہ اس طرح کے نعرے کل کیا روپ دھار یں گے اس پر تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن کچھ اہم ذاتی تجربے اس حقیقت کو سمجھا نے کے لیے بیان کروں گا۔ کہ یہ نعرے کن مرحلوں سے گزر کر حقیقت کی مجسم تصویر بن جاتے ہیں۔ میں غالباً ۲۰۱۰ میں کشمیر کے سفر پر گیا تھا اس سفر میں میرے علاوہ ملک بھر سے تقریباً ۱۰۰ سے زیادہ لوگ تھے۔ ہم نے اس وقت کشمیر کی صورت حال کا جائزہ لیا اور یہ پروگرام اسی بنیاد پرعمل میں آیا تھا ۔ہم نے کشمیریوں کو دیکھا کہ ان کے آخر جذبات کیا ہیں وہ کیا چاہتے ہیں؟ ان کے دل میں کیا تھا اس کو اللہ جانتا ہے لیکن کسی بھی کشمیری کی زبان پر صاف طور سے یہ لفظ نہیں تھا کہ ہمیں آزادی دو ہمیں آزادی چاہیے۔ لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ ہر کشمیر ی کی زبان بدلی ہوئی ہے اس میں غصہ بھرا ہوا ہے، نفرت کے خلاف ایک شعلہ ہے جو سلگتا ہی جارہا ہے۔ وہ اب سمجھا نے سے بھی نہیں مانتے۔اس مذکورہ صورت حال کی اہم وجوہات خود ہمارا اپنا کردار ہے جو ہم نے بھید بھاؤ کے نام پر کیا۔ ہمیں ان تمام باتوں پر غور کرنا ہے اور اپنے ملک کو بچانا ہے سنجیدہ ہو کر سوچنا ہےکہ ہم سے کیا اور کہاں غلطیاں ہو رہی ہیں؟؟؟؟

You may also like

Leave a Comment