جرمن فلسفی اور ماہر اقتصادیات کارل مارکس نے 1843 میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ : "مذہب عوام کے لیے افیون ہے۔” اس کی تشریح مختلف زمانوں میں مختلف دانشوروں نے الگ الگ کی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ مذہب بذات خود عوام کے لئے مفید ہے یا مضر، عوامی زندگی بالخصوص ایک سیکولر ملک میں اس کا استعمال فرد کی ذات میں محدود رکھنا ہی مفید ہے۔
مذہب افیون یا ایک نشہ آور مادہ کی طرح کام کرتا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ شاطر جماعتیں مذہب کا استعمال نہیں استحصال کرتی ہیں۔ افیون اپنے صارف کے اعصاب پر اس قدر مؤثر ہوتا ہے کہ اسے جس رخ پر موڑ دیا جائے وہ اسی پر اپنی عقل پر قفل ڈال کر آنکھیں بند کر کے چل دیتا ہے۔ میرے ایک دوست نے بطور ایڈونچر چہار یاری میں ہولی کے تہوار پر شام کو بھنگ کا پیڑہ کھایا اور اس کے بعد جوش میں شربت بھی پی لیا۔ اپنے میزبان کے گھر کے لئے پیدل چل پڑا راستے میں کسی سے پتہ پوچھا تو اس نے بتایا کہ آگے چوراہے سے لیفٹ ہو جانا۔ اس کے وہ لیفٹ ہی لیتا رہا یہاں تک کہ وہ دوسرے محلے میں پہنچ گیا۔ یہاں ایک انسان دوست نے معاملہ سمجھا اور بائیک سے اسے منزل مقصود تک پہنچایا۔ میزبان نے اسے لیموں کا ترش شربت پلایا تو نشہ اترا۔
تو ہو کے سرخ رو مجھے گالی ہزار دے
یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے
آمدم بر سر مطلب! بدقسمتی سے آج ہمارے ملک میں بھی مذہب کے نام پر لوگوں کو فرقہ پرستی کا زہر پلا کر استحصال کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں لوگ یک رخی ہو کر چل رہے ہیں۔ اس زہر کی تاثیر اس قدر شدید ہے کہ لوگ اپنی اور اپنے سماج کی فلاح و بہبود کو بھول کر متعصب مذہبی نظام اور انتہا پسندی کے حامی بنتے جا رہے ہیں۔ سماجیات کے ماہرین فکر مند ہیں اس لئے کہ اس سے نہ صرف موجودہ لوگ متاثر ہو رہے ہیں بلکہ اگر اس روش سے ان کو ابھی نہیں روکا گیا تو آنے والی نسلوں کی روش بھی یہی ہوگی۔
اس ملک عزیز میں چند سال قبل تک سیکولر ازم کے صحیح مفہوم کے مطابق حکومت کے ہاتھوں ایسا کوئی کام نہیں کیا جاتا تھا جس مذہبی شناخت نمایاں ہو حتیٰ کہ مردم شُماری میں بھی مذہبی طبقوں کی نشاندہی نہیں کی جاتی تھی۔ سرکاری عملہ اپنے دفاتر میں مذہبی شعائر ظاہر کرنے سے گریز کرتے تھے ہاں ہندوستانی سیکولرازم کا مطلب ہے کہ حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا یعنی حکومت کسی مذہب کے فروغ کے لئے یا کسی مذہب کے مخالف کام نہیں کرے گی بمعنی آخر سیکولرازم مذہب کے منافی نہیں ہے اس لئے ہر شہری ، بشمول حکومت کے کارندے, کو اپنی ذاتی زندگی میں اپنی پسند کے مذہب کی اتباع کرنے کی اجازت تھی اور ہے۔ مسئلہ اس وقت سنگین ہو جاتا ہے جب حکومت اور حزب مخالف کے بڑے عہدوں پر فائز وزراء اور قانون سازی کے ایوانوں پارلیمنٹ و اسمبلیز کے ممبران بھی مذہب اور ذات کی بنیاد پر لوگوں کی لام بندی میں مصروف ہو جائیں۔ ہندوستان ان دنوں اسی تاریک دور سے گزر رہا ہے۔