پیر ۱۵ ، مئی کو ، امریکہ کی راجدھانی واشنگٹن میں ، ایک تقریب کے دوران امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے ، صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ، وزارتِ خارجہ کی مذہبی آزادی سے متعلق ۲۰۲۲ء کی رپورٹ میں ’’ انتہائی پریشان کن رجحانات ‘‘ سامنے آئے ہیں ۔ رپورٹ میں ہندوستان ، چین ، روس اور ایران سمیت کوئی دوسو ممالک کی ، مخصوص مذہبی برادریوں یا مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو واضح طور پر نشانہ بنانے ، اور ان کے حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ اگرچہ بلنکن نے اپنی تقریر میں ہندوستان کا واضح طور پر تذکرہ نہیں کیا ، لیکن رپورٹ کے ایک حصے میں شامل تفصیلات اسی سے متعلق ہیں ۔ اس دوران پس منظر میں جو بریفنگ جاری تھی اس میں ، ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کو مسلسل نشانہ بناکر ان پر کیے جانے والے حملوں کو اجاگر کیا گیا تھا ۔ بریفنگ میں ، جو کسی گمنام ترجمان کی تھی ، بتایا گیا کہ یو ایس ہولوکاسٹ میوزیم کے ایک پروجیکٹ کے مطابق ، ہندوستان اس وقت اُن ۱۶۲ ممالک میں ، جہاں قتل عام ( نسل کشی ) کا سب سے زیادہ خطرہ ہے ، آٹھویں نمبر پر ہے ۔ امریکی رپورٹ میں ، جسے ہندوستان کی حکومت نے مسترد کر دیا ہے ، ۲۸ میں سے تیرہ ریاستوں میں تبدیلیٔ مذہب سے متعلق سخت قوانین کے نفاذ کا تذکرہ کیا گیا ہے ، اور بتایا گیا ہے کہ بہت سے معاملات ، جن میں زور زبردستی سے شادی کے لیے مذہب تبدیل کرانے کا الزام تھا ، جب ہائی کورٹوں کے سامنے گئے تو انہیں ڈِس مِس کردیا گیا ۔ رپورٹ میں ۲۰۲۲ ء کے بہت سارے واقعات کی تفصیلات دی گئی ہیں ، مثلاً گجرات میں اُن چار مسلم نوجوانوں کی ، جو گربا میں شامل ہوئے تھے ، پولیس کے ہاتھوں پٹائی ، مدھیہ پردیش کے کھرگون علاقہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کے گھروں اور دوکانوں پر بلڈوزر چلانا ، دہلی کے فسادات میں فسادیوں اور پولیس میں ’ ملی بھگت ‘ ۔ رپورٹ میں تفصیل کے ساتھ عیسائیوں پر اِس الزام میں کہ وہ زبردستی مذہب تبدیل کروا رہے تھے ، کارروائیوں اور چرچوں پر حملوں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے ۔ رپورٹ میں کرناٹک میں حجاب پر پابندی ، یو پی میں گھروں کے اندر تک نمازوں کی ادائیگی پر روک کا ذکر کیا گیا ہے ، اور بتایا گیا ہے کہ وکلاء ، سابق جج صاحبان اور دانشوران نے کئی بار پی ایم نریندر مودی کو مکتوب بھیج کر تشویش کا اظہار کیا کہ ملک کی کئی ریاستوں ، جیسے آسام ، یو پی ، دہلی ، گجرات ، ہریانہ ، کرناٹک ، ایم پی اور اتراکھنڈ میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ منصوبہ متعصبانہ برتاؤ روا رکھا جا رہا ہے ، اور آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے ۔ نپور شرما کے ذریعے توہین رسالتؑﷺ کا بھی رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے ، نیز منصوبہ بند تشدد اور ٹارگٹ کلنگ کے کئی واقعات بھی سامنے لائے گیے ہیں ۔ جموں و کشمیر میں مہاجر مزدوروں کے قتل کی لہر کا بھی ذکر ہے اور بی جے پی کے مختلف لیڈروں کے مسلمانوں کے ہوٹلوں کا بائیکاٹ کرنے ، گئو کشی کے شبہہ میں مسلمانوں کو قتل کرنے اور ہتھیار اٹھانے اور آگ لگا کر جلا دینے کی دھمکیوں اور اِن کاموں کے لیے لوگوں کو اکسانے کا بھی تفصیل کے ساتھ رپورٹ میں تذکرہ کیا گیا ہے ۔ رپورٹ طویل ہے ، اس میں سرکاری اہلکاروں کے ذریعے مذہبی اقلیتوں پر حملوں کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں اور بیجا گرفتاریوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس رپورٹ میں ۲۸ بار بی جے پی کا نام لیا گیا ہے ، وشوا ہندو پریشد کا ۲۴ اور بجرنگ دَل کا نام سات بار لیا گیا ہے ۔ رپورٹ میں مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ ، بی جے پی ترجمان نپور شرما ، یتی نرسنگھانند اور دیگر سیاسی و غیر سیاسی افراد کا ، بشمول آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت ، ان کے قول و فعل کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے ۔ بلقیس بانو ، عمر خالد کے ذکر کے ساتھ آلٹ نیوز کے محمد زبیر کے ساتھ جو سلوک کیا گیا رپورٹ میں شامل ہے ۔ رپورٹ ابتدائیہ اور چار ابواب پر مشتمل ہے ۔ چونکہ یہ رپورٹ پی ایم مودی کی حکومت کو کٹگھڑے میں کھڑا کرتی ہے ، اس لیے حکومت اسے قبول کر لیتی ، یہ ممکن نہیں تھا ، اسے ملک کی وزارتِ خارجہ نے مسترد کر دیا ہے ۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے رپورٹ کو ’ ناقص ‘ ، ’ کسی تحریک کی بنیاد پر ‘ اور ’ متعصبانہ ‘ قرار دیا ہے ۔ ارندم کا دعویٰ ہے کہ اس طرح کی رپورٹ غلط اطلاعات اور ناقص سمجھ کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں ۔ خیر ہندوستان کی مودی حکومت کو تو اِس رپورٹ کو مسترد کرنا ہی تھا ، اس لیے بھی کی ۲۰۲۴ کے پارلیمانی الیکشن قریب ہیں، اور پی ایم اپنی ساکھ خراب کرنا نہیں چاہیں گے، اور ان کا امریکہ دورہ بھی عنقریب ہے، وہ نہیں چاہیں گے کہ اس رپورٹ کی بنیاد پر وہاں ان کی کوئی مخالفت ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا رپورٹ میں جو واقعات بتائے گیے ہیں ، وہ اِس ملک میں گھٹے نہیں ہیں ؟ کیا امریکی رپورٹ کے واقعات اور بی جے پی لیڈروں کے اُکسانے والے بیانات اور یتی نرسنگھا نند کی نسل کشی کی دھمکیاں ملک بھر ہی کے نہیں دنیا بھر کے اخبارات کی شہ سرخیاں نہیں بنی ہیں ؟ ممکن ہے کہ رپورٹ کا کوئی حصہ حکومت کی نظر میں متعصبانہ ہو ، حالانکہ اس میں اُن دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا بھی ذکر ہے جو وادی کشمیر میں لوگوں کی زندگیاں اجیرن کیے ہوئے ہیں ! بہرحال حکومت کو اپنی بات سامنے رکھنے کا حق ہے ، لیکن ارندم باگچی نے رپورٹ کو مسترد کرتے اور متعصبانہ قرار دیتے ہوئے کوئی مثال پیش نہیں کی ہے ۔ سچ یہ ہے کہ مودی حکومت کے دور میں ملک کی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے ، اس نے ساری دنیا میں ہندوستان کو بدنام کیا ہے ، اس کی ساکھ کو متاثر کیا اور اس کی جمہوریت پر سوالیہ نشان لگایا ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ مودی حکومت ملک میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کو ختم کر دے ، اور مذہب کے نام پر نفرت کا کاروبار بند کر دے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ آئینہ دکھانے سے پہلے ، خود آئینے میں اپنے چہرے کو بغور دیکھے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)