بنارس کی گیان واپی مسجد کے خلاف جیسے جیسے افواہوں کا بازارگرم ہورہا ہے، ویسے ویسے اورنگزیب کے خلاف نفرت اور تعصب کا طوفان بھی بڑھ رہا ہے۔اورنگزیب کو ولن ثابت کرنے کے لیے ایسی باتیں کہی جارہی ہیں‘جن کاحقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔اورنگزیب کے خلاف نفرت کے اس طوفان کی وجہ سے ہی خلدآباد ( مہاراشٹر)میں واقع ان کے مقبرے میں تالا ڈال دیا گیا ہے، کیونکہ بعض شرپسندوں نے اس مقبرے اور مرقد کو مسمار کرنے کی دھمکی دی ہے۔ادھر نئی دہلی میں واقع اورنگزیب لین کے سائن بورڈکو مٹاکر اسے بابا وشوناتھ مارگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اورنگزیب روڈ کو پہلے ہی سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کے نام سے موسوم کیا جاچکا ہے۔اورنگزیب پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ اس نے مندروں کو توڑ کر مسجدیں تعمیر کیں۔
بنارس کی گیان واپی مسجد کے بارے میں بھی یہ پروپیگنڈہ بہت زور وشور سے کیا جاتا رہاہے کہ اس کی تعمیر اورنگ زیب نے مندتوڑ کر کرائی تھی۔ حالانکہ گیان واپی مسجد اورنگزیب سے پہلے تعمیر ہوچکی تھی اور وہاں مندر توڑنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔اس پروپیگنڈے کے برعکس اگر آپ غیرجانبدار مورخین کا مطالعہ کریں تو پائیں گے کہ اورنگزیب نے اپنے دوراقتدار میں سب سے زیادہ مندروں کو جائیدادیں عطا کیں اور انھیں مالامال کیا، لیکن سنگھ پریوار نے اورنگزیب کے خلاف اس حد تک نفرت پھیلارکھی ہے کہ بیشتر لوگ ان کا نام آتے ہی پھدکنے لگتے ہیں۔
جب سے بی جے پی نے مرکز میں اقتدار سنبھالا ہے تب سے ان یادگاروں کو مٹانے کی کوششیں عروج پر ہیں، جنھیں اس ملک میں قومی یکجہتی یا پھر ہندومسلم اتحاد کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاج محل، قطب مینار، شاہی عیدگاہ اور جامع مسجد کے نیچے بھی مندر تلاش کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ مسلم عہد کے بعض خوبصورت مقبروں کو بھی مندروں میں بدلنے کی کوششیں جاری ہیں اور ان کے سائن بورڈ غائب کیے جارہے ہیں۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ملک میں وہ تمام عمارتیں اور نشانیاں خطرے میں ہیں جنھیں مسلم بادشاہوں نے بنایا تھا اور جن کی وجہ سے ہندوستان کا نام دنیا کے نقشہ پر عزت واحترام کے ساتھ لایاجاتاہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ مغلیہ عہد کی سب سے خوبصورت عمارت تاج محل کو آج بھی پوری دنیا میں ہندوستان کا تاج تصور کیا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ سیاح اسے ہی دیکھنے آتے ہیں اور اس سے حکومت کو کروڑوں روپوں کا زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔
اورنگزیب کے بارے میں اس وقت جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے، اس کی حقیقت جاننے کے لیے آئیے ہم بی این پانڈے کا رخ کرتے ہیں، جو ایک زمانے میں اڑیسہ کے گورنر تھے اور ان کا شمار ملک کے اہم مورخین اور دانشوروں میں ہوتا تھا۔انھوں نے اورنگ زیب کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، وہ یقینا پڑھنے اور یاد رکھنے کے قابل ہے۔
ابوالمظفرمحی الدین محمدجنھیں عرف عام میں اورنگ زیب عالمگیر کے نام سے جانا جاتا ہے، مغلیہ سلطنت کے چھٹے تاجدار تھے۔ان کی پیدائش 3 نومبر1668کو داہوڑ میں ہوئی۔ ان کا عہد سلطنت 1658سے شروع ہوا اور ان کے انتقال1707تک جاری رہا۔ اس طرح انھوں نے ہندوستان پر آدھی صدی تک راج کیا۔ان کی زندگی کا مقصد ہندوستان کے زیادہ سے زیادہ حصوں کو اپنی سلطنت میں شامل کرنا تھا جس کے لیے انھوں نے جنگ وجدال کی راہ اپنائی۔ بیس برسوں تک وہ دکن کی ریاستوں کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔30 مارچ 1707 کو انھوں نے احمدنگر (مہاراشٹر) میں وفات پائی اور انھیں خلد آباد میں دفن کیا گیا، جس کانام بدل کر اب سمبھا جی نگر کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔
اس وقت بی این پانڈے کی لکھی ہوئی ایک مختصر کتاب ”ہندوستان میں قومی یکجہتی کی روایات“ پیش نظر ہے۔ اس کتاب کو 1988میں خدابخش لائبریری پٹنہ نے شائع کیا تھا، جو ایک سرکاری ادارہ ہے۔اس لیے اس کتاب کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اس کتاب کا ایک اقتباس آپ کی نذر ہے تاکہ آپ پر اورنگزیب کی اصلیت آشکارا ہوسکے۔ وہ لکھتے ہیں:
”جس طرح شیواجی کے متعلق انگریز مورخوں نے غلط فہمیاں پیدا کیں، اسی طرح اورنگ زیب کے متعلق بھی۔ ایک اردو شاعر نے بڑے سوز کے ساتھ لکھاہے:
تمہیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا
کہ عالم گیر ہندو کش تھا، ظالم تھا، ستمگر تھا
بچپن میں، میں نے بھی اسکولوں کا لجوں میں اسی طرح کی تاریخ پڑھی تھی اور میرے دل میں بھی اس طرح کی بدگمانی تھی۔ لیکن ایک واقعہ پیش آیاجس نے میری رائے قطعی بدل دی۔ میں تب الہ آباد میونسپلٹی کا چیئرمین تھا۔ تربینی سنگم کے قریب سومیشور ناتھ مہادیو کا مندر ہے۔ اس کے پجاری کی موت کے بعد مندر اور مندر کی جائیداد کے دو دعویدارکھڑے ہوگئے۔ دونوں نے میونسپلٹی میں اپنے نام داخل خارج کی درخواست دی۔ ان میں سے ایک فریق نے کچھ دستاویزیں بھی داخل کی تھیں۔ دوسرے فریق کے پاس کوئی دستاویز نہ تھی۔ جب میں نے دستاویز پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ وہ اورنگزیب کا فرمان تھا۔ اس میں مندر کے پجاری کو ٹھاکر جی کے بھوگ اور پوجا کے لیے جاگیر میں دو گاؤں عطا کیے گئے تھے۔ مجھے شبہ ہوا کہ یہ دستاویز نقلی ہیں۔ اورنگزیب تو بت شکن تھا۔ وہ بت پرستی کے ساتھ کیسے اپنے کو وابستہ کرسکتا تھا؟ میں اپنا شک رفع کرنے کے لیے سیدھا اپنے چیمبر سے اٹھ کرسر تیج بہادر سپرو کے یہاں گیا۔ سپرو صاحب فارسی کے عالم تھے۔ انھوں نے فرمان کو پڑھ کر کہا کہ یہ فرمان اصلی ہیں۔ میں نے کہا ”ڈاکٹر صاحب، عالمگیر تو مندر توڑتا تھا، بت شکن تھا، وہ ٹھاکر جی کے بھوگ اور پوجا کے لیے کیسے جائیداد دے سکتا ہے؟“
سپرو صاحب نے منشی کو آوازدے کر کہا ”منشی جی، ذرا بنارس کے جنگم باڑی شیو مندر کی اپیل کی مثل تو لاؤ۔“
منشی جی مثل لے کر آئے توڈاکٹر سپرو نے دکھایا کہ اس میں اورنگ زیب کے چار فرمان تھے جن میں جنگموں کو معافی کی زمین عطا کی گئی تھی۔
ڈاکٹر سپرو ہندوستانی کلچر سوسائٹی کے صدر تھے، جس کے عہدے داروں میں ڈاکٹر بھگوان داس، سید سلیمان ندوی،پنڈت سندر لال اور ڈاکٹر تارا چند تھے۔ میں بھی اس کا ایک ممبر تھا۔ ڈاکٹر سپرو کی صلاح سے میں نے ہندوستان کے خاص خاص مندروں کی فہرست مہیا کی، اور ان سب کے نام یہ خط لکھا کہ اگر آپ کے مندروں کو اورنگزیب یا مغل بادشاہوں نے کوئی جاگیر عطا فرمائی ہو(خصوصاً اورنگزیب)تو ان کی فوٹو کاپیاں مہربانی کرکے بھیجیں۔ دوتین مہینے کے انتظار کے بعدہمیں مہاکال مندراجین،بالا جی مندرچترکوٹ، کاماکھیہ مندر گوہاٹی، جین مندر گرنار، دلواڑا مندر آبواورگرودواررام رائے دہرہ دون وغیرہ سے اطلاع ملی کہ ان کو جاگیریں اورنگ زیب نے عطا کی تھیں۔ مورخوں کی تاریخ کے مطابق ایک نیا اورنگ زیب ہماری آنکھوں کے سامنے ابھر آیا۔“(’ہندوستان میں قومی یکجہتی کی روایات‘ازبی این پانڈے، صفحہ17اور 18،ناشرخدابخش اورینٹل لائبریری، پٹنہ، 1988)
یہ محض ایک اقتباس ہے ورنہ یہ اور دوسری کئی کتابیں اورنگزیب کی مذہبی رواداری کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔مگر اورنگزیب کے خلاف سنگھ پریوار کی پروپیگنڈہ مشنری اتنی سرگرم ہے کہ لوگ کوئی دوسری بات سننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کی عقل پر پتھر پڑ گئے ہیں۔