Home تجزیہ آزاد ملک کے گوڈسے – مشرف عالم ذوقی

آزاد ملک کے گوڈسے – مشرف عالم ذوقی

by قندیل

 

۳۰ جنوری 1948ناتھورام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ مہاتما گاندھی ، جو عدم تشدد کے پجاری تھے ، وہ اس دن شام کی پرارتھنا سبھا کے لئے جارہے تھے، گوڈسے اچانک ان کے سامنے نمودار ہوا،ہاتھ جوڑا اور بہت قریب سے گولی مار دی،سابر متی کے آشرم میں ‘’ہے رام‘ کہتے ہوئے گاندھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 30 جنوری۲۰۲۰ : وہ بھی گوڈسے تھا جس کی عمر کبھی چوبیس ، کبھی اٹھارہ ، کبھی سترہ بتایئی گئی، گوڈسے کی نمائندگی کرنے والے اب بھی اس کی حمایت کر رہے ہیں اور گوپال گوڈسے کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔شاہین باغ میں احتجاج جاری تھا ، جامعہ کے نوجوان۳۰ جنوری کوگاندھی کو یاد کرتے ہوئے گاندھی سمادھی کی طرف کوچ کرنے والے تھے ، وہ اچانک ہوا کی طرح لہرایا ،لہرانے سے پہلے وہ فیس بک اکاونٹ پر پوری تفصیل لکھ چکا تھا اور یقینی طور پر سائبر کرائم پولیس کو اس کی معلومات ہوںگی ، وہ گولیاں لہراتا ہوا آیا ، بچنے کے لئے اس کے پاس پولیس کی فوج تھی ، پولیس والے ہاتھ بند کرکے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے ، جیسے کہہ رہے ہوں : بھگوان ! ہمارے مشن کی لاج رکھنا۔ ان کے ہاتھ بندھے تھے تھے اور گوڈسے ان سے چند قدم کے فاصلے پر تھا ، پھر ایک شخص اچانک سامنے آیا، یہ وہی شخص تھا جو رام کی جھانکیوں میں حصّہ لیتا تھا اور جسےملک کے سیکولر ،جمہور پسند نوجوانوں کی طرح کسی گوڈسے کا خوف نہیں تھا ، شاداب نام کا نوجوان آگے بڑھا ،گولی چلی اور اس کے بازو کو زخمی کرتی ہوئی گزر گئی، نا بینا اور اندھے بھکت پولیس والے کب جاگے یا نہیں جاگے ، یہ گفتگو کا موضوع نہیں ہے ۔ میں نے لکھنؤ کا ایک ویڈیو دیکھا ہے ، جس میں ایک پولیس والا بھری بس میں ایک غیر مسلم لڑکی کو گندی گندی گالیوں سے اس لئے نواز رہا ہے کہ وہ ایک مسلم لڑکے کے ساتھ تھی اور اس وقت ہندو مسلم کا ساتھ ہونا حکومت اور پولیس کی نظر میں سب سے بڑا جرم ہے، سب سے بڑا جرم مسلمان ہونا بھی ہے ، پورے ملک میں پولیس کی زیادتیاں اس کا ثبوت ہیں کہ پولیس حیوانیت کی ہر انتہا سے گزرنے کے بعد بھی کچھ نئی فنتاسی ہلاکت کے لئے تلاش کر لیتی ہے ، ابھی 30 جنوری سے قبل ہندو مہا سبھا نے کرنسی نوٹوں پر گاندھی کی جگہ ساورکر کی تصویر دینے کا اشارہ کیا، جو صورت پیدا ہوئی ہے ، اس میں کبھی بھی گاندھی کو مارا جا سکتا ہے ، گوڈسے اور ساورکر ، گاندھی کی جگہ لے سکتے ہیں ،30 جنوری 1948 کو گوڈسے نے کہا کہ انہوں نے ملک کی تقسیم کے ذمہ دار کے طور پر گاندھی جی کا قتل کیا۔ اس وقت عوام نے گوڈسے کو قبول نہیں کیا ، آزادی کے بہتر برس بعد گوڈسے کو ہر شکل میں زندہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں ،جو کچھ اس وقت ملک میں ہو رہا ہے ، وہ غلامی کے دنوں سے زیادہ خطرناک ہے، ہمارے سامنے فرنگی حکومت سے زیادہ شاطر لوگ موجود ہیں ،مارچ 1919 میں رولٹ ایکٹ برطانوی حکومت نے ہندوستان میں ابھرنے والی قومی تحریک کو کچلنے کے مقصد سے بنایا تھا، سر سڈنی رولٹ کی سربراہی میں سیڈیشن کمیٹی کی سفارشات کی بنا پرقانون کا مسودہ تیار کیا گیا۔ اس کے مطابق ، برطانوی حکومت کو یہ حق حاصل ہوگیا تھا کہ وہ کسی بھی ہندوستانی کو عدالت میں مقدمہ چلائے بغیر جیل میں بند کردے۔ اس قانون کے تحت اپنے خلاف مقدمہ درج کرنے والے شخص کا نام جاننے کے حق کو بھی ختم کردیا گیا تھا ۔اس قانون کے خلاف احتجاج کے طور پر ملک بھر میں ہڑتالیں ، جلوس اور مظاہرے شروع ہوگئے۔2020 میں یہی ہو رہا ہے، پولیس کو کسی بھی بے گناہ کوگرفتار کرنے کی آزادی حاصل ہے، احتجاج کرنے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے ،اتر پردیش کی حکومت احتجاج کو روندنے کے لئے ہر حد سے تجاوز کر چکی ہے،لیکن اس کے باوجود پورا ملک شاہین باغ بن چکا ہے ۔30جنوری کواحتجاج کرنے والے گاندھی کو یاد کرنے کے ارادے سے نکلے ؛لیکن اس ملک میں اب گاندھی ، امبیڈکر ، جمہوریت اور آئین کا نام لینا بھی گناہ ہو گیا ہے۔ فسطائی طاقتیں بھول گئیں کہ گاندھی مرنے کے بعد بھی زندہ ہیں، گوڈسے اسی دن مر گیا جس دن اس نے گاندھی کو مار ڈالا،ایک خوبصورت اور مہذب دنیا یہ سوچ کر خوش ہوتی رہی کہ گاندھی کسی انسان نہیں، آئیڈیا لوجی کا نام ہے،انسان مرتا ہے ،آئیڈیا لوجی زندہ رہتی ہے ؛لیکن کیا یہ محض خوش فہمی ہے ؟ گوڈسے کو زندہ رکھنے والے مخصوص نظریات کے حامی خوش ہو گئے ،خوش ہو گئے کہ گاندھی کو انہوں نے جلا وطن کر دیا،اب مسلمانوں ،دلتوں کو بھی آسانی سے جلا وطن کر دینگے ۔کیا گاندھی کو مارنا ، بہتر برس بعد جلا وطن کرنا آسان ہے ؟ وہ خوش ہیں کہ دلال میڈیا ،اخبارات ، سرکش اور اشتعال انگیز بیانات کا سہارا لے کر انہوں نے گوڈسے کا مندر تک بنا دیا، کیا یہ انکی بھول ہے کہ گاندھی ہر روشن دل میں کل بھی زندہ تھا ،آج بھی زندہ ہے ،وہ اب بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ۳۰ جنوری کی پرانی روایت کو ختم کر کے گوڈسے کو زندہ کر دینگے ۔ دو برس قبل ایک سرپھرے نے ہائی کورٹ میں گوڈسے کو بے گناہ ٹھہرانے کی ایک عرضی بھی داخل کی تھی،جسے کورٹ نے پہلی نظر میں ہی خارج کر دیا ،ایک برس قبل ایک ہندو مہا سبھا کی خاتون نے گاندھی کے مجسمے پر گولیاں چلا کر نفرت کا اظہار کیا تھا ، کیا اس سے گاندھی مر گیا ؟گاندھی کے نظریات و افکار کی ایک دنیا معترف ہے،ایک وقت تھا جب ان نظریات نے عالمی سیاست کو متاثر کیا ،پھر ہم ایک ایسے عہد سے وابستہ ہو گئے، جہاں ان نظریات کی چنداں ضرورت نہ تھی ۔گاندھی کے عہد میں بھی پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے انسانی معاشرہ اور تہذیب و ثقافت کو داغدار کیا لیکن جنگ اور تشدد سے پیدا شدہ تباہیوں سے گاندھی نے یہ سیکھا کہ آزادی کے لئے عدم تشدد کا فلسفہ لے کر آ گئے اور حکومت برطانیہ کے ساتھ عالمی سیاست کو بھی حیران ہونا پڑا کہ وہ قیادت کی اس نئی رسم سے واقف نہیں تھی ،عدم تشدد کا فلسفہ ایسا ہتھیار ثابت ہوا کہ فرنگی گاندھی اور انکے نظریات سے خوف محسوس کرنے لگے ۔کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ ساؤتھ افریقہ کا سوٹڈ بوٹڈ بیرسٹر گاندھی جب اپنے ملک ہندوستان آئے گا،تو سب سے پہلے وہ ہندوستانی شناخت کو سمجھنے کے لئے ہندو ستان کے دور دراز گاؤں کا دورہ کریگا ،کیونکہ آج بھی اصل ہندوستان کی روح کا رشتہ گاؤں سے ہے ،ہندوستان کی ثقافت اور جڑوں کے تفصیلی اور گہرے مطالعہ کے بعد موہن داس کرم چند گاندھی نے اس روٹس کو محسوس کر لیا، جس کی جڑیں ہر ہندوستانی کے دل تک پھیلی ہوئی تھیں ،یہ حقیقت ہے کہ گاندھی نہ آتے، تو حکومت برطانیہ کا تسلط کبھی ختم نہ ہوتا،اب ایک نئے گاندی کا جنم ہوا ،جس نے سو دیشی کا نعرہ دیا، خود چرخہ لے کر بیٹھا ،سوٹ بوٹ اتار پھینکا،اپنے لباس، سوت کے دھاگوں سے تیار کرنے لگا ،یہاں تک کہ کستوربا کو بھی اپنے مشن میں شامل کر لیا،یہ گاندھی کا مشن تھاکہ ہندوستانی انگریزوں کی بنایئی چیزوں سے فاصلہ رکھیںگے،نمک بھی تیار کرینگے ،اپنے لباس کے لئے اپنے ہاتھوں کے محتاج ہوںگے،حکومت برطانیہ کے ظلم کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکیںگے ،عدم تشدد کا سہارا لے کر انھیں شکست دیںگے،یہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا، جب چرچل کے نیم عریاں فقیر کے جذبے ،ضد اور فلسفوں نے حکومت برطانیہ کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔

آزادی کے ساتھ ملک کو بھیانک فرقہ وارانہ فسادات کا تحفہ ملا ،جب ملک آزادی کا جشن منا رہا تھا ،گاندھی نوا کھالی میں فسادمتاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے بھوک ہرتال پر بیٹھے تھے ،گاندھی جسے اقتدار کی کوئی لالچ نہیں تھی،ہے رام کہتے ہوئے جس نے آرام سے گوڈسے کے پستول سے نکلنے والی گولیوں کو قبول کر لیا ،اقتدار کے بھوکے سماج میں کیا آج کے دور میں کسی گاندھی کا تصور کیا جا سکتا ہے ؟یہ اس ملک کی موت ہے، جہاں گاندھی کی نا قدری کے بعد بھی عوام خاموش ہیں ،جہاں پہلے گوڈسے کی نمائندگی کرنے والے گاندھی کی آنکھوں سے عینک اتارتے ہیں، پھر گوڈسے کو عینک پہنانے کی کوشش کرتے ہیں،یہ یاد رکھیے کہ ان چھ برسوں میں گوڈسے کے مندر بھی بنتے رہے ہیں ،مندروں میں باضابطہ پوجا بھی ہوتی رہی ہے،بھکتوں کا آنا جانا بھی رہا ہے،پہلے گوڈسے کے نام پر خاموش ہو جانے والے اب سینہ تان کر گوڈسے کے قصیدے پڑھ رہے ہیں ،ممکن ہے اگلی بار سرکاری کرنسی سے گاندھی کا چہرہ ہی گم کر دیا جائے ،اس چہرے کی جگہ گوڈسے کا چہرہ آ جائے ،تو کوئی حیرت نہیں ؛کیونکہ ان کے پاس اقتدار کی طاقت ہے ،ایسی طاقت ،جہاں دلیلیں کام نہیں آتیں ۔

انسان کی موت کو گاندھی مذہب اور تقسیم کی آنکھوں سے نہیں دیکھتا تھا ،وہ چرخہ چلاتا تھا ،وہ کھادی سے اپنے کپڑے بنتا تھا ،وہ ایک نئےہندوستان کا خواب دیکھتا تھا ، اسے اپنے لئے کچھ بھی نہیں چاہیے تھا، وہ محبت کی ایک روشن مثال بن چکا تھا،ایک مضبوطی ،یہ نام ہمیں شکست کے ماحول میں حوصلہ دیتا تھا،یہ نام قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہمہ آہنگی کے لئے ایک مثال تھا،آج اس نام کو گوڈسے کی ذہنیت والوں نے روند دیا ہے ،انگریز بھی گاندھی کی عظمت کے قائل تھے ،آج گاندھی کی عظمت سے انکار کرتے ہوئے کچھ شر پسند لیڈران یہاں تک کہتے نظرآتے ہیں کہ ہم گاندھی کو ملک سے نکال باہر کرینگے ،اس بیان پر کانگریس کا رد عمل بھی شدید نہیں رہا،ملک خاموش ہے ،کیا ملک نے گاندھی کی موت کے جشن کے لئے خود کو تیار کر لیا ہے ؟کیا گاندھی کے بغیر آزادی اور ملک کا کویئی تصور باقی رہ سکتا ہے ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ گوڈسے کے حمایتی ہماری قوت برداشت کا امتحان لے رہے ہوں ،ہماری خاموشی ،ہماری ناکامی ہی گوڈسے کی جیت ہے ،کیا ایسا ہوگا ؟ ہندوستان خاموش ہے،عوام خاموش ؛لیکن یہ خاموشی کچھ کہتی ہے ،ہم نے گاندھی کو کھو دیا تو ہم ملک کو کھو دینگے ۔ گاندھی کسی شخص کا نہیں نظرئیے کا نام ہے،پر آشوب حالات میں اس نظرئیے کی ضرورت ہے،ہمیں اس نظریے کو قایم اور زندہ رکھنا ہوگا۔معہ نے گاندھی کے نظریہ کو زندہ رکھنا چاہا ،تو گوپال گوڈسے آ گیا ، شاہین باغ کی طرز پر گاندھی جی نے ایک جامع ہڑتال کا مطالبہ کیا تھا ۔ رولٹ ایکٹ گاندھی جی کی قومی سطح کی پہلی تحریک تھی۔ 24 فروری 1919کو ، گاندھی جی نے ممبئی میں "ستیہ گرہ سبھا” کا انعقاد کیا اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ‘سچ اور ‘عدم تشدد کے راستے پر چل کررولٹ ایکٹ کی مخالفت کی جائے گی۔ موجودہ ہندوستان نے گاندھی کے راستے پر چلتے ہوئے سی اے اے ، این آر سی ، این پی آر کے خلاف عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے ،اس راستے میں گوڈسے بار بار آئیں گے، مگر گاندھی کے تئیں ہم اپنے یقین کو جانے نہ دیں، فرنگیوں کو جانا ہی ہوگا!

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment