ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی
موجودہ دور میں ایک سماجی مسئلہ، جس نے ملکی اور عالمی دونوں سطحوں پر گمبھیر صورت اختیار کرلی ہے، خواتین کی عزت و آبرو کی پامالی اور عصمت دری ہے۔ کبھی معاملہ عصمت دری پر رک جاتا ہے تو کبھی ظلم کی شکار خاتون کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ ایک گھناونی صورت اجتماعی آبروریزی کی ہے، جس میں کئی نوجوان مل کر کسی معصوم لڑکی کو اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں، پھر بڑے درد ناک طریقے سے اسے قتل کردیتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔ کسی دن کا اخبار اٹھاکر دیکھ لیجیے، عصمت دری کی بہت سی خبریں اس میں مل جائیں گی۔ ان میں سے کچھ ہی معاملے عدالتوں تک پہنچ پاتے ہیں اور جو پہنچتے ہیں، ان میں بھی عدالتی پیچیدگیوں کی وجہ سے فیصلہ آنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور بہت کم ہی کیسوں میں مجرموں کو سزا مل پاتی ہے۔
یہ واقعات اب اتنی کثرت سے پیش آنے لگے ہیں کہ ان کی سنگینی کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن انہی کے درمیان کبھی کوئی درد ناک واقعہ رونما ہوتا ہے تو عوام بیدار ہوجاتے اور اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ اس موقع پر ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف تجاویز سامنے آتی ہیں۔ مثلاً مجرموں کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیاجاتا ہے، سخت سے سخت قوانین بنانے کی بات کہی جاتی ہے، کڑی نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے اور مضبوط سیکورٹی فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے، لڑکیوں کو جوڈو کراٹا سیکھنے اور خود حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں بعض اطراف سے ایک آواز یہ بھی سنائی دیتی ہے کہ زنا کی وہ سزا نافذ کی جائے جو اسلام نے تجویز کی ہے۔ اسی بات کو بعض لوگ ان الفاظ میں کہتے ہیں کہ سزائے زنا کے لیے عرب ملکوں جیسا قانون بنایا جائے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ مطالبے ان لوگوں کی طرف سے بھی ہوتے ہیں جو اسلام کے شدید مخالف ہیں ، جو اسلام پر اعتراضات کرنے اور مسلمانوں کو برا بھلا کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، لیکن چوں کہ انھوں نے کہیں سے سن رکھا ہے کہ اسلام زنا کرنے والے کو پتھر مار مار کر ہلاک کرنے کا حکم دیتا ہے، اور جرم کی سنگینی کی بنا پر یہ سزا ان کے دل کی آواز ہوتی ہے، اس لیے ان کے اندرون میں چھپی خواہش ان کی زبان پر آجاتی ہے اور وہ خواہی نہ خواہی اسلام کا نام لینے لگتے ہیں۔
آبرو ریزی کے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت سے سخت قانون بنانے کی بات کی جائے، یا اسلامی سزائے زنا کو نافذ کرنے کی تجویز رکھی جائے، دونوں مطالبے جذباتیت کے مظہر اور سنجیدگی سے محروم ہیں۔ کتنا ہی سخت قانون بنا لیا جائے، اس سے جرائم کا بالکلیہ خاتمہ ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سماج کو پاکیزہ بنانے کی تدابیر اختیار کی جائیں اور جو چیزیں غلط کاموں پر ابھارتی اور جرائم کے ارتکاب کی جانب مائل کرتی ہیں، ان پر پابندی عائد کی جائے۔ قانون جرائم کو روکنے میں معاون تو ہوسکتا ہے، لیکن محض قانون سے ان کا سدِّ باب ناممکن ہے۔ اگر جرائم کے تمام محرکات اور ترغیبات کو علی حالہ باقی رکھا جائے اور محض کوئی سخت تر قانون منظور کرلیا جائے تو جرائم میں تو کوئی کمی نہیں آئے گی، البتہ قانون کے غلط انطباقات کے اندیشے بڑھ جائیں گے۔ عدالتوں کے بھاری مصارف کی بنا پر اس کا خدشہ رہے گا کہ غریب اور اپنے دفاع سے عاجز سزاپاجائیں اور مال دار اور طاقت ور اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے سزا سے بچ جائیں۔اسی طرح اسلام کے کسی ایک حکم کا مطالبہ اور دیگر احکام سے صرفِ نظر درست رویّہ نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے اسلامی نظام کو ایک کل کی حیثیت سے قبول کرنا ہوگا۔ اسلامی تعلیمات کے اثرات کا مشاہدہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پورے کے پورے اسلام کو نافذ کیا جائے۔ جس طرح کوئی مشین اسی وقت صحیح طریقے سے کام کرے گی، جب اس کے تمام پرزے اپنی اپنی جگہ فٹ ہوں، اگر اس میں سے کوئی ایک پرزہ نکال لیا جائے تو نہ مشین صحیح ڈھنگ سے وہ کام کرے گی جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے اور نہ اس نکالے گئے پرزے سے وہ کام لیا جاسکتا ہے جو پوری مشین کے کرنے کا تھا، اسی طرح اسلام کے کسی ایک قانون کو نافذ کردیا جائے اور اس کے دیگر احکام پر عمل نہ کیا جائے تو اس سے بھی مطلوبہ فائدے حاصل نہیں ہوسکتے۔
ہر انسان میں فطری طور پر جنس (Sex) کی خواہش پائی جاتی ہے۔ اس کے تعلق سے مختلف رویّے اختیار کیے گئے ہیں۔ایک رویّہ جنسی خواہش کو دبانے اور کچلنے کا ہے تو دوسرا رویہ اس کے معاملے میں ہر طرح کی آزادی کی وکالت کرتا ہے۔ اسلام نہ تو جنسی جذبہ کو دبانے اور کچلنے کی ترغیب دیتا ہے اور نہ انسان کو کھلی چھوٹ دے دیتا ہے۔ وہ ہر انسان کو اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کا حق دیتا ہے، لیکن ساتھ ہی اس نے اس کی تکمیل کو نکاح کا پابند بنایا ہے اور اس سے ماورا کسی طرح کا تعلق رکھنے کو حرام قرار دیا ہے۔اس کی نظر میں جتنا سنگین جرم زنا بالجبر ہے، اتنا ہی سنگین جرم زنا بالرضا بھی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کوئی بھی لڑکا یا لڑکی بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد بغیر نکاح کے نہ رہیں، بلکہ جلد از جلد نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں۔ چنانچہ وہ ان کے سر پرستوں کو اس کی طرف متوجہ کرتا اور ان کا نکاح کرادینے کی تلقین کرتا ہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے نکاح کی صرف ترغیب ہی نہیں دی، بلکہ اسے آسان بنانے کے صریح احکام دیے ہیں۔
ایک چیز یہ بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد انسان کی بھرپور تربیت کرتے ہیں اور اسے زندگی کے کسی معاملے میں بہکنے سے بچاتے ہیں۔ ان عقائد پر ایمان سے آدمی کی زندگی سنورتی اور اس میں پاکیزگی آتی ہے۔ خاص طور پر دو عقائد کا کردار اس معاملے میں بہت نمایاں ہے:ایک یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ ہرجگہ موجود ہے اورہر انسان کو دیکھ رہا ہے۔ وہ کوئی کام چاہے علانیہ کرے یا چھپ کر، اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کی خبر ہوجاتی ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے۔دوسرا عقیدہ آخرت کاہے۔ اس کے مطابق یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہ دنیا فنا ہوجائے گی اور دوسری دنیا برپا ہوگی۔ اس میں تمام انسان دوبارہ پیدا کیے جائیں گے اور ان سے اس دنیا میں کیے گئے ان کے تمام اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ جن لوگوں نے یہاں اچھا کام کیے ہوں گے انھیں جنت عطا کی جائے گی، جس میں طرح طرح کی نعمتیں ہوں گی اور جن لوگوں نے یہاں برے کام کیے ہوں گے انھیں جہنم میں جھونک دیا جائے گا، جس میں تکلیف و اذیت کا ہر سامان موجود ہوگا۔ اس کے علاوہ اسلام نے ہر فرد کے اندر حیا کا جذبہ ابھارا ہے۔یہ جذبہ اسے بے حیائی کے کاموں سے روکتا ہے۔ اگر کسی کے اندر حیا نہ ہو تو وہ غلط سے غلط کام کا ارتکاب کرسکتا ہے۔
اسلام نے افراد کے لیے جنسی آسودگی فراہم کرنے کے ساتھ معاشرہ کی پاکیزگی قائم رکھنے کے لیے مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔ یہ تدابیر افراد کو جرائم کا ارتکاب کرنے سے باز رکھتی ہیں اور جنسی جرائم کے تمام ممکنہ چور دروازوں کو بند کرتی ہیں۔ مثلاً اس نے مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیا ہے کہ وہ بدنگاہی سے بچیں اور آبرو کی حفاظت کریں۔ اس کی ایک تعلیم یہ ہے کہ کوئی مرد یا عورت کسی نامحرم کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے۔ وہ مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط پسند نہیں کرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ مرد اور عورتیں گھل مل کر نہ رہیں،اس لیے کہ مخلوط طور پر رہنے سے ان میں صنفی جذبات ابھرنے کا امکان رہتا ہے اور یہ چیز بسا اوقات بدکاری تک پہنچا سکتی ہے۔اسلام کی ایک ہدایت یہ ہے کہ کوئی عورت اپنے شوہر یا محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔وہ اپنی ضروریات کے لیے مختصر مسافت تک تو تنہا نکل سکتی ہے، لیکن دور کی مسافت پر تنہا جانا اس کے لیے روا نہیں ہے۔اسلام نے حکم دیا ہے کہ کوئی عورت سج دھج کر گھر سے باہر نہ نکلے اور نہ باہر نکلتے وقت خوشبو لگائے۔ اس لیے کہ اگر وہ ایسا کرے گی تو اجنبی مردوں کی نگاہیں اس کی جانب اٹھیں گی اور ان کے صنفی جذبات مشتعل ہوں گے، اس وجہ سے اس پر دست درازی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔اسلام کا ایک حکم یہ ہے کہ عورتیں ایسا لباس پہنیں جو ان کے پورے جسم کو (سوائے چہرہ اور ہاتھ کے) چھپانے والا ہو۔ نہ ان کا سر کھلا ہو، نہ گریبان چاک ہو اور نہ لباس اتنا شفّاف ہو کہ ان کا بدن جھلکتا ہو۔ وہ غیر مردوں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار نہ کریں۔
درج بالا احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ اسلام نے ان چیزوں پر بھی پابندی عائد کی ہے جو بدکاری پر ابھارنے والی اور مردوں اور عورتوں میں صنفی جذبات برانگیختہ کرنے والی ہیں۔چنانچہ اس نے شراب کو حرام قرار دیا ہے۔شراب کے بارے میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ وہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ شراب پینے کے بعد آدمی اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہتا اور بھلے برے کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ اسے کچھ پتہ نہیں رہتا کہ کب کیا حرکت کر بیٹھے؟ اسی طرح شراب سے آدمی کے صنفی جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں اور رشتوں کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔ظاہر ہے، جب اسلام کے نزدیک شراب نوشی حرام ہے تو وہ شراب کی فیکٹریاں قائم کرنے اور اس کا کاروبار چلانے کی کیوں کر اجازت دے سکتا ہے!اسی طرح اسلام سماج میں فحاشی کی اشاعت کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ وہ ان تمام چیزوں پر پابندی عائد کرتا ہے جن کے ذریعے بے حیائی اور عریانی عام ہو، گندی باتوں اور گندے کاموں کا پرچار ہو، جنھیں دیکھ کر اور سن کر عوام کے صنفی جذبات بھڑکیں اور برائی اور بدکاری کی جانب ان کا میلان ہو۔ موجودہ دور میں سماج میں فحاشی، بے حیائی اور عریانی پھیلانے والی بہت سی چیزیں رواج پا گئی ہیں، مثلاً گندی فلمیں، عریاں پوسٹر اور اشتہارات، بے حیائی کا پرچار کرنے والے رسائل، انٹرنیٹ پربے شمار عریاں سائٹس وغیرہ۔ سماج کے لیے ان چیزوں کا ضرر رساں ہونا کھلی حقیقت ہے، لیکن چوں کہ انھوں نے انڈسٹریز کی شکل اختیار کرلی ہے اور ان سے حکومت اور سربر آوردہ طبقہ کو خطیر رقمیں حاصل ہوتی ہیں اس لیے ان کی خطرناکی کو نظر انداز کرکے انھیں خوب بڑھا وا دیا جا رہا ہے۔
ان تعلیمات اور ہدایات کے بعدآخر میں اسلامی قانون اپنا کام کرتا ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود سماج میں کچھ ایسے بدخصلت افراد ہوسکتے ہیں جو بدکاری میں ملو ّث ہوجائیں۔ ایسے لوگوں کے لیے اسلام درد ناک سزا تجویز کرتا ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ زنا کرنے والے غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکی، ہر ایک کو سو کوڑے مارے جائیں اور اگر وہ شادی شدہ ہوں تو انھیں پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے۔
معاشرہ کو پاکیزہ رکھنے کے لیے اسلام کی ان تعلیمات کے اثرات کا دنیا نے اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ عرب کا معاشرہ فسق و فجور کے دلدل میں غرق تھا، عصمت و عفّت کے کوئی معنیٰ نہیں تھے۔ اسلام کی ان تعلیمات کے نتیجے میں ان کی زندگیاں پاکیزہ ہوگئیں اور عورت کو عزت و توقیر حاصل ہوئی۔ بعد کے ادوار میں جہاں جہاں ان تعلیمات پر عمل کیا گیا اور ان احکام کو نافذ کیا گیا وہاں سماج پر ان کے خوش گوار اثرات مرتب ہوئے۔ آج بھی جو لوگ سماج میں برائیوں کو پنپتا دیکھ کر فکر مند ہیں اور آبرو ریزی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے اسلامی سزا کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور اسے نافذ کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اگر وہ سنجیدہ ہیں تو انھیں پورے اسلامی نظام معاشرت کو قبول کرنا اور اسلام کی تمام تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا، تبھی مطلوبہ فائدے حاصل ہوسکتے ہیں، برائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے اور معاشرہ کی پاکیزگی قائم رکھی جاسکتی ہے۔