Home تراجم ایودھیاکے تئیں مسلمان کیا واقعی فکر مندہیں؟

ایودھیاکے تئیں مسلمان کیا واقعی فکر مندہیں؟

by قندیل

یوسف کرمانی
ایودھیاپر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے باوجود اس کے اردگرد بچھی سیاسی بساط سمٹنے کانام نہیں لے رہی ہے۔مسلم پرسنل لابورڈ اور جمعیت علماے ہند نے کہاہے کہ 99 فیصد مسلمان چاہتے ہیں کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ میں ریویوپٹیشن دائر کی جائے۔دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مرکزی سرکار کو ایک ٹرسٹ بنانا تھا،جو ایودھیا میں رام مندرکی تعمیر کاکام سنبھالے گا۔25دن سے زیادہ ہوچکا ہے؛لیکن اب تک ٹرسٹ نہیں بنا۔اس ٹرسٹ میں جگہ پانے کے لیے تمام سادھو سنتوں کے اکھاڑے اور کئی خود ساختہ بابا الگ سیاسی بازی گری میں مشغول ہیں۔یہ بھی صحیح ہے کہ ایودھیا پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اس معاملے سے جڑے لوگوں کے گلے نہیں اترا اور اس کے اختلافی پہلووں پر بحث مباحثہ جاری ہے؛لیکن یہاں زیر بحث 99فیصدمسلمانوں کے نام پر اٹھایاجانے والا مقدمہہے،جوبابری مسجد کی شہادت پر27سال پورے ہونے سے ٹھیک پہلے دائر کیاگیا ہے۔
ملاقات کے بعد:
جمعیت خود کو مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم بتاتی ہے۔مسلم پرسنل لا بورڈ کے 101 اساسی ارکان ہیں،جن میں تمام فرقوں کے علما شامل ہیں۔فیصلہ آنے کے بعد بورڈ نے کچھ میٹنگیں کیں اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ملک کے ننانوے فیصد مسلمان ریویوپٹیشن دائرکیے جانے کے حق میں ہیں۔ان کی رائے کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہی اس نے اس سمت میں آگے بڑھنے کا فیصلہ لیاہے ۔بورڈ کے پاس معلوم نہیں کونسا اوزار ہے،جس کے ذریعے وہ اس نتیجے پر جاپہنچا کہ جو بورڈ چاہتاہے ،وہی ننانوے فیصد مسلمان بھی چاہتے ہیں۔بورڈ اگر اپنے ایک سو ایک ارکان کے درمیان ووٹنگ کروائے،تواس میں بھی ننانوے فیصد مسلمانوں کی رائے ریویوپٹیشن کے حق میں نہیں ملے گی۔بورڈ اگر اسے ننانوے فیصد مسلمانوں کی رائے نہ بتاکر خود تنظیم کی طرف سے پٹیشن دائر کرنے کی بات کہتا،تو کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔جس بورڈ کی تشکیل میں دس فیصد بھی عام مسلمان شامل نہیں ہیں،وہ ننانوے فیصد مسلمانوں کی آڑلے کر کیوں اپنی سیاست باقی مسلمانوں پر تھوپنا چاہتا ہے؟
جمعیت علماے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ایودھیا پر فیصلہ آنے سے پہلے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے دلی میں واقع آرایس ایس ہیڈ کوارٹر میں ملاقات کی تھی۔کہنے کو تو بھاگوت نے انھیں ایک پروگرام میں بلایاتھا؛لیکن مولانا مدنی اور بھاگوت ڈیڑھ گھنٹے تک بات چیت کرتے رہے۔یہ ملاقات رواداری میں کی گئی تھی یا اس کا سیاسی مقصد تھا،کوئی نہیں جانتا۔ایودھیا پر فیصلہ اس کے بعد آیا،پھر جمعیت اور مولانا مدنی کے بیانات اس فیصلے پر تلخ سے تلخ ہوتے گئے اور بورڈ سے بھی پہلے انھوں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کردی۔مدنی صاحب کوایودھیامعاملے کی تو فکر تھی؛لیکن شہریت ترمیمی بل اور این آرسی پر انھوں نے بھاگوت سے مسلمانوں کی فکرمندی شیئر نہیں کی اور ناہی ان سے ایسی کوئی یقین دہانی حاصل کرسکے کہ دونوں بلوں میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی عیاری نہیں کی جائے گی۔
ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ ریویوپٹیشن دائر کرنے سے پہلے جمعیت علمائے ہند یا مسلم پرسنل لابورڈ نے مسلمانوں کی رائے جاننے کے لیے ان کے بیچ خود یا کسی ایجنسی سے کوئی سروے کرایاہو۔ایودھیا پر فیصلہ آنے سے پہلے ملک کی تمام مسجدوں میں جمعے سے قبل علمااور ائمہ نے یہ اپیل ضرورکی تھی کہ امن و امان قائم رکھیں؛لیکن فیصلہ آنے کے بعد ملک کی کسی مسجد میں کسی جمعے میں کسی امام کو یہ کہتے نہیں سناگیاکہ اس علاقے کے مسلمان بابری مسجد معاملے میں ریویوپٹیشن دائر کرنے کی مانگ کرتے ہیں یا اس معاملے میں بورڈ یا جمعیت کی رائے کی تائید کرتے ہیں۔اگر اس طرح کی اپیل ایک بھی مسجد میں ہوئی ہوتی، تو میڈیاکا ایک حصہ،جو مسلمانوں کے تئیں متعصب ہے،وہ اس کے پرچار پرسار میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا۔خود بورڈیا جمعیت بھی اپنی پریس کانفرنس میں ایسے قدم کی جانکاری ضرور دیتی؛اس لیے بورڈیا جمعیت کا یہ کہنا گمراہ کن ہے کہ ننانوے فیصدمسلمانوں کی رائے ریویوپٹیشن کے حق میں ہے۔
مسلمانوں میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو لے کر رنج اور غصہ ضرور ہے؛لیکن غیر متفق ہوتے ہوئے بھی انھوں نے فیصلے کو قبول کرلیاہے۔6دسمبر1992 کے سانحے کوبھی انھوں نے لگ بھگ بھلادیاہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ملک کے کسی بھی شہر میں ایک بھی جلوس یا جلسہ اس فیصلے کے خلاف نہ ہونا یہی بتاتا ہے ۔کسی بھی مسلم تنظیم نے انفرادی طورپر بھی فیصلے کے خلاف کسی طرح کا پروگرام نہیں کیا۔کچھ مسلم سلیبریٹیز نے تو آگے جاکر یہاں تک کہاکہ تاریخ کاایک باب ختم ہوا،اس معاملے میں رویویوپٹیشن دائر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔البتہ لوگ پانچ ایکڑزمین سرکار سے لی جائے یانہ لی جائے، اس معاملے پر ضرورمنقسم نظر آئے۔
مضبوط تحریک کی ضرورت:
مسلم پرسنل لابورڈ اور جمعیت سمیت تمام مسلم تنظیموں نے زمین لینے یا نہ لینے کےایشوپر مسلمانوں کی رائے جاننے کے لیے ابھی تک کوئی پہل نہیں کی ہے۔ایودھیا پر فیصلے کے بعد ملک کے کئی شہروں میں بڑے بڑے جلسے اور عرس ہوئے ہیں؛لیکن وہاں آنے والے لاکھوں لوگوں سے بھی اس بارے میں کوئی رائے نہیں پوچھی گئی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو حساس ایشوزمیں نہ الجھاکران کی ترقی کے لیے ٹھوس تحریکیں چلائی جائیں۔ایودھیا سے بھی بڑاایشومسلمانوں کے لیے فی الحال شہریت ترمیمی بل اور این آرسی ہے،جن کے حوالے سے ان تنظیموں کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔
(اصل مضمون آج کے نوبھارت ٹائمس میں شائع ہواہے،مضمون میں ظاہر کردہ خیالات مضمون نگار کے ذاتی ہیں)

You may also like

Leave a Comment