کابل :امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرانک میکنزی نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کی خواہش ہے کہ وہ مزید حملے کریں اور ہمیں خدشہ ہے کہ یہ حملے مزید جاری رہ سکتے ہیں۔کابل ایئرپورٹ کے باہر جمعرات کو ہونے والے دو دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد 85 تک پہنچ گئی ہے جب کہ 100 سے زائد افراد زخمی ہیں۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق کابل ایئرپورٹ کے بیرونی دروازے پر دو بم دھماکوں میں 13 امریکی فوجی ہلاک اور 18 زخمی ہوئے ہیں جب کہ 72 افغان شہری بھی ان دھماکوں کی نذر ہوئے ہیں۔طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ ہلاک ہونے والے افغان شہریوں میں ان کے 28 افراد بھی شامل ہیں۔دوسری جانب کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر مزید حملوں کے خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے جس کے پیشِ نظر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے انخلا کا عمل روک دیا ہے۔کابل ایئرپورٹ کے بیرونی دروازے بند ہیں اور شہریوں کو وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے۔کئی دن مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد بالآخر امریکہ پہنچنے والے افغان نڑاد امریکی شہری کا کہنا ہے کہ یہ سارا سفر بہت تکلیف دہ تھا۔ امریکہ پہنچنے والے ان شہریوں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ جانتے ہیں صبا شاہ خان کی اس رپورٹ میں۔پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن میں پاک، افغان سرد بابِ دوستی پر طالبان کے کنٹرول کے باوجود دونوں ملکوں سے لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری ہے۔ البتہ حکام اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ موقع سے فائدہ اْٹھا کر غیر قانونی طور پر بھی کچھ لوگ پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔اس صورتِ حال پر حکام کا کہنا ہے کہ چمن میں پاک افغان سرحد پر سیکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں اور قانونی دستاویزات کے بغیر کسی کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔گل آغا کا تعلق افغانستان کے صوبے قندھار سے ہے۔ ان کے کچھ رشتہ دار بلوچستان کے ضلع چمن میں رہتے ہیں اور وہ تقریباً ایک سال بعد اپنے رشتہ داروں سے ملنے پاکستان آئے ہیں۔گل آغا نے کہا کہ چوں کہ وہ افغانستان میں سرحدی علاقے میں رہتے ہیں اس لیے انہیں ‘تزکیرہ’ یعنی سرکاری دستاویزات پر پاکستان آنے کی اجازت دی جاتی ہے۔