شکیل رشید(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
وزیراعظم نریندر مودی نے ایسا کیوں کیا؟کیا ایک سیکولر جمہوری ملک کے لیے یہ ٹھیک ہے؟
یہ سوال ایک صاحب نے بڑے ہی غصے سے پوچھا تھا۔ وہ اس بات پر خفا تھے کہ وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے آئندہ نومبر تک آنے والے سب ہی تہواروں کے نام لیے مگر بقرعید کا ذکر تک نہیں کیا۔ ان کا اشارہ 30 جون کے وزیراعظم کے اس خطاب کی طرف تھا جس میں انہوں نے کورونا کی وباء سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤن اور بتدریج کیئے جا رہے اَن لاک کے دوران مرکزی سرکار کے اقدامات کا تذکرہ کرتے ہوئے رکھشا بندھن اور گنیش چترتھی سے لے کر دیوالی اور چھٹ تک ہر تہوار کا نام لیا تھا، اور لوگوں سے احتیاط برتنے کی درخواست کی تھی۔ حالانکہ بقرعید کا تہوار اگست ہی میں ہے لیکن ان کی زبان پر اس کا نام تک نہیں آیا تھا۔ ویسے انہوں نے کرسمس کا نام بھی نہیں لیا تھا، شاید اس لیے کہ سرکاری سہولیات صرف نومبر کے مہینے تک کے لیے ہی ہیں۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سرکاری سہولیات دسمبر تک رکھی ہی اس لیے نہ گئی ہوں کہ کہیں عیسائیوں کے تہوار کرسمس کا نام نہ لینا پڑ جائے۔ بات جو بھی ہو وزیراعظم نے اپنے خطاب میں صرف ہندو تہواروں کے ہی نام لیے۔ لیکن اس میں ناراض ہونے کی یا غصے میں آنے کی کیا بات ہے؟ وزیراعظم مودی نے ایسا نہ پہلی دفعہ کیا ہے اور نہ آخری دفعہ، انہوں نے پہلے بھی ایسے اقدامات کیے اور ایسی باتیں کہی ہیں جنہیں ایک طبقہ غیر جمہوری اور غیر سیکولر قرار دیتا رہا ہے۔ جب 2014 کے الیکشن ہونے والے تھے اور مودی ابھی گجرات کے وزیراعلیٰ ہی تھے تب عالمی نیوز ایجنسی رائٹر نے ان سے ایک انٹرویو لیا تھا جس میں ایک سوال گجرات کے 2002 کے مسلم کش فسادات سے متعلق تھا کہ کیا گجرات تشدد پر انہیں افسوس ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مودی نے کتّے کے پلّے کی مثال دی تھی کہ میں ایک وزیر اعلیٰ ہوں یا نہ ہوں ایک انسان تو ہوں اگر کوئی کتّے کا پلّا گاڑی کے نیچے آجائے تو افسوس تو ہوگا ہی۔ چونکہ انہوں نے گجرات فسادات کے پس منظر میں یہ بات کہی تھی اس لیے اگر لوگوں نے یہ سمجھا کہ وہ فسادات میں مارے جانے والوں کو کتّے کے پلّے سے تعبیر کر رہے ہیں تو وہ یہ سمجھنے میں کچھ غلط بھی نہیں تھے۔ اور جو سیاست داں ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے لیے پلّے والی مثال دے اس سے بھلا یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے خطاب میں مسلمانوں کے تہوار بقرعید کا ذکر کرے گا!! ایسی کوئی بھی امید فضول ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد مودی نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ تو لگایا مگر وکاس صرف ہندوتوادیوں کا ہی کیا۔ دراصل مودی سرکار نے پہلی پاری سے ہی اس راستے پر چلنا شروع کردیا تھا جو ملک کو ہندو راشٹر کی سمت لے جا سکے، اسی لیے فیصلے بھی ہندوؤں بلکہ ہندوتوادیوں کے مفادات کو مدنظر رکھ کر کیے گئے۔ اور دوسری پاری میں سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرے کے ساتھ سب کا وشواس بھی نتھی کر دیا گیا، لیکن اس پاری کے آغاز ہی سے فیصلوں میں مسلم مخالفت کی شدت بڑھتی گئی، اور مسلم اقلیت کا جو رہا سہا وشواس تھا وہ بھی دم توڑ گیا۔ طلاق اور شادی کے عائلی قوانین میں مداخلت اس لیے نہیں تھی کہ مودی سرکار مسلم خواتین کی بےبسی اور بے کسی پر غمزدہ تھی، مداخلت صرف اس لیے تھی کہ مسلم اقلیت کو یہ باور کرایا جاسکے کہ سیکولر اور جمہوری کہلانے والے بھارت میں بھی ان سے ان کے مذہبی حقوق چھینے جا سکتے ہیں۔ اور حقوق چھینے بھی گئے۔ کبھی راست اور کبھی بالواسطہ۔ بابری مسجد تمام ثبوتوں کے باوجود رام مندر کی تعمیر کے لیے سونپ دی گئی، سی اے اے کے نام سے ناپسند لوگوں کی شہریت کو مشکوک کرنے کا ایک قانون پارلیمنٹ سے منظور کرا لیا گیا، اور اسے منظور کرانے میں نام نہاد سیکولر سیاسی پارٹیاں اور سیاست داں بھی شامل تھے، اس طرح بھارت میں مسلمانوں کے وجود پر سوالیہ نشان لگانے کا ایک آلہ حاصل کرلیا گیا۔ لہٰذا جو وزیراعظم مسلمانوں کی شہریت کو ہی مشتبہ بنانے کے لیے پیش پیش ہو اس سے بھلا یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے خطاب میں مسلمانوں کے تہوار بقرعید کا ذکر کرے گا!!
سی اے اے، این آر سی اور این پی آر مودی سرکار کے تین ایسے ‘کارنامے’ ہیں جو بھارت کی جمہوریت اور اس کے سیکولرزم کے دعوے کو کٹگھرے میں لا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔ سی اے اے کے خلاف مسلمان اور بھارت کی دیگر اقلیتیں اور پچھڑے طبقات نے تو تشویش کا اظہار کیا ہی ہے، اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے بھی تشویش ظاہر کی ہے۔ لیکن کیا کسی کی بھی تشویش پر حکومت کے کان پر جوں رینگی؟ جی نہیں!! مودی سرکار پر کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ اس نے الٹے ان طلباء اور نوجوانوں کو اور ان خواتین کو جنہوں نے دہلی ہی نہیں ملک بھر میں آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے یا بالفاظ دیگر آئینی حقوق کا استعمال کرتے ہوئے سی اے اے، این پی آر و این آر سی کے خلاف احتجاجی تحریکیں اور مظاہرے کیے تھے، قانونی اقدامات شروع کر دیے۔دہلی کے مسلم کش فسادات کے لیے انہیں ملزم بنا دیا اور یو اے پی اے جیسے سخت ترین قانون کے تحت ان کے خلاف کارروائی شروع کردی۔ دہلی کی پولیس نے ہر اس شخص کو نشانے پر لے لیا جو سی اے اے مخالف تحریک سے کسی نہ کسی صورت میں جڑا ہوا تھا۔ سرکار کے ایک اشارے پر ان کے نام بھی ایف آئی آر میں درج کر لیے گئے جو اپنی ساری زندگی فرقہ پرستی کے خلاف اور لوگوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے سینہ سپر رہے ہیں۔ ان ڈاکٹر حضرات پر بھی کارروائی کا خطرہ منڈلانے لگا ہے جنہوں نے فسادات کے دوران زخمیوں کو طبی امداد دی تھی۔ الہند اسپتال کے مالک ڈاکٹر انور کا نام ایک ایف آئی آر میں درج کر لیا گیا ہے۔ بھلا جو سرکار جمہوری اور آئینی تحریکیں نہ برداشت کر پاتی ہو اورفرقہ پرستی کے مخالفین اور حقوقِ انسانی کے کارکنان اور ڈاکٹر تک کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرنے سے نہ ہچکچاتی ہو اس سرکار کے مکھیہ سے یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے خطاب میں بقرعید کا ذکر کرے گا!!
اگر کسی حکومت کی جمہوریت اور سیکولرزم کے پیمانے کو ناپنا ہو تو اس کے لیے یہ کلیہ ہے کہ اس کے اداروں کی آزادی کو پرکھ لیا جائے۔جس ملک میں سرکاری ادارے اور ایجنسیاں جتنا آزاد ہوں گی اس ملک کا جمہوریت اور سیکولرزم کا دعویٰ اسی قدر مضبوط ہوگا۔ کیا بھارت میں ایسا ہے؟ ہم اوپر دہلی پولیس کا ذکر کر آئے ہیں، اس کے تعلق سے ابھی پچھلے دنوں ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ وہ دہلی فسادات کے شکایت کنندگان پر شکائتیں نہ درج کروانے کے لیے اور گواہوں پر بیانات بدلنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ نثار احمد نامی ایک کپڑا تاجر نے باضابطہ عدالت میں درخواست کی ہے کہ پولیس ان کی شکایت درج نہیں کر رہی ہے بلکہ ان پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ چوری کی شکایت درج کروائیں۔ دہلی کے بھاگیرتھی وہار کے رہنے والے نثار احمد کا کہنا ہے کہ فروری میں دہلی فسادات کے دوران ان کی دکان اور ان کے مکان کو لوٹ لیا گیا تھا۔ نثار احمد نے لوٹ پاٹ میں حصہ لینے والے چند افراد کے نام بھی اپنی شکایت میں لکھے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ عینی گواہ ہیں کہ فسادی جو تھے وہ آتے جاتے لوگوں کی شناخت کے لیے ان کی پینٹ اتار کر دیکھتے تھے اور تلوار سے کاٹ کر لوگوں کو نالے میں ڈال دیتے تھے، برقعہ پوش عورتوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور ان کی خود کی اپنی دکان کو اور مکان کو لوٹ لیا گیا۔ پولیس ان کی شکایت درج کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اور بی جے پی کے لیڈر دھمکیاں دیتے پھر رہے ہیں۔ یہ کوئی واحد معاملہ نہیں ہے۔ دہلی پولیس پر حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ الزام ہے کہ عینی گواہوں کی سینکڑوں تحریری گواہیاں دبا دی گئی ہیں، ان گواہیوں میں بی جے پی لیڈران بالخصوص کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کی شر انگیزیوں کا بھی ذکر تھا۔ یہ وہی پولیس ہے جس پر، فیضان نامی ایک نوجوان کو جان سے مارنے کا اور فیضان کی والدہ قسمتن کی طرف سے بیان بدلوانے کے لیے دباؤ ڈالنے کا الزام ہے۔ دہلی پولیس پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنا رہی ہے اور فسادات کے ملزمین اور کارروائیوں کی تفصیلات یہ کہہ کر بتانے سے انکار کر رہی ہے کہ یہ حساس معاملے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پولیس آزاد نہیں ہے، اسے مودی سرکار میں نمبر دو کی پوزیشن کے حامل مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی انگلی کے اشارے پر کام کرنا پڑ رہا ہے اور وہ بڑی دلجمعی سے یہ کام کر بھی رہی ہے۔ یاد رہے کہ وہ جمہوریت ناقص ہوتی ہے جس میں پولیس غیر جمہوری طرز اپنائے، چاہے ایسا وہ حکومت کے اشارے پر کرے یا بااثر شخصیات کے اشارے پر۔ اب بھلا جس حکومت میں مسلمانوں کی جائز شکائتیں نہ سنی جا رہی ہوں، پولیس شکایت کنندگان پر شکایت نہ درج کروانے کے لیے دباؤ ڈالتی ہو اس حکومت کا حاکم کیوں مسلمانوں کے تہوار بقرعید کا ذکر کرے گا!!
اس سرکار کا ایک اور ادارہ ہے جسے حقوق انسانی کے قومی کمیشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ادارہ کتنی آزادی سے اور کتنے دباؤ میں کام کرتا ہوگا اس کا اندازہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلبہ پر کیمپس اور لائبریری کے اندر پولیس کے تشدد کی اس رپورٹ سے ہو جاتا ہے جو ابھی چند روز پہلے ہی سامنے آئی ہے۔ کمیشن کی ایک ٹیم نے ایس ایس پی منزل سینی کی قیادت میں جامعہ کا دورہ کیا تھا جہاں 15 دسمبر 2019 کو اطلاعات کے مطابق پولیس نے سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر کیمپس کے اندر اور لائبریری میں زیادتی کی اور تشدد کیا تھا۔ کمیشن کی رپورٹ میں، سی اے اے کے خلاف جمع مظاہرین کی بھیڑ کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، رپورٹ کے مطابق احتجاجیوں نے تشدد کیا، سرکاری اور پرائیوٹ املاک کو نقصان پہنچایا اور پولیس اہلکاران پر سنگ باری کی، پٹرول بم پھینکے اس لیے ان کا یہ دعویٰ کہ درست نہیں ہے کہ وہ احتجاج کے اپنے آئینی حق کا استعمال کر رہے تھے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ایک ایسی بات کہی ہے جو اس کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے احتجاج کے حقیقی مقاصد اور اس کے پس پشت حقیقتاً رہے لوگوں کی نقاب کشائی ضروری ہے کیونکہ لگ یہ رہا ہے کہ بڑی ہی ہوشیاری سے طلباء کی آڑ میں اس احتجاج کا انتظام کیا گیا۔ واضح رہے کہ بی جے پی سرکار بھی یہی کہتی چلی آ رہی ہے کہ مظاہروں کے پس پشت جو افراد ہیں وہ حکومت کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ کمیشن نے پولیس ایکشن کی ساری ذمہ داری طلباء پر ڈال دی اور پولیس کے تعلق سے صرف یہ کہا کہ لائبریری کے اندر پولیس نے طلباء کی جو پٹائی کی اس سے بچا جا سکتا تھا۔ کمیشن کے اپنے الفاظ یہ ہیں "یہ پولیس کی غیر ذمے دارانہ حرکت تھی اس سے بچا جا سکتا تھا۔” کمیشن نے جو سفارشات پیش کی ہیں ان میں یہ تو کہا ہے کہ ان پولیس والوں کو شناخت کرکے جنہوں نے غیر ذمے داری سے طلباء کی پٹائی کی، ان پر مناسب کارروائی کی جائے، لیکن ان کے خلاف قانونی کارروائی کی کوئی سفارش نہیں کی ہے۔ کمیشن نے جامعہ انتظامیہ کو بھی ذمے دار قرار دیا ہے، پروکٹر آفس کو بھی اور مقامی پولیس کو بھی کہ وہ حالات سے بے خبر رہی لیکن تشدد کرنے والی پولیس کو تقریباً کلین چٹ دے دی ہے۔ حقائق سب کے سامنے ہیں، سی سی، فوٹیج اور پولیس تشدد کی ویڈیو کلپ ہیں۔ پولیس لائبریری کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئی تھی یہ سچ بھی لوگوں کے سامنے ہے۔ پولیس تشدد کی سینکڑوں تحریری گواہیاں داخل کی گئی ہیں، مگر ان سب کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔کمیشن کی رپورٹ سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ پولیس کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ حقوقِ انسانی کے قومی کمیشن کی اس رپورٹ کو جامعہ کے طلباء اور حقوق انسانی کے ماہرین اور سی اے اے مخالف کارکنان کے حقوق کے لیے بنے این جی او نے مسترد کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ ایک مذاق ہے، ان کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس رپورٹ کو پڑھ کر یہ لگتا ہے کہ یہ باتیں حقوق انسانی کے قومی کمیشن کی نہیں وزارت داخلہ کی ہیں۔ جس ملک میں حقوق انسانی کا قومی کمیشن تک نہ آزاد ہو وہاں جمہوریت اور سیکولرزم کی باتیں کیا کوئی معنی رکھتی ہیں؟ یہ سوال اپنے آپ میں جواب ہے۔ لہٰذا ان افراد سے جو مودی کے خطاب پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ وزیراعظم نے بقرعید کا ذکر کیوں نہیں کیا، اتنا ہی کہنا ہے کہ وزیراعظم کو کیا پڑی ہے کہ وہ بقرعید کا ذکر کریں، وہ تو اس ملک کو ہندو راشٹر کی راہ پر لے جانے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہی ان کا بنیادی مقصد ہے، اس لیے وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے یا ایسی بات نہیں کریں گے جس سے ہندوتوادیوں کو یہ لگے کہ وہ ہماری نہیں غیروں کے مفادات کی فکر کرنے لگے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)